پختونخوامیں بلدیاتی الیکشن تحریک انصاف کاکارنامہ

5 سال تک عوامی نیشنل پارٹی کی صوبے میں حکومت رہی لیکن اس کے باوجود اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کٰے جا سکے

5 سال تک عوامی نیشنل پارٹی کی صوبے میں حکومت رہی لیکن اس کے باوجود اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کٰے جا سکے۔

FAISALABAD:
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی مخلوط حکومت پرالزامات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن ان انتخابات پر تنقید کرنیوالے یہ بھول گئے ہیں کہ 10 سال بعد ہونیوالے بلدیاتی انتخابات پی ٹی آئی حکومت ہی کا کارنامہ ہے۔

اس سے پہلے5 سال تک عوامی نیشنل پارٹی کی صوبے میں حکومت رہی لیکن اس کے باوجود اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کٰے جا سکے جبکہ موجودہ صوبائی اسمبلی میں بلدیاتی انتخابات کا ایکٹ پاس ہونے کے16 ماہ بعد اختیارات نچلی سطح پر منتقل کر دیے گئے ہیں جس پر بلاشبہ صوبائی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک مبارک باد کے مستحق ہیں۔

جہاں تک ان انتخابات کے انعقاد میں بد نظمی کی بات ہے تو کیا سیاسی جماعتیں جو آج شور و غل کر رہی ہیں انحیں یہ احساس نہیں تھا کہ جب 41 ہزار2 سو62 نشستوں پر انتخاب ہو گا اور 84 ہزار 2 سو20 امیدوار میدان میں ہوں گے، 74 لاکھ مرد اور55 لاکھ سے زیادہ خواتین ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اس کے لیے انتظامات کیسے ممکن ہوں گے؟ اور بڑے پیمانے پر ہونے والے انتخابات ایک دن میں کروانا کس طرح مناسب رہیں گے یہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر کیا انتخابات سے قبل انہیں مرحلہ و ار کروانے کی تجویز نہیں دے سکتے تھے۔


یہاں سپریم کورٹ کے جج حضرات کے وہ ریمارکس بھی قابل توجہ ہیں کہ جن میں وہ بھی اس خدشے کا اظہار کرتے رہے کہ انتخابات کی ایک بہت بڑی مشق کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔وزیر اعلیٰ نے یہ بھی درست کہا کہ صوبے بھر کے 24 اضلاع میں 12 ہزار کے لگ بھگ پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے جن کے لیے پولیس کی نفری نہ ہونے کے برابر تھی صوبے کے پاس اتنی پولیس ہی نہیں جو پولنگ اسٹیشنوں پر ڈیوٹی انجام دیتی۔ ان کا یہ موقف بھی تھا کہ الیکشن کمشن کو فوج طلب کرنا چاہیے تھا اور ایک اہم بات پرویز خٹک نے جو کی وہ یہ تھی کہ اگر الیکشن کمشن نے شکایات پر جو نوٹس لیے ہیں ان کی تحقیقات کا کیا گیا اور صوبائی حکومت کو ایکشن لینے کا کہا گیا تو وہ فوری طور پر الیکشن کمیشن کے احکام پر عمل درآمد کریں گے۔

ایک ایسے وقت میں جب خیبر پختونخوا کے عوام دہشت گردی کے عفریت سے بڑی مشکل اور ایک لمبے عرصے کے بعد باہر نکلے ہیں 30 مئی کا دن بہت سی خامیو ں، خرابیوں اور بہت سے پریشانیوں کے باوجود ایک یادگار دن رہے گا کہ جو گہما گہمی دکھائی دی اور جس طرح بڑی تعداد میں مردو وخواتین نے ووٹ پول کیے بلاشبہ اسے ہی جمہوریت کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔البتہ ایک بات ضرور واضح ہوگئی ہے کہ اب ترقی کرتے زمانے میں دھاندلی سمیت بدانتظامی کے الزامات سے باہر نکلنے کے لیے الیکٹورل ریفارمز خاص طور پر اب بائیو میٹرک سسٹم کی جانب پیش قدمی کی ضرورت ہے تاکہ بہت سی خرابیاں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔

 
Load Next Story