جرمنی میں شرح پیدائش دنیا میں کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے کم

پیدائش میں کمی کے باعث ایک مضبوط افرادی قوت کے بغیرجرمنی لمبےعرصے اپنی اقتصادی برتری کوبرقرارنہیں رکھ سکے گا،رپورٹ


ویب ڈیسک May 31, 2015
ملک گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فی 1 ہزار آبادی میں 8.2 بچے پیدا ہوئے،تحقیق،فوٹو فائل

جہاں ملک میں حکومت بچوں کی نگہداشت کے منصوبوں میں خاطر خواہ سرمایہ کاری میں مصروف ہے وہیں تحقیق کے مطابق جرمنی میں بچوں کی شرح پیدائش دنیا میں کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے کم ہوگئی ہے۔

جرمنی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں بچوں کی پیدائش کی شرح نہ صرف جاپان سے کم ہوئی ہے بلکہ دنیا میں بھی کم ترین ہوگئی ہے جس کے باعث جرمنی میں افرادی قوت کی کمی معیشت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

جرمن آڈٹ فرم بی ڈی اواورہیمبرگ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس کی تحقیق کے مطابق ملک میں گزشتہ 5 برسوں کے دوران فی ایک ہزار آبادی میں 8.2 فیصد بچے پیدا ہوئے جبکہ اسی عرصے کے دوران جاپان میں فی ایک ہزارآبادی میں 8.4 فیصد بچے پیدا ہوئے تاہم یورپ میں پرتگال اوراٹلی بالترتیب دوسرے اور تیسرے درجہ پر رہے جہاں فی ایک ہزار آبادی میں بالترتیب 9 اور 9.3 فیصد بچوں نے جنم لیا۔ اسی طرح فرانس اور برطانیہ میں بھی فی ایک ہزار آبادی میں 12.7 فیصد بچوں کی پیدائش ہوئی۔

ہیمبرگ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اِکنامکس کے ڈائریکٹرہیننگ وایوپل کا کہنا ہے کہ جرمنی کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کا مطلب یہ ہے کہ 2030 میں کام کرنے کی عمر20 تا 65 برس کے حامل افراد کا تناسب 61 فی صد سے کم ہوکر 54 فی صد رہ جائے گا۔ بی ڈی اے کے بورڈ کی ایک رکن ارنوپروبسٹ کا کہنا ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کے باعث ایک مضبوط افرادی قوت کے بغیرجرمنی لمبے عرصے اپنی اقتصادی برتری کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔