متفرقات
وطن عزیز میں حکومتیں ہوں یا ریاستی ادارے، اس وقت جاگتے ہیں، جب کوئی افتاد درپیش ہوتی ہے۔
وطن عزیز میں حکومتیں ہوں یا ریاستی ادارے، اس وقت جاگتے ہیں، جب کوئی افتاد درپیش ہوتی ہے۔ جیسے آج کل چہار سو Axact اسکینڈل کا چرچا ہے۔ چونکہ امریکی اخبار میں خبر اور اداریہ شایع ہوگیا ہے، اس لیے ہر تفتیشی ادارہ مقدور بھر مستعدی دکھا رہا ہے۔ وگرنہ سبھی خواب خرگوش میں محو تھے۔ چونکہ معاملہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، اس لیے شاید وقتی طور پر کچھ اوندھی سیدھی کارروائیاں کر کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر کسی ٹھوس اور پائیدار نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول، ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی اہلیت و صلاحیت مشکوک ہے، جو میرٹ کے بجائے رشوت اور سفارش کی بنیاد پر ان اداروں میں بھرتی ہوئے ہیں۔
دوئم، جوابدہی اور احتساب کا واضح مکینزم نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن اور بدعنوانی کا عنصر پیشہ ورانہ کارکردگی پر حاوی رہتا ہے۔ سوئم، سیاسی دباؤ پیشہ ورانہ بنیادوں پر بروقت اور مناسب کارروائی کرنے سے روکنے کا سبب بن رہا ہے۔جدید دنیا میں حکمرانی ایک پیچیدہ اور ماہرانہ اہلیت کی ذمے داری تصور کی جاتی ہے۔ یہ بادشاہتوں کا دور نہیں کہ پدرم سلطان بود کی بنیاد پر اولاد، پھر اس کی اولاد حکمران بن جائے۔ لیکن یہ طے ہے کہ دور شہنشاہی میں بھی حکمرانی آسان کام نہیں ہوا کرتی تھی۔ وہی بادشاہ عوام میں مقبولیت حاصل کرتا تھا، جو انھیں خوشحالی دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مگر ہم جس خطے میں رہتے ہیں، وہاں عوام و خواص کے Genes میں خوشامد رچی بسی ہے۔
وہ لوگ جو کم و بیش ڈھائی ہزار برس سے حملہ آوروں کی مدح سرائی میں غلطاں و پیچاں چلے آ رہے ہوں، جب حکمرانی کا بوجھ سر پر پڑتا ہے، تو نظام سقہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ان سے صائب حکمرانی کی توقع عبث ہے۔ کم و بیش ڈھائی ہزار برس قبل افلاطون بھی یہ کہہ گیا تھا کہ کبھی تاجروں اور فوجیوں کو اپنا حکمران مت بنانا، مگر ہماری سیاسی تاریخ کے بیشتر حصہ میں یہی دو طبقے حکمران رہے ہیں، بلکہ آج تک چلے آ رہے ہیں۔ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ بابائے قوم نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے اپنی محنت شاقہ سے اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا تھا۔ مگر ان کا کوئی کاروبار نہیں تھا، سوائے وکالت۔ آج بھی دنیا کے بیشتر بلکہ 90 فیصد حکمران قانون دان ہیں۔
بابائے قوم کے بعد ملک میں مختلف حکمرانوں کی حکمرانی کا تقابلی جائزہ لیں، تو سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے طرز حکمرانی میں واضح فرق نظر آئے گا۔ وہ سیاستدان جن کا تعلق افلاطون کے فلسفہ کے مطابق اہل دانش طبقے سے تھا، انھوں نے معاملات و مسائل کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دور اندیشی اور تدبر سے فیصلے کیے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ جب کہ سول اور ملٹری بیوروکریٹس نے فیصلے جبراً مسلط کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں عوام میں مرکز گریز رجحانات پیدا ہوئے۔ مگر انا، خودسری اور تکبر میں اکڑی گردنوں والے حکمرانوں نے کبھی نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
جب ہم قانون دان کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مراد آج کے وکلا نہیں ہیں، جنھوں نے قانون پر عمل کرنے کے بجائے قانون کو ہاتھ میں لینا اپنا تفاخر سمجھ لیا ہے۔ ایک قانون دان قانون کی موشگافیوں، پیچیدگیوں اور نزاکتوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ وہ اپنے علم، فکر و دانش اور اپنی اجتماعی طاقت کو مفاد عامہ میں استعمال کرتا ہے۔ وہ ان قوانین کی تنسیخ کے لیے مہم چلاتا ہے، جو حقوق انسانی سے متصادم ہوتے ہیں اور ایسے قوانین تجویز کرتا ہے، جو عوام کی زندگیوں میں امن و سکوں اور بہتر زندگی کی نوید دے سکیں۔ وطن عزیز ہی کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو جمہوریت کی بحالی اور آمریت کو کھل کر چیلنج کرنے میں وکلا کا نمایاں کردار نظر آئے گا۔ مگر انھوں نے کبھی قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔
بہت سے سینئر قارئین کو یاد ہو گا کہ ایوب خان کے آخری دور میں پورے ملک میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی تھی، جس کے تحت چار یا اس سے زائد افراد کا اجتماع غیر قانونی ہوتا ہے۔ وکلا نے جلوس نکالنا تھا اور نکالا، لیکن قانون شکنی بھی نہیں کی۔ دو دو گز کے فاصلے پر دو دو وکلا بینر تھامے خاموشی کے ساتھ سڑک کے کنارے اس طرح چلے کہ کسی کو اجتماع کا گماں بھی نہ ہو اور احتجاج بھی ہو جائے۔ مگر آج دست اندازی اور اجتماعی طاقت کے غلط استعمال (Power Abuse) کو وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔ یہ اہل علم کی شان نہیں، بلکہ جہل آمادگی کی علامت ہے۔
وطن عزیز میں سیاسی کلچر، سماجی Fabric اور اخلاقی اقدار کی تباہی کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا۔ جہاں ایک طرف دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی پروان چڑھتی روایت کو سبوتاژ کر کے بندوق کی نال پر فیصلوں کے کلچر کو پروان چڑھایا گیا، وہیں دوسری طرف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی اور ٹریڈ یونین تحریک کو تقسیم در تقسیم کے ذریعے کمزور کر دیا گیا۔ اس طرح سیاست میں نئے کیڈر کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔ پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے دم توڑتے برادری سسٹم میں نئی جان ڈال دی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں رہی سہی قومی سیاست کا بھی جنازہ نکل گیا۔ نئے کیڈر کی سیاست میں آمد کا سلسلہ رک جانے کی وجہ سے سیاست پر برادری، لسانی اور قبائلی شناخت مضبوط ہو گئی۔
اس صورتحال کے دو نقصانات اب تک سامنے آ چکے ہیں۔ اول، نئے کیڈر کی آمد رک جانے کے باعث سیاسی جماعتیں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ دوئم، نظریاتی بنیاد (Ideological base) ختم ہو جانے کی وجہ سے ان کا ملک گیر دائرہ عمل بھی محدود ہو کر علاقائی اثر و رسوخ تک محدود ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر سیاسی جماعتیں جو ماضی میں قومی سیاست کی شاندار روایات رکھتی تھیں، سکڑ کر صوبائی یا علاقائی جماعتیں بن چکی ہیں۔ ان جماعتوں کی کامیابی ان کے نظریات کے بجائے وہ Electables ہیں، جو اپنے اپنے علاقے میں ووٹ حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہ جماعتیں وسیع تر قومی مفاد کے بجائے Electables کے مقامی مفادات کے گرد گھومنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔
1988ء سے 2013ء کے عام انتخابات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ سبھی جماعتیں قومی سے علاقائی یا صوبائی جماعتیں بن چکی ہیں۔ اس وقت کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے، جو سیاسی اصولوں کی بنیاد پر حقیقی معنی میں قومی جماعت کہلا سکے۔ ریاست چلانے کا دوسرا اہم نکتہ شفافیت اور میرٹ ہے۔ قول حضرت علیؓ ہے کہ ''کفر کی حکومت چل سکتی ہے، ظلم و بربریت کی حکومت نہیں''۔ مراد یہ ہے کہ شفافیت اور میرٹ کے بغیر انصاف ممکن نہیں، جب انصاف نہیں تو حکمرانی ظلم و بربریت کی بدترین مثال بن جاتی ہے۔ انگریزوں نے اس قول کو عملاً ثابت کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے ڈیڑھ سو سالہ دور حکمرانی میں برصغیر کو وہ ترقی دی، جو ان سے پہلے کے حکمران 7 سو برس کی حکمرانی میں نہیں دے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ انگریز نے اتنے بڑے ہندوستان پر ریل (Rail)، میل (Mail) اور جیل (Jail) کے ذریعے حکمرانی کی۔ لیکن تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے شعبہ پر نظر ڈالی جائے تو اس کے کارنامے کہیں زیادہ ہیں۔ ہر تحصیل میں ہائی اسکول، ہر ضلع میں انٹرمیڈیٹ کالج اور ہر صوبے میں یونیورسٹی۔ 1857ء سے 1947ء کے درمیان پورے ہندوستان میں 21 جامعات قائم کیں۔ نجی شعبہ کی جامعات اس کے سوا تھیں۔ ہر ضلع میں ایک سول اسپتال اور سماجی ترقی کے لیے میونسپل ادارے۔ سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا پورے ہندوستان میں جال پھیلا دیا۔ اگر قومی اور مذہبی جذبے سے سرشار لوگ مجھے معاف کر دیں تو عرض ہے کہ اگر انگریز اس خطے میں نہ آتا تو شاید ہم پسماندگی میں افغانستان سے بھی بہت پیچھے ہوتے۔
اب اگر چین کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیں، تو ایسا لگتا ہے کہ ہمیں چین کے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ خدا نہ کرے یہ خواب چکنا چور ہو۔ مگر جس انداز میں حکمران اس تعلق کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ڈر لگتا ہے کہ کہیں اس کا حشر بھی ''بول چینل'' جیسا نہ ہو۔ یہ حسین شہید سہروردی جیسے قانون دان کا سیاسی ویژن تھا کہ انھوں نے اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھی، جب اس پر ہر طرف سے پابندیاں عائد تھیں۔ جسے بھٹو مرحوم جیسے ایک اور قانون دان نے اپنی وزارت خارجہ اور پھر وزارت عظمیٰ کے دور میں بام عروج پر پہنچایا۔
بھٹو مرحوم کی زبان سے کبھی کسی نے ایسے جملے نہیں سنے ہوں گے کہ ہماری دوستی ''شہد سے زیادہ میٹھی''، ''سمندر سے زیادہ گہری'' یا ''ہمالیہ سے زیادہ بلند'' ہے۔ کیونکہ ایک بالغ النظر سیاست دان کی حیثیت سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ ڈپلومیسی میں ریاستوں کے درمیان تعلق جذبات پر نہیں باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسے جملے تو ایک دکاندار اپنے گاہکوں کا دل لبھانے کے لیے بولتا ہے، تا کہ اپنا مال بیچ سکے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو تو نہ مال بیچنا آتا ہے اور نہ خریدنا۔ وہ ریلوے انجنوں کے نام پر ٹین ڈبے خرید لاتے ہیں۔ اپنے منافع بخش ادارے اونے پونے بیچ ڈالتے ہیں۔ اس لیے ایسے حکمرانوں سے کسی اچھائی کی توقع کرنا دل جلانے کے سوا کچھ اور نہیں۔ چند روز بعد سالانہ بجٹ کی آمد ہے، دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا گل کھلائے جاتے ہیں۔
یہ ہماری بدنصیبی ہے یا حالات کی گردش کہ دنیا خوشحالی کی نئی منزلیں تلاش رہی ہے، جب کہ ہم اپنی توانائیاں اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ بیشتر ایشیائی ممالک میں معاشی و سماجی ترقی کے لیے مسابقت جاری ہے اور ہم آج بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہمارا نظم حکمرانی کیا ہونا چاہیے۔ دنیا سائنس و ٹیکنالوجی میں نئی نئی ایجادات اور جدتیں لا رہی ہے، جب کہ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ DNA ٹیسٹ کو بطور گواہی شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ہم آج بھی 16 ویں صدی کی قبائلی ذہنیت سے چھٹکارا نہیں پا سکے، عالمی سطح پر کیا خاک مسابقت کر سکیں گے۔
دوئم، جوابدہی اور احتساب کا واضح مکینزم نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن اور بدعنوانی کا عنصر پیشہ ورانہ کارکردگی پر حاوی رہتا ہے۔ سوئم، سیاسی دباؤ پیشہ ورانہ بنیادوں پر بروقت اور مناسب کارروائی کرنے سے روکنے کا سبب بن رہا ہے۔جدید دنیا میں حکمرانی ایک پیچیدہ اور ماہرانہ اہلیت کی ذمے داری تصور کی جاتی ہے۔ یہ بادشاہتوں کا دور نہیں کہ پدرم سلطان بود کی بنیاد پر اولاد، پھر اس کی اولاد حکمران بن جائے۔ لیکن یہ طے ہے کہ دور شہنشاہی میں بھی حکمرانی آسان کام نہیں ہوا کرتی تھی۔ وہی بادشاہ عوام میں مقبولیت حاصل کرتا تھا، جو انھیں خوشحالی دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مگر ہم جس خطے میں رہتے ہیں، وہاں عوام و خواص کے Genes میں خوشامد رچی بسی ہے۔
وہ لوگ جو کم و بیش ڈھائی ہزار برس سے حملہ آوروں کی مدح سرائی میں غلطاں و پیچاں چلے آ رہے ہوں، جب حکمرانی کا بوجھ سر پر پڑتا ہے، تو نظام سقہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ان سے صائب حکمرانی کی توقع عبث ہے۔ کم و بیش ڈھائی ہزار برس قبل افلاطون بھی یہ کہہ گیا تھا کہ کبھی تاجروں اور فوجیوں کو اپنا حکمران مت بنانا، مگر ہماری سیاسی تاریخ کے بیشتر حصہ میں یہی دو طبقے حکمران رہے ہیں، بلکہ آج تک چلے آ رہے ہیں۔ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ بابائے قوم نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے اپنی محنت شاقہ سے اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا تھا۔ مگر ان کا کوئی کاروبار نہیں تھا، سوائے وکالت۔ آج بھی دنیا کے بیشتر بلکہ 90 فیصد حکمران قانون دان ہیں۔
بابائے قوم کے بعد ملک میں مختلف حکمرانوں کی حکمرانی کا تقابلی جائزہ لیں، تو سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے طرز حکمرانی میں واضح فرق نظر آئے گا۔ وہ سیاستدان جن کا تعلق افلاطون کے فلسفہ کے مطابق اہل دانش طبقے سے تھا، انھوں نے معاملات و مسائل کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دور اندیشی اور تدبر سے فیصلے کیے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ جب کہ سول اور ملٹری بیوروکریٹس نے فیصلے جبراً مسلط کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں عوام میں مرکز گریز رجحانات پیدا ہوئے۔ مگر انا، خودسری اور تکبر میں اکڑی گردنوں والے حکمرانوں نے کبھی نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
جب ہم قانون دان کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مراد آج کے وکلا نہیں ہیں، جنھوں نے قانون پر عمل کرنے کے بجائے قانون کو ہاتھ میں لینا اپنا تفاخر سمجھ لیا ہے۔ ایک قانون دان قانون کی موشگافیوں، پیچیدگیوں اور نزاکتوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ وہ اپنے علم، فکر و دانش اور اپنی اجتماعی طاقت کو مفاد عامہ میں استعمال کرتا ہے۔ وہ ان قوانین کی تنسیخ کے لیے مہم چلاتا ہے، جو حقوق انسانی سے متصادم ہوتے ہیں اور ایسے قوانین تجویز کرتا ہے، جو عوام کی زندگیوں میں امن و سکوں اور بہتر زندگی کی نوید دے سکیں۔ وطن عزیز ہی کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو جمہوریت کی بحالی اور آمریت کو کھل کر چیلنج کرنے میں وکلا کا نمایاں کردار نظر آئے گا۔ مگر انھوں نے کبھی قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔
بہت سے سینئر قارئین کو یاد ہو گا کہ ایوب خان کے آخری دور میں پورے ملک میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی تھی، جس کے تحت چار یا اس سے زائد افراد کا اجتماع غیر قانونی ہوتا ہے۔ وکلا نے جلوس نکالنا تھا اور نکالا، لیکن قانون شکنی بھی نہیں کی۔ دو دو گز کے فاصلے پر دو دو وکلا بینر تھامے خاموشی کے ساتھ سڑک کے کنارے اس طرح چلے کہ کسی کو اجتماع کا گماں بھی نہ ہو اور احتجاج بھی ہو جائے۔ مگر آج دست اندازی اور اجتماعی طاقت کے غلط استعمال (Power Abuse) کو وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔ یہ اہل علم کی شان نہیں، بلکہ جہل آمادگی کی علامت ہے۔
وطن عزیز میں سیاسی کلچر، سماجی Fabric اور اخلاقی اقدار کی تباہی کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا۔ جہاں ایک طرف دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی پروان چڑھتی روایت کو سبوتاژ کر کے بندوق کی نال پر فیصلوں کے کلچر کو پروان چڑھایا گیا، وہیں دوسری طرف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی اور ٹریڈ یونین تحریک کو تقسیم در تقسیم کے ذریعے کمزور کر دیا گیا۔ اس طرح سیاست میں نئے کیڈر کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔ پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے دم توڑتے برادری سسٹم میں نئی جان ڈال دی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں رہی سہی قومی سیاست کا بھی جنازہ نکل گیا۔ نئے کیڈر کی سیاست میں آمد کا سلسلہ رک جانے کی وجہ سے سیاست پر برادری، لسانی اور قبائلی شناخت مضبوط ہو گئی۔
اس صورتحال کے دو نقصانات اب تک سامنے آ چکے ہیں۔ اول، نئے کیڈر کی آمد رک جانے کے باعث سیاسی جماعتیں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ دوئم، نظریاتی بنیاد (Ideological base) ختم ہو جانے کی وجہ سے ان کا ملک گیر دائرہ عمل بھی محدود ہو کر علاقائی اثر و رسوخ تک محدود ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر سیاسی جماعتیں جو ماضی میں قومی سیاست کی شاندار روایات رکھتی تھیں، سکڑ کر صوبائی یا علاقائی جماعتیں بن چکی ہیں۔ ان جماعتوں کی کامیابی ان کے نظریات کے بجائے وہ Electables ہیں، جو اپنے اپنے علاقے میں ووٹ حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہ جماعتیں وسیع تر قومی مفاد کے بجائے Electables کے مقامی مفادات کے گرد گھومنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔
1988ء سے 2013ء کے عام انتخابات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ سبھی جماعتیں قومی سے علاقائی یا صوبائی جماعتیں بن چکی ہیں۔ اس وقت کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے، جو سیاسی اصولوں کی بنیاد پر حقیقی معنی میں قومی جماعت کہلا سکے۔ ریاست چلانے کا دوسرا اہم نکتہ شفافیت اور میرٹ ہے۔ قول حضرت علیؓ ہے کہ ''کفر کی حکومت چل سکتی ہے، ظلم و بربریت کی حکومت نہیں''۔ مراد یہ ہے کہ شفافیت اور میرٹ کے بغیر انصاف ممکن نہیں، جب انصاف نہیں تو حکمرانی ظلم و بربریت کی بدترین مثال بن جاتی ہے۔ انگریزوں نے اس قول کو عملاً ثابت کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے ڈیڑھ سو سالہ دور حکمرانی میں برصغیر کو وہ ترقی دی، جو ان سے پہلے کے حکمران 7 سو برس کی حکمرانی میں نہیں دے سکے۔
کہا جاتا ہے کہ انگریز نے اتنے بڑے ہندوستان پر ریل (Rail)، میل (Mail) اور جیل (Jail) کے ذریعے حکمرانی کی۔ لیکن تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے شعبہ پر نظر ڈالی جائے تو اس کے کارنامے کہیں زیادہ ہیں۔ ہر تحصیل میں ہائی اسکول، ہر ضلع میں انٹرمیڈیٹ کالج اور ہر صوبے میں یونیورسٹی۔ 1857ء سے 1947ء کے درمیان پورے ہندوستان میں 21 جامعات قائم کیں۔ نجی شعبہ کی جامعات اس کے سوا تھیں۔ ہر ضلع میں ایک سول اسپتال اور سماجی ترقی کے لیے میونسپل ادارے۔ سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا پورے ہندوستان میں جال پھیلا دیا۔ اگر قومی اور مذہبی جذبے سے سرشار لوگ مجھے معاف کر دیں تو عرض ہے کہ اگر انگریز اس خطے میں نہ آتا تو شاید ہم پسماندگی میں افغانستان سے بھی بہت پیچھے ہوتے۔
اب اگر چین کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیں، تو ایسا لگتا ہے کہ ہمیں چین کے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ خدا نہ کرے یہ خواب چکنا چور ہو۔ مگر جس انداز میں حکمران اس تعلق کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ڈر لگتا ہے کہ کہیں اس کا حشر بھی ''بول چینل'' جیسا نہ ہو۔ یہ حسین شہید سہروردی جیسے قانون دان کا سیاسی ویژن تھا کہ انھوں نے اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھی، جب اس پر ہر طرف سے پابندیاں عائد تھیں۔ جسے بھٹو مرحوم جیسے ایک اور قانون دان نے اپنی وزارت خارجہ اور پھر وزارت عظمیٰ کے دور میں بام عروج پر پہنچایا۔
بھٹو مرحوم کی زبان سے کبھی کسی نے ایسے جملے نہیں سنے ہوں گے کہ ہماری دوستی ''شہد سے زیادہ میٹھی''، ''سمندر سے زیادہ گہری'' یا ''ہمالیہ سے زیادہ بلند'' ہے۔ کیونکہ ایک بالغ النظر سیاست دان کی حیثیت سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ ڈپلومیسی میں ریاستوں کے درمیان تعلق جذبات پر نہیں باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسے جملے تو ایک دکاندار اپنے گاہکوں کا دل لبھانے کے لیے بولتا ہے، تا کہ اپنا مال بیچ سکے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو تو نہ مال بیچنا آتا ہے اور نہ خریدنا۔ وہ ریلوے انجنوں کے نام پر ٹین ڈبے خرید لاتے ہیں۔ اپنے منافع بخش ادارے اونے پونے بیچ ڈالتے ہیں۔ اس لیے ایسے حکمرانوں سے کسی اچھائی کی توقع کرنا دل جلانے کے سوا کچھ اور نہیں۔ چند روز بعد سالانہ بجٹ کی آمد ہے، دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا گل کھلائے جاتے ہیں۔
یہ ہماری بدنصیبی ہے یا حالات کی گردش کہ دنیا خوشحالی کی نئی منزلیں تلاش رہی ہے، جب کہ ہم اپنی توانائیاں اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ بیشتر ایشیائی ممالک میں معاشی و سماجی ترقی کے لیے مسابقت جاری ہے اور ہم آج بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہمارا نظم حکمرانی کیا ہونا چاہیے۔ دنیا سائنس و ٹیکنالوجی میں نئی نئی ایجادات اور جدتیں لا رہی ہے، جب کہ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ DNA ٹیسٹ کو بطور گواہی شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ہم آج بھی 16 ویں صدی کی قبائلی ذہنیت سے چھٹکارا نہیں پا سکے، عالمی سطح پر کیا خاک مسابقت کر سکیں گے۔