’’مردہ ڈالر‘‘ کا پیدا کردہ عالمی معاشی بحران آخری حصہ
امریکا نے عالمی معاشی بحران کو مردہ ڈالر تمام یورپی ملکوں کی معیشت میں داخل کرکے پیدا کیا تھا
پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں امریکا نے یورپی ملکوں کو سب سے زیادہ ڈالر کا قرضہ دیا۔ دیگر سامراجی ملکوں فرانس، بیلجیم، اٹلی، نیدرلینڈ، سوئیڈن، سوئٹزرلینڈ نے اپنے اثر تلے ملکوں کو قرضے دیے تھے۔ مقروض ممالک آسٹریا، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، ڈنزگ، ڈنمارک، اسٹونیا، فن لینڈ، یونان، ہنگری، لیٹویا، لیتھونیا، ناروے، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ، اسپین، یوگوسلواکیہ اور جرمنی تھے۔ قرض دینے والے ان 6 ملکوں جن میں برطانیہ اور امریکا شامل نہیں ہیں۔ ان ملکوں کے پاس 1928 میں فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو 1878.0 ملین ڈالر تھا اور گولڈ ریزرو 1987.0 ملین ڈالر تھا۔ 1932 میں ان کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 348.0 ملین ڈالر رہ گیا اور گولڈ ریزرو 4872.0 ملین ڈالر بڑھ گیا تھا۔ اور مقروض 18 ملکوں جو چھ ملکوں کے ساتھ برطانیہ اور امریکا کے بھی مقروض ملک تھے۔
1928میں ان کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 642.0 ملین ڈالر تھا اور گولڈ ریزرو 1503.0 ملین ڈالر تھا۔ 1932 میں ان کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو 157.0 ملین ڈالر تھا اور گولڈ ریزرو 1007.0 ملین ڈالر رہ گیا تھا۔ قرض دینے والے ملکوں کے پاس 1932 میں گولڈ ریزرو میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اور ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو میں بہت کمی ہوگئی تھی اس کی وجہ یہ تھی مقروض ملکوں نے فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر اور گولڈ ریزرو ڈالر سامراجی ملکوں کو قرض کے سود پر ادا کیے تھے دوسرا 18ملکوں کے تجارتی خسارے CDMED سڈ مڈ کے لگنے سے بڑھتے گئے جس پر فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر اور ساتھ ہی گولڈ ریزرو ان 18 ملکوں سے نکلتا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی سامراجی بڑے ملک امریکا پر اثرات واضح طور پر کھل کر سامنے آگئے۔ کیونکہ امریکی ڈالروں کا غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ 18 ملکوں کے علاوہ چھ دوسرے سامراجی ملکوں پر بھی موجود تھا۔ اس کے نتیجے میں امریکی بینکوں کو واپس ڈالر آنے لگے اور حکومتوں نے امریکا سے اپنے Balance Withdraw کرنے شروع کردیے تھے۔ کتاب Year Book of the International Trade Statistics 1950-54 New York کے صفحے 95 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکا سے 1932 میں 810.0 ملین ڈالر کا سونا نکل گیا تھا۔
1933 میں 367.0 ملین ڈالر کا سونا نکل گیا تھا۔ جو مجموعی 1177.0 ملین ڈالر تھا۔ اگر یہی شکل مزید جاری رہتی تو امریکا کے لیے ''مردہ ڈالروں'' کے بدلے سونے کی ادائیگی کے لیے مزید دباؤ بڑھتا جاتا۔ عالمی معاشی بحران امریکی ڈالر کے غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ کا نتیجہ تھا۔ جو یورپی معیشتوں میں گردش کررہا تھا۔ 1933 میں امریکا جان چکا تھا کہ امریکا بہت جلد پوری دنیا کے سامنے بری طرح ڈیفالٹر ہونے والا ہے۔ اس مشکل کے تدارک کے لیے امریکی تھنک ٹینکوں نے (MGFP) Monetary Gold Fraud Plan مالیاتی گولڈ فراڈ پلان تیار کرلیا۔
امریکا ''مالیاتی گولڈ فراڈ پلان'' کے ذریعے پورے یورپی ملکوں کے سرمایہ کاروں، بینکوں کو بے وقوف بنانے اور امریکی ''مردہ ڈالر'' کی نکاسی کے بجائے اور بھی زیادہ پوری دنیا میں سونے کے بدلے مردہ ڈالر پھیلانے میں کامیاب ہوگیا۔ امریکی ڈالر کی قیمت 20.67 ڈالر سے 35.00 ڈالر فی اونس سونا کرکے امریکا ''مردہ ڈالر'' کا مزید بوجھ 69.33 فیصد پورے یورپی ملکوں کی معیشت پر ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ کیونکہ جن ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں کم تھیں، ان ملکوں کے لیے سونا اور بھی مہنگا ہوگیا تھا۔ امریکا نے ڈالر کے مقابلے میں مقروض ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں مزید کمی کے لیے میدان ہموار کرلیا تھا۔ اور وہ جاکر ستمبر 1949 میں آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا کے تمام ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں کم کردیا تھا۔ کیونکہ امریکا کے پاس گولڈ ریزرو سب سے زیادہ تھا۔
امریکا نے عالمی معاشی بحران کو مردہ ڈالر تمام یورپی ملکوں کی معیشت میں داخل کرکے پیدا کیا تھا (مردہ ڈالر سے مراد وہ ڈالر یا غیر ملکی کرنسی جو کسی ملک کی معیشت میں داخل ہوتی ہے اپنی مقدار یا تعداد کی نسبت سے اس ملک کی معیشت کی نفی کردیتی ہے۔ کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی، قرضوں پر سود وصولی، دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کی نسبت سے ان ملکوں کی معیشت کی نفی ہوجاتی ہے۔ امریکی کیپٹلزم میں سرمائے پر سرمائے کی کاشت یا سرمائے پر زیادہ سرمایہ اکٹھا کرنا ہے۔ جس کے سامنے عوام کی زیادہ سے زیادہ معاشی خوشحالی کی نفی کرنا ہے)
1930 کے عالمی بحران کی وجہ سے امریکا پر 1931 اور 1932 میں دباؤ آیا تو امریکا نے ڈالروں کے بدلے 1177.0 ملین ڈالر کا سونا دیا اور اس کے بعد مالیاتی گولڈ پلان کر کے 20.67 ڈالر سے 35.00 ڈالر کا ایک اونس سونا کر کے 31 جنوری 1934 کو جب سونا امریکی ڈالر کے مقابلے میں امریکا نے مہنگا کردیا تو پوری دنیا نے ایک اونس سونے پر 69.33 فیصد زیادہ ڈالر حاصل کرنے کے لیے امریکا کو سونا فروخت کرنا شروع کردیا۔ اس طرح امریکا نے 1934 سے 1940 تک صرف 7سال میں 15866.0 ملین ڈالر کا گولڈ حاصل کرلیا تھا۔ یہ پہلا عالمی معاشی بحران تھا جو امریکی مردہ ڈالر کا پیدا کردہ تھا۔
امریکا اگر مالیاتی گولڈ فراڈ پلان، MGFP نہ کرتا دیگر ملکوں کی طرح گولڈ اسٹینڈرڈ سے ہٹ جاتا تو امریکا نے اربوں ڈالر جو سرمایہ کاری کی ہوئی تھی، یورپی ملکوں کے اربوں ڈالروں کے قرضوں میں جکڑا ہوا تھا۔ تمام یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کرکے CDMED کے ذریعے ان ملکوں کا ''پیداواری سرمایہ'' امریکی تجارتی کے ذریعے امریکا منتقل کر رہا تھا۔ امریکی صنعتی کلچر اور دفاعی کلچر کو فروغ دے رہا تھا۔ یہ سب کچھ رک جاتا اور امریکا شدید ترین بحران کا شکار ہوجاتا۔ امریکا نے سونے (گولڈ) کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو کم کرکے اور زیادہ سونا اکٹھا کرلیا تھا۔
امریکا نے برطانیہ کو مالیاتی سازشوں سے عالمی مالیاتی نظام سے ہٹادیا تھا۔ فرانس چیلنج کے طور پر ابھر رہا تھا۔ امریکا نے برطانیہ کے ساتھ مل کر فرانس کو بھی پیچھے دھکیل دیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود تھی کہ یورپی ملکوں کے سرمایہ کاروں نے ڈالر کو مضبوط کرنسی کے طور پر اپنے اپنے کھاتوں میں امریکا میں محفوظ کیا ہوا تھا۔ اگرچہ ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو کے 24 ملکوں کے پاس 2520.0 ملین ڈالر سے گر کر 1932 میں 505.0 ملین ڈالر رہ گیا تھا۔ یعنی 399 فیصد کمی ہوگئی تھی اور گولڈ ریزرو 3400.0 ملین ڈالر سے 5879.0 ملین ڈالر ہوگیا تھا۔ جو 73 فیصد بڑھ گیا تھا۔ سرمایہ دارانہ امریکی سسٹم میں جب امریکا نے ''مانیٹری گولڈ فراڈ پلان''، ''کاغذی مردہ ڈالر'' کے ذریعے کھیلا تو تمام سونا امریکی بینکوں میں آتا گیا اور کاغذی ''مردہ ڈالر'' یورپی ملکوں میں پھیلتے گئے۔ اور ان کے پاس گولڈ ریزرو میں کمی اور فارن ایکسچینج ریزرو ڈالروں میں اضافہ ہوتا گیا۔
اس کے پیچھے امریکا کی مالیاتی سازش یہ تھی کہ تجارتی اور لین دین کے مقاصد کے لیے صرف اور صرف مردہ ڈالر تمام ممالک استعمال کر رہے اور کرسکتے تھے۔ کیونکہ ان کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں قیمتوں کا فرق تھا۔ اور یہی فرق ان ملکوں کی معیشتوں میں نمایاں تھا۔ اور یورپی ممالک ایک دوسرے سے اپنی اپنی کرنسیوں میں 1914 کے بعد تجارت، لین دین بند کرچکے تھے اور امریکی ڈالر بتدریج ان کی معیشت میں امریکی مالیاتی سازش کے ذریعے گردش کرنے لگا تھا اور امریکا 1914 سے آج تک پوری دنیا کی کرنسیوں کا Manipulator بنا ہوا ہے؟
آج بھی چین، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، افغانستان، ایران، میانمار(برما)، نیپال، روس اور نو آزاد ممالک آپس میں اپنی اپنی کرنسیوں کی آزادانہ بنیاد پر تجارت نہیں کرسکتے ہیں۔ امریکا کی ''معاشی غلامی'' میں جکڑے یہ تمام ممالک کس آئین، کس اپنے ملک قانون کے تحت امریکا کے ''معاشی غلام و مالیاتی غلام '' ملک بنا دیے گئے ہیں؟ پاکستان بنتے وقت 3.308 روپے کا ڈالر تھا آج 103.15 روپے کا ڈالر کردیا گیا ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی 3018فیصد کردی گئی ہے۔
اس کا منفی اثر صرف تجارت 2012-13 میں 1983492.0 ملین روپے سے خسارے میں چلی گئی تھی۔ اگر روپے کی قیمت کو 3.308 پر ہی رہنے دیا جاتا تو اس کے برعکس یہی تجارت 19834920.0 ملین روپے سے سرپلس تجارت ہوتی۔ روپے کی قیمت میں کمی کے ذمے دار اسمبلیوں کے تمام ممبر ہیں، تمام مالیاتی ادارے ہیں، اسٹیٹ بینک ہے، وزیر خزانہ ہے۔ کیا پاکستان معاشی آزاد پاکستان ہے؟ کیا عوام اشرافیہ کے جمہوری غلام نہیں ہیں؟ جو 68 سال سے عوام کو اشرافیہ کا ''غلام'' بنائے ہوئے ہے۔