محمدؐ کے بغیر انسانی چہرہ مکمل نہیں ہوتا
بدقسمتی سے گاڑی کا فیول پمپ بھی خراب تھا اور وہ پٹرول پر چلنے کے پہلے ہی قابل نہ تھی۔
میری گاڑی خالی سپر ہائی وے پرتیزی سے چلی جا رہی تھی۔ میں حیدر آباد سے واپس لوٹ رہا تھا اور اپنی منزل کراچی کی جانب رواں دواں تھا جو مجھ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھی۔کچھ دیر بعد جب میری نظر سی این جی کے جلتی بتیوں پر پڑی تو میں قدرے چونک سا گیا۔گیس ختم ہونے والی تھی اور آخری پوائنٹ پر پہنچ چکی تھی، گاڑی میرے اندازے کے برخلاف زیادہ گیس کھانے کی وجہ سے تیسرے سے تیزی سے آخری پوائنٹ تک جا پہنچی تھی۔
بدقسمتی سے گاڑی کا فیول پمپ بھی خراب تھا اور وہ پٹرول پر چلنے کے پہلے ہی قابل نہ تھی۔ دور دور تک کوئی سی این جی اسٹیشن بھی نظر نہ آرہا تھا۔میں پریشانی کے عالم میں گاڑی چلا رہا تھا جوکسی بھی وقت اس سنسان ہائی وے پر بند ہو سکتی تھی۔ میں عموماً دورانِ سفر درود شریف پڑھتا رہتا۔ اس وقت بھی میں درود کا ورد کرتا جا رہا تھا۔جنگل کے بیچ خاموش سڑک پر میری گاڑی چلی جا رہی تھی اور اس میں گونجتی مدہم سی میری درود شریف کی آواز۔
کچھ دیر بعد اچانک گاڑی نے پہلا جھٹکا مارا، میں گھبرا گیا کہ پھنس گیا مگر گاڑی پھر چلنے لگی۔ میں درود شریف پڑھتا جا رہا تھا۔ پریشانی کی اسی کیفیت میں چند لمحوں بعد مجھے دور سامنے آتا سی این جی اسٹیشن دکھائی دینے لگا۔ مگر وہ ابھی خاصا دور تھا، میری گاڑی شاید وہاں تک نہ پہنچ پاتی۔ گاڑی نے ایک اور جھٹکا مارااور میری پریشانی میں اضافہ ہو گیا مگر میں کچھ نہ کرسکتا تھا۔ سو میں بس درود پڑھتا رہا۔ گاڑی وقفے وقفے سے جھٹکے مارتی آگے بڑھتی رہی یہاں تک کے گیس اسٹیشن مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر رہ گیا، مگر اسی لمحے انجن با لآخر بند ہو گیا۔ میری تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی گاڑی کی رفتار آہستہ آہستہ کم ہونے لگی اوربالآخر مدھم سی رفتار میں رکتے رکتے بالکل سی این جی کے پمپ کے عین سامنے جا کر خود ہی کھڑی ہو گئی۔ نہ ایک فٹ آگے نہ ایک فٹ پیچھے۔
محمد ؐ پر درود بھیجنے کی برکت نے مجھے کسی بھی مشکل میں گرفتار ہونے سے بچا لیا تھا ، بغیر کسی زحمت کے منزل تک پہنچا دیا تھا۔ درود شریف کی برکتیں اور اثرات ہمارے فہم و فراست سے کس قدر زیادہ ہیں ہم نہیں جانتے۔یہ بڑی بڑی بلاؤں سے لے کر روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں تک سے ہمیں بچانے میں معجزاتی اثرات رکھتی ہیں۔
مجھے مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی کی کہی ہوئی وہ بات بھی بار بار یاد آرہی تھی جو انھوں نے ماہ ِ رمضان کے ایک پروگرام میںکہی تھی۔انھوں نے کہا تھا کہ '' آپ کو پتہ ہے کہ علامہ اقبال خکیم الامت کیسے بنے ؟ علامہ اقبال نے خود فرمایا کہ '' میں نے گن کر پورے ایک کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھا!''
علامہ اقبال کی حضورؐ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی ان کے سامنے آپؐ کا تذکرہ کیا جاتا یا حضور ؐ کا نام ان کی زبان پر آتا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔خود مجھ گنہگار کو یہ تجربہ ہوا جو یقیناً ہر کسی کو ہوتا ہو گا کہ جب کبھی میں خشوع و خضوع کی حالت میں نمازوتسبیح کے بعد محمد ؐ پر درود بھیجتا تو میری روح میں جیسے ارتعاش پیدا ہو نے لگتا، محمد ؐ کا اسم مبارک میری روح کو پاکیزگی عطا کرنے لگتا۔ جب ہی تو علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اس اہم راز سے پردہ اٹھایا؛
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حضورؐ چونکہ اللہ کی محبوب ترین ہستی ہیں ،جن سے اللہ بے انتہا محبت کرتا ہے ، اور ان کی اہمیت مسلمانوں اور انسانوں کو سمجھانے کے لیے ان پر درود بھیجنے کے بارے میں خود قرآن میں حکم فرماتا ہے کہ؛
''اللہ اور فرشتے محمدؐ پر درود بھیجتے ہیں، مومنوں! تم بھی ان پر درود بھیجا کرو۔''
انسان جب کسی سے محبت کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کے محبوب کا ذکر زیادہ سے زیادہ کیا جائے اور وہ اپنے محبوب کا ذکر کرنے والے کو بھی پسند کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح اللہ بھی اپنے محبوب سے محبت اور وفا کرنے والے پر خاص نظر کرم فرماتا ہے۔ لہٰذا علامہ اقبال کی طرح جو بھی محبت و خلوص کے ساتھ محمد ؐ پر درود بھیجنے لگے اس کے بلند مقام تک پہنچے کے امکانات یقیناً پیدا ہوسکتے ہیں ، شرط اس کے جذبات میں سچائی و پاکیزگی کی ہے۔ درود کے بارے میں مزید تحقیق کرنے سے یہ احادیث میرے سامنے آئیں:
جو مجھ پر ایک ہزار مرتبہ درود شریف بھیجے گا اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ اس کو جنت کی خوشخبری نہ مل جائے۔
تمام دعائیں اس وقت تک زیر آسمان ہی رہتی ہیں جب تک محمد ؐ پر درود نہ بھیجا جائے۔
ایک اور جگہ فرمایا کہ ''قیامت کے روز جب اعمال تولے جائیں گے جس کے گناہ اس کے نیکیوں سے زیادہ ہونگے اس کی نیکیوں کے ساتھ درود شریک کر دیے جائیں گے حتیٰ کہ اس کی نیکیوں کا پلہ گناہوں سے بھاری ہوجائے۔
یہاں میں اپنے ایک خواب کا ذکر کرنا بھی ضروری اور اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ میں سو رہا تھا۔ میں نے اس رات خواب میں خود کو ایک خالی کلاس روم میں اکیلے بیٹھے دیکھا۔ میرے سامنے دیوار پر لگے بلیک بورڈ کے پاس کھڑا ایک شخص مجھے بتا رہا تھا کہ محمدؐ کے بغیرانسان کا چہرہ مکمل نہیں ہوتا۔میں متجسس اورسوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں بعد وہ شخص بورڈ کی طرف مڑا اور چاک سے اس پر محمدؐ لکھااور میری طرف دیکھنے لگا۔۔پھر دوبارہ مڑ کر ''م'' اور ''د'' کے سِروں کو ایک قدرے گول سی لکیر سے آپس میں ملا دیا، اور میں یہ دیکھ کے حیران رہ گیا کہ بورڈ پر لکھا محمدؐ کا وہ نا م واقعی انسان کی آنکھیں، ناک اور ہونٹ تھے،جس کے بغیرانسانی چہرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔انسان انسان بن ہی نہیں سکتا۔
صبح جاگنے پر جب میں نے خود اپنے ہاتھ سے خواب والا عمل دہرا کے دیکھا تو واقعی وہ خواب سچ تھا۔