تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی

ہمارے ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بسے شخصیت پرستی کے بڑے بڑے بت کچھ دنوں بعد پاش پاش ہوجاتے ہیں

SHANGHAI:
سارا دن وکلا و پولیس کے درمیان قانون اور انصاف کی جنگ دیکھ دیکھ کر اس قدر فرسٹریشن کا شکار تھی کہ شام ہونے تک چائے کی خالی پیالی کچن کی سلیب پر رکھتے ہوئے ہاتھ سے چھوٹی تو اس کے ٹوٹنے کا بالکل افسوس نہ ہوا، قیمتی کپ کی کرچیاں دیکھ کر آنکھوں کے سامنے ٹی وی اسکرین پر دیکھے گئے توڑ پھوڑ کے مناظر گھوم گئے، ایک ہلکی سی مسرت و تبسم کے ساتھ کرچیاں سمیٹتے سوچا، میں نے بھی اس تباہی و بربادی میں اپنا حصہ ڈالا، گھر کا ایک کپ توڑنا یا اپنے ملک کی املاک کو نقصان پہنچانا، گاڑیاں تباہ کرنا، گملے توڑنا، بات تو ایک ہی ہے، جس کے ہاتھ جو لگا۔ بعد میں اک دم خیال آیا کہیں میں بھی تو کسی ذہنی خلجان و انتشار کا شکار نہیں ہوگئی، آخر میں بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہوں۔

روزانہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافی، بے حسی، بے روزگاری، لاقانونیت، دکھاوا، وی آئی پی کلچر، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، چوری، بھتہ خوری، غنڈہ گردی، دہشت گردوں کا خوف، یہ سب اذیتیں، دکھ، میری بھی رگوں میں سرائیت کرتا جارہا ہے، اس بے حسی کا میں بھی شکار ہوتی جا رہی ہوں، ایک واحد پناہ گاہ میرے لیے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی تھی، ظالموں نے اسے بھی ابہام، فرقہ واریت، اپنی پسند و ناپسند کی صلیب پر چڑھا رکھا ہے۔ کس کی رائے کا احترام کیا جائے، کون سی بات سنی جائے، قول و فعل، کردار میں تضاد نے سب سے اعتبار اٹھا دیا ہے۔

ہمارے ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بسے شخصیت پرستی کے بڑے بڑے بت کچھ دنوں بعد پاش پاش ہوجاتے ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں (میں ان اچھے لوگوں کی بات نہیں کررہی، جن کی بدولت یہ ملک ابھی تک قائم ہے) عوام جب کسی پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتے ہیں تو ان کی ہر بات کو پتھر پر لکھی لکیر سمجھتے ہیں، تن من دھن سے ان کے ہر قول پر فدا ہوتے ہیں، جب وہی افراد وزارتوں کی کرسی پر بیٹھ کر صرف اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، اقربا پروری کی بدترین مثالیں قائم کرتے ہیں، اپنے موبائل نمبر تبدیل کرلیتے ہیں، گارڈز کو حکم دیا جاتا ہے عام آدمی کو ان کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے، ادھر عوام اپنے خواب اپنا مستقبل تاریک پاتے ہیں، ان دس دہائیوں میں مشرف کے بعد جمہوریت کا جو خواب جو لگن عوام کے دلوں میں تھی، محروم طبقوں میں خواہشوں کا جو الاؤ روشن ہوا تھا، بات وہاں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہم دن بہ دن گہری کھائی میں گرتے جا رہے ہیں، سب کو پتہ ہے یہ راستہ گہری کھائی کی جانب جاتا ہے پھر بھی ہم درست سمت جانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ہمارے شہر ترقی و خوشحالی کے شگوفوں سے مہکنے کے بجائے سماجی اور تہذیبی معنوں میں مرجھاتے چلے جارہے ہیں۔


ہم روزانہ ایک نئے تلخ تجربے سے نبرد آزما ہوتے ہیں، کبھی سانحہ صفورا تو کبھی پشاور میں معصوم بچوں کی ہلاکتیں، کبھی بلوچستان میں نہتے بے گناہ مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کو زیادہ دن نہیں گزرے، پولیس کے ہاتھوں عوام پر تشدد ساری قوم نے دیکھا، ابھی چند دن قبل صحافیوں پر نقاب پوش قانون کے رکھوالوں کا تشدد بھی ذہن سے محو نہیں ہوا کہ ڈسکہ میں وکلا اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی نے بھیانک روپ اختیار کرلیا، پولیس کی گولیوں کا شکار ہو کر دو وکلا اپنی جان سے گئے ۔ اس واقعے کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس اور وکلا باہم دست و گریبان ہیں، اب عوام میں پولیس کا خوف ختم ہوتا جارہا ہے، عوام جانتی ہے کہ پولیس محض حکمرانوں کی حفاظت کرتی ہے، ان کے گھر و املاک کی نگہبان ہے، حکمران طبقہ اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے لیے ان کا استعمال کرتا ہے۔

مجھے یاد ہے سانحہ عباس ٹاؤن میں دھماکا ہوا تو اس وقت ساری پولیس فورس ایک تقریب میں وی وی آئی پی مہمانوں کی حفاظت پر مامور تھی۔ چند روز قبل ہی عدالتوں کے سامنے نقاب پوش سادہ لباس میں ملبوس پولیس نے نہتے صحافیوں پر تشدد کیا، ان کے کیمرے چھین لیے گئے۔ کیا یہ سب ایک ریاستی ادارے کے کارکنوں کی تربیت کا حصہ ہیں، جنھیں اس ملک کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کا بیڑہ اٹھانا ہے، جس کا یہ حلف لیتے ہیں، عوام کے دیے گئے ٹیکس سے یہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ جس منظر اور پس منظر کو ہم دیکھ رہے ہیں، جس خوفناک سانحے سے ہم روزانہ گزر رہے ہیں، اس کی وجہ ایک دن یا ایک سال کا شاخسانہ نہیں، اگر پاکستان کی تاریخ کو غور سے پڑھا جائے تو ایسے کتنے ہی شگاف نظر آتے ہیں جو اپنے ہی لگاتے رہے ہیں، ہمارے تمام ادارے دن بہ دن اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں لوٹ کھسوٹ کر تباہ کیے گئے اور کیے جارہے ہیں۔

عام لوگ خواہشات و مطالبات کی چکی میں پس رہے ہیں، بڑھتی آبادی، طبقاتی فرق کی محرومی نے انتشار و انحطاط کو جنم دیا ہے، ہمارا معاشرہ جس قدر تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ تشدد کے اثرات مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں لوگ پریشان ہیں، ایک ہیجان میں مبتلا ہیں، ہماری فکری، تعلیمی اور اخلاقی پسماندگی کا اثر ہمارے اجتماعی کردار و عمل پر پڑا ہے۔ ہم آئے دن سانحوں کے جواب میں عوامی ردعمل کے طور پر سڑکوں پر املاک کو نقصان پہنچانے کے مناظر عام دیکھتے ہیں، اس عوامی نفرت و تشدد کو انقلاب کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ہم نے انقلابات کی جو تاریخ پڑھی ہے، اس میں سماجی تبدیلی کا عمل عوام کی بغاوت سے شروع ہوتا ہے، جس طرح کے حالات ہیں ایسا لگتا ہے آنے والے دنوں میں بقول فیض احمد فیض، ہاں! تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی۔
Load Next Story