ادبی رسائل کو زوال کیوں

کاروباری نقطۂ نظر سے ادبی رسالے کو اشتہار دینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔

شاید ہی کوئی ادبی رسالہ یا اس کا مدیر اخبارات و رسائل یا مدیروں کی انجمنوں کی رکنیت کا اعزاز رکھتا ہو فوٹو: فائل

ادبی رسالوں کی غیر مقبولیت ایک عرصے سے بحث و نزاع کا باعث بنی ہوئی ہے۔ خود میں اب تک اس بارے میں کم سے کم تین مضامین تحریر کرچکا ہوں۔

ایم اے کی سطح کا ایک تحقیقی مقالہ میری زیر نگرانی لکھا جاچکا ہے۔ بہت سال پہلے بھارت میں اسی حوالے سے ایک سیمی نار ہوا تھا، جس میں پڑھے گئے مقالات کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ ۱۹۹۵میں ملک کے ایک کثیر الاشاعت اخبارمیں "ادبی رسائل کی عدم مقبولیت کے اسباب" کے موضوع پر ایک ادبی فورم ہوا تھا، جس میں کراچی کے تقریباً تمام رسالوں کے مدیروں نے اظہار خیال کیا تھا، اس کے علاوہ بھی

گاہے گاہے ادیب و نقاد، اس مسئلے کی بابت کچھ نہ کچھ لکھتے رہے ہیں۔ میں ان تمام تحریروں اور گفتگوؤں کا تجزیہ کروں تو نہایت اختصار سے یہ کہ سکتا ہوں کہ ان آراء کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ادبی رسالوں کے حوالے سے مدیروں کا رویہ آج بھی وہی ہے جو آزادی سے قبل تھا کہ ایک شخص ادبی رسالہ نکالنے کا ارادہ کرتا تھا، ذاتی سرمائے سے سارا انتظام کرتا، تخلیقات و نگارشات حاصل کرتا، انتخاب کرتا اور شایع کردیتا۔ رسالہ چھپنے کے بعد ڈاک یا بک اسٹالوں کے توسط سے پڑھنے والوں تک پہنچ جاتا۔

اس زمانے میں ادب پڑھے لکھے آدمی یا گھرانے کی واحد تفریح تھا لہٰذا ادب، ادیب او ر ادبی رسالے مقبول تھے۔ ان کی نامقبولیت کا مسئلہ پاکستان اور بھارت میں جدید صنعتی زندگی کے آغاز کے بعد پیدا ہوا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے معاشرے کے نظام اقدار کو بدل کر رکھ دیا۔ نئے تعلیمی نظام اور زندگی میں در آنے والی ترغیبات اور نئی تفریحات نے اعلیٰ معیار کے ادب اور ادبی رسائل کو بے حیثیت کردیا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ادیب اور ادبی

رسالوں کے مدیروں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جب معاشرہ اور اس کے تقاضے ہی بدل گئے تو ادبی رسالوں کو بھی ان کے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ صرف دو باتوں پر غور کیجیے! ہمارا پرانا معاشرہ "مواد" پر قانع تھا، نئے معاشرے میں "پیش کش" کی اہمیت بڑھ گئی۔ ڈائجسٹ صحافت کی پذیرائی کا ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ اس نے "پیش کش" پر محنت کی اور اسے پرکشش بنایا۔ دوسری چیز جسے ادبی رسائل نے لائق اعتنا نہ سمجھا وہ "مارکیٹنگ" ہے۔

ڈائجسٹوں اور ہفت روزوں نے مارکیٹنگ پر خصوصی توجہ دی، خصوصاً رسالے کی اشاعت کے بعد قارئین کو خریدار بنانے کی ترغیب دینا، اس کے لیے اشتہار دینا اور پھر رسالے کی قارئین تک ترسیل کے لیے تیز رفتار نظام کو حرکت میں لانا، مثلاً معقول کمیشن پر رسالے کی تقسیم و ترسیل کا انتظام ہاکروں کی ایجنسی کے سپرد کرنا وغیرہ۔ ادبی رسالے پرانے ڈھرّے پر نکلتے، چلتے رہے، انہیں ادارہ بنانے اور اس سے آگے بڑھ کر صنعت بنانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ کوشش کیسے کی جاتی؟ کہ ادبی رسالہ نکالنا ابتدا ہی سے ایک ذاتی شوق رہا ہے۔ ادبی رسالہ ادیب نکالتا ہے یا کوئی بہت ہی تربیّت یافتہ باذوق قاری۔


جن معاشروں میں اخبار اور رسالے مصنوعہ (Product) بن گئے ہوں، وہاں ان کو نکالنے سے پہلے باقاعدہ سائینٹیفک اصولوں کے تحت سروے کرکے ان کی طلب کے امکانات دریافت کیے جاتے ہیں اور ان کی روشنی میں اس مصنوعہ کو مارکیٹ کرنے کی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ ادبی رسالوں کے مدیروں کے انداز فکر کو سمجھنا ہو تو پاکستان اور بھارت کے دو مدیروں کے خیالات سن لیجیے۔ ایک مدیرِِ ادبی رسالہ فرماتے ہیں "دل چسپ بات یہ ہے کہ اس فورم کے دیگر شرکاء نے جو خود ادبی رسائل کے مدیر تھے، اس بات سے نہایت پر جوش طریقے سے اتفاق کیا کہ "ادبی رسالہ نکالنا ہمارا عشق ہے اور عشق بالعمو م خسارے کا سودا ہوتا ہے"۔

کچھ اسی قسم کا روّیہ بھارت کے اردو کے ادبی رسائل کے اکثر مدیروں کا ہے۔ اس کا اندازہ افتخار امام صدیقی کی مرّتبہ کتاب "اردو کے ادبی رسالوں کے مسائل" کے مطالعے سے ہوتاہے۔ اس کتاب میں ادبی رسالہ نکالنے کے جواز پر ایک مدیر نے نہایت دل چسپ اور "تخلیقی انداز" میں روشنی ڈالی، فرمایا: ذرا سوچیے! کہ جب ادبی رسالے کے مدیر حضرات اپنی زبان سے کہیں کہ کہ یہ ان کا ذاتی شوق ہے، عشق ہے، ہمیں پتا ہے کہ یہ خسارے کا سودا ہے، تو پھر تو ادبی رسالوں کی عدم مقبولیت کا مسئلہ لائق گفتگو ہی نہیں۔

بلاشبہ تمام ادبی رسالوں کے مدیروں کی سوچ کی عکاسی ان دو اقتباسات میں نہیں ہوتی لیکن عملاً روّیہ اور "پالیسی" سارے مدیروں کی یکساں ہے۔ مذکورہ دونوں مدیروں کی "سچائی" ان معنوں میں قابل تعریف ہے کہ انہوں نے اپنے روّیے کو دھڑلّے سے بیان کردیا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ادب معاشرے کی فی الواقع "ضرورت" ہے کیوںکہ کوئی بھی مہذب معاشرہ ادب سے بے نیاز ہوکر صحیح معنوں میں "انسانی معاشرہ" کہلا ہی نہیں سکتا، ہزار سالہ معاشرتی اور تہذیبی زندگی کا ارتقا اس کی تصدیق کرتا ہے لہٰذا ادب اور ادبی رسالے کا انحطاط ایک لائق تشویش مسئلہ ٹھہرتا ہے اور اسے حالتِ زوال سے نکالنے کی سماجی، ریاستی اور حکومتی سطح پر کوششیں کی جانی چاہییں۔ اس وقت ملک کے طول و عرض سے بلا شبہ نہایت معیاری ادبی رسالے اشاعت پذیر ہیں لیکن ان کی کوئی اکنامکس نہیں ہے۔

شاید ہی کوئی ادبی رسالہ ہو جو اپنے مدیر کو کچھ کما کر دیتا ہو۔ ادبی رسائل کی کم مائیگی اور "بے اثری" کا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی ادبی رسالہ یا اس کا مدیر اخبارات و رسائل یا مدیروں کی انجمنوں کی رکنیت کا اعزاز رکھتا ہو۔ چوں کہ ان ادبی رسالوں کی کوئی "مارکیٹ"یا "مانگ"نہیں ہے چناںچہ انھیں اشتہارات بھی محض حوصلہ افزائی یا فروغ ادب کے نام پر یا مدیر رسالہ کے تعلقات عامہ کے سبب ملتے ہیں، کاروباری نقطۂ نظر سے ادبی رسالے کو اشتہار دینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ چوں کہ ادبی رسالہ ایک "ذاتی شوق"یا "جذبۂ عشق"کے تحت نکلتا ہے، اس لیے ادبی رسالے وسیع تعداد میں نکلنے کے باوجود ان کے مدیروں نے اس کے لیے بھی کوشش نہیں کی کہ ادبی رسائل کی کوئی مشترکہ انجمن یا تنظیم ہی قائم کرلیں تاکہ ادبی رسالوں کے مسائل کو اجتماعی کوشش سے حل کیا جائے۔

آ ج صورت حال یہ ہے کہ ادبی رسالے اتفاقی طور پر دو ایک کتب فروشوں کے ہاں مل جائیں تو اور بات ہے ورنہ یہ بالعموم ڈاک سے تقسیم ہوتے ہیں یا مدیر رسالہ کے دوست احباب میں مفت بٹ جاتے ہیں۔ 1950 اور1960 کی دہائی تک یہ صور ت حال نہیں تھی اور سچ پوچھیے تو اگر کوئی واحد ادبی رسالہ، ادبی اور کاروباری اعتبار سے نہایت مفید اور منافع بخش رہا ہے تو وہ محمد طفیل کا "نقوش" تھا، جس کے پرانے شماروں کے خریدار آج بھی موجود ہے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ "نقوش" کے عقب میں ایک ایسا مدیر تھا، جو تازہ ادب کو نہایت وقار سے کاروبار بنانے کا فن جانتا تھا۔

کیا مُدیر نقوش کو اپنے رسالے سے عشق نہ تھا؟ نقوش کے اداریے اس کی گواہی دیتے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ ادبی رسالہ بھلے عشق کے بے پناہ جـذبے میں ڈوب کر نکالیں لیکن عشق کی کامیابی کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ ادبی رسالہ، ادیبوں کے لیے نہیں، پڑھے لکھے قارئین کے لیے نکالا جاتاہے۔ اگر وہ چھپ کر بھی قاری تک نہ پہنچ پائے یا خود کو قاری کی "ضرورت"نہ بناسکے تو یہ ادب کی نہیں، مدیر کی ناکامی ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمارے کس ادبی رسالے کے مدیر میں محمد طفیل بننے کی صلاحیت ہے؟۔
Load Next Story