پاکستان میں دہشت گردی نہیں علم پنپتا ہے
پاکستان میں دہشت گردی نہیں، علم پنپتا اور پھولتا ہے اور بے سرو سامانی کے عالم میں بھی بچوں کی سوچ کا محور وسیع ہے۔
چولستان ایک صحرا ہے جو کہ پاکستان کے شہر بہاولپور کے ساتھ بمشکل تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کا دوسرا نام روہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے اس صحرا کا کُل رقبہ 26300 مربع کلو میٹر یعنی 10200 مربع میل ہے۔ چولستان کے نخلستان کی ڈویلپمنٹ کیلئے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے۔ یہاں پر پاکستان کا سب سے بڑا موٹر سپورٹس کا مقابلہ ''چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی'' کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ چولستان کے جنگل' قلعے' زیورات ' روئی ' ٹیکسٹائل' فن ایک طرف اور چولستان کے صحرا کی توانا آواز مصباح شاہین ایک طرف۔ اللہ انسان سے بعض اوقات ایسے کام لیتے ہیں کہ وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر دیر تلک یاد رکھے جاتے ہیں۔ مصباح شاہین کی ''ایکسکیوز می '' سر سے شروع ہونے والی آواز نے چولستان کے پسماندہ علاقے میں 75پختہ سکول تعمیر کروا دیے ہیں۔
پنجاب کے اکثر دیہاتی علاقوں میں اسکول برگد کے نیچے ہوتے ہیں۔ ایک میز اور کرسی ہوتی ہے' جو کہ ماسٹر جی کیلئے ہوتی ہے۔ میز پر ایک موٹا سا ڈنڈہ ہوتا ہے۔ سامنے زمین پر بچے ٹاٹ بجھا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک ہی ماسٹر اُن کو اردو، اسلامیات، ریاضی وغیرہ پڑھاتا ہے۔ اس پڑھائی کے دوران خدمت اور اس خدمت میں کوتاہی پر تشدد عام سی بات ہے۔ اس تشدد کو سہتے ہوئے جو بچے پڑھ جائیں وہ خوش نصیب کہلائے جاتے ہیں۔ باقی بچے ہمارے دیہی آبادی میں ہی ضم ہوتے ہیں جو کہ محنت مزدوری کرکے اپنی زندگی کی مشکل گاڑی کو گھسیٹتے ہیں۔
چولستان میں مصباح شاہین کا اسکول بھی ایسا ہی تھا۔ صحرا کی سخت دھوپ میں جب جانور بھی پناہ مانگتے ہیں یہ بچی اور اس جیسی اور چند بچیاں اپنی علم کی پیاس بجھاتی تھی۔ جہاں جہاں درخت کی چھاؤں جاتی تھی وہیں ان کی کلاس بھی حرکت کرجاتی تھی۔ چولستان کے لڑکے تو تعلیم حاصل کرنے کیلئے قریب کے شہروں اور دیہاتوں میں چلے جاتے تھے۔ اُن کیلئے بھی یہ آسان نہیں تھا تاہم جو بچے اور اُن کے والدین یہ تکالیف سہنے کی سقت رکھتے اُن کے بچے چار جماعتیں پڑھ لیتے تھے، لیکن لڑکیوں کیلئے ایسا کرنا مشکل تھا۔
چھ سال پہلے اس علاقے میں تعلیم کے فروغ کیلئے غیر رسمی منصوبہ شروع ہوا۔ یہ منصوبہ پرائمری اسکولوں کی تعمیر سے متعلق تھا۔ اس منصوبے کیلئے بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے قریبی دیہاتوں میں مقامی لوگوں نے اسکول کیلئے زمین مختص کردی۔ دیہاتوں میں اساتذہ کا تقرر ہوا اور ٹالی کے نیچے ہی سہی، تعلیم کا سفر شروع ہوا۔ مصباح ہونہار بچی تھی اور اس کو تعلیم سے محبت بھی بہت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی اُس کو یہ علم ہوا کہ اب یہ اسکول بند ہونے جارہے ہیں تو اُس کی روح بے چین ہوگئی، اُس کو رونا آگیا کہ وہ ا ب کیا کرے؟ وہ کیسے اپنے خوابوں کو پورا کرے گی؟ کیسے ڈاکٹر بنے گی؟ اِسی پریشانی میں دن گزرنے لگے۔
عمران سکندر اُس علاقے کے ڈی سی او ہیں۔ ضلعی رابطہ افسر ہونے کے ناطے اُن کو ضلعی انتظامات کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کسی کام کے سلسلے میں وہ اس علاقے میں تھے جہاں مصباح شاہین رہتی تھی۔ جب ڈی سی او کی مصباح ملاقات سے ملاقات ہوئی تو اُس بچی کی باتوں نے ناصرف ڈی سی او کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، بس اِس ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا ڈی سی او عمران سکندر نے اُس بچی کا مسئلہ سنا اور پھر اُس کے عزم اور ہمت کی داد دیتے ہوئے اس مسئلے کو فوری حل کرنے کی ٹھانی۔
ضلعی انتظامیہ اور چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہنگامی بنیادوں پر مصباح شاہین کے گاؤں میں اسکول تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ عموماً ایسے اعلانات اور منصوبے کاغذوں میں ہی رہتے ہیں لیکن مصباح کی تڑپ کچھ ایسی تھی کہ یہ منصوبہ حقیقت کا روپ دھاڑ گیا۔ ہنگامی بنیادوں پر رقم کا بندوبست کیا گیا اور پھر اسکول کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ مصباح اُس وقت پانچویں جماعت میں تھی۔ اسکول کی عمارت بن گئی۔ چولستان جیسے پسماندہ علاقے میں چار دیواری، چار کمرے، برآمدہ، دو ٹائلٹ، پینے کے پانی کے نلکے اور اسمبلی کیلئے اسٹیج بنایا گیا۔ اس اسکول کو مڈل کا درجہ دیا گیا تاکہ مصباح آٹھویں تک یہیں تعلیم حاصل کرسکے۔
اب چولستان اور آس پاس کے دیہاتوں میں 75 اسکول بن چکے ہیں اور ان اسکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کی سر پرستی بھی حاصل ہے۔ اس سرپرستی کی وجہ سے یہ بچے بھی سرکاری دھارے میں شامل ہوگئے ہیں۔ والدین نے پختہ عمارتوں کو دیکھتے ہوئے اپنی لڑکیوں کو اسکول بھجوانا شروع کردیا ہے اور اب ان اسکولوں میں بلا مغالبہ ہزاروں بچیاں اور بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اور اس کا سہرہ مصباح شاہین کے سرجاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ مصباح شاہین چولستان کی ہیرو ہیں جنہوں نے فوٹو سیشن کے بجائے حقیقی معنوں میں تعلیم کیلئے کچھ کیا ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اس بچی کی کاوشوں کو بھی اُسی طرح اُجاگر کیا جائے جس طرح گانے والوں کو کیا جاتا ہے۔ اِس کو بھی مارننگ شوز میں بلایا جائے گا اور اس کی کہانی بہتر انداز میں دنیا کے سامنے آسکے گی تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے کہ پاکستان میں دہشت گردی نہیں، علم پنپتا اور پھولتا ہے اور بے سرو سامانی کے عالم میں بھی بچوں کی سوچ کا محور وسیع ہے اور وہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ مصباح شاہین تعلیم کے میدان میں اور آنے والی عملی زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں اور عمران سکندر کو ان کی نیکی کا دنیا اور آخرت دونوں میں اچھا صلہ دیں۔ اللہ مصباح شاہین کا حامی و ناصر ہو۔
ٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پنجاب کے اکثر دیہاتی علاقوں میں اسکول برگد کے نیچے ہوتے ہیں۔ ایک میز اور کرسی ہوتی ہے' جو کہ ماسٹر جی کیلئے ہوتی ہے۔ میز پر ایک موٹا سا ڈنڈہ ہوتا ہے۔ سامنے زمین پر بچے ٹاٹ بجھا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک ہی ماسٹر اُن کو اردو، اسلامیات، ریاضی وغیرہ پڑھاتا ہے۔ اس پڑھائی کے دوران خدمت اور اس خدمت میں کوتاہی پر تشدد عام سی بات ہے۔ اس تشدد کو سہتے ہوئے جو بچے پڑھ جائیں وہ خوش نصیب کہلائے جاتے ہیں۔ باقی بچے ہمارے دیہی آبادی میں ہی ضم ہوتے ہیں جو کہ محنت مزدوری کرکے اپنی زندگی کی مشکل گاڑی کو گھسیٹتے ہیں۔
چولستان میں مصباح شاہین کا اسکول بھی ایسا ہی تھا۔ صحرا کی سخت دھوپ میں جب جانور بھی پناہ مانگتے ہیں یہ بچی اور اس جیسی اور چند بچیاں اپنی علم کی پیاس بجھاتی تھی۔ جہاں جہاں درخت کی چھاؤں جاتی تھی وہیں ان کی کلاس بھی حرکت کرجاتی تھی۔ چولستان کے لڑکے تو تعلیم حاصل کرنے کیلئے قریب کے شہروں اور دیہاتوں میں چلے جاتے تھے۔ اُن کیلئے بھی یہ آسان نہیں تھا تاہم جو بچے اور اُن کے والدین یہ تکالیف سہنے کی سقت رکھتے اُن کے بچے چار جماعتیں پڑھ لیتے تھے، لیکن لڑکیوں کیلئے ایسا کرنا مشکل تھا۔
چھ سال پہلے اس علاقے میں تعلیم کے فروغ کیلئے غیر رسمی منصوبہ شروع ہوا۔ یہ منصوبہ پرائمری اسکولوں کی تعمیر سے متعلق تھا۔ اس منصوبے کیلئے بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے قریبی دیہاتوں میں مقامی لوگوں نے اسکول کیلئے زمین مختص کردی۔ دیہاتوں میں اساتذہ کا تقرر ہوا اور ٹالی کے نیچے ہی سہی، تعلیم کا سفر شروع ہوا۔ مصباح ہونہار بچی تھی اور اس کو تعلیم سے محبت بھی بہت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی اُس کو یہ علم ہوا کہ اب یہ اسکول بند ہونے جارہے ہیں تو اُس کی روح بے چین ہوگئی، اُس کو رونا آگیا کہ وہ ا ب کیا کرے؟ وہ کیسے اپنے خوابوں کو پورا کرے گی؟ کیسے ڈاکٹر بنے گی؟ اِسی پریشانی میں دن گزرنے لگے۔
عمران سکندر اُس علاقے کے ڈی سی او ہیں۔ ضلعی رابطہ افسر ہونے کے ناطے اُن کو ضلعی انتظامات کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کسی کام کے سلسلے میں وہ اس علاقے میں تھے جہاں مصباح شاہین رہتی تھی۔ جب ڈی سی او کی مصباح ملاقات سے ملاقات ہوئی تو اُس بچی کی باتوں نے ناصرف ڈی سی او کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، بس اِس ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا ڈی سی او عمران سکندر نے اُس بچی کا مسئلہ سنا اور پھر اُس کے عزم اور ہمت کی داد دیتے ہوئے اس مسئلے کو فوری حل کرنے کی ٹھانی۔
ضلعی انتظامیہ اور چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہنگامی بنیادوں پر مصباح شاہین کے گاؤں میں اسکول تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ عموماً ایسے اعلانات اور منصوبے کاغذوں میں ہی رہتے ہیں لیکن مصباح کی تڑپ کچھ ایسی تھی کہ یہ منصوبہ حقیقت کا روپ دھاڑ گیا۔ ہنگامی بنیادوں پر رقم کا بندوبست کیا گیا اور پھر اسکول کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ مصباح اُس وقت پانچویں جماعت میں تھی۔ اسکول کی عمارت بن گئی۔ چولستان جیسے پسماندہ علاقے میں چار دیواری، چار کمرے، برآمدہ، دو ٹائلٹ، پینے کے پانی کے نلکے اور اسمبلی کیلئے اسٹیج بنایا گیا۔ اس اسکول کو مڈل کا درجہ دیا گیا تاکہ مصباح آٹھویں تک یہیں تعلیم حاصل کرسکے۔
اب چولستان اور آس پاس کے دیہاتوں میں 75 اسکول بن چکے ہیں اور ان اسکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کی سر پرستی بھی حاصل ہے۔ اس سرپرستی کی وجہ سے یہ بچے بھی سرکاری دھارے میں شامل ہوگئے ہیں۔ والدین نے پختہ عمارتوں کو دیکھتے ہوئے اپنی لڑکیوں کو اسکول بھجوانا شروع کردیا ہے اور اب ان اسکولوں میں بلا مغالبہ ہزاروں بچیاں اور بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اور اس کا سہرہ مصباح شاہین کے سرجاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ مصباح شاہین چولستان کی ہیرو ہیں جنہوں نے فوٹو سیشن کے بجائے حقیقی معنوں میں تعلیم کیلئے کچھ کیا ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اس بچی کی کاوشوں کو بھی اُسی طرح اُجاگر کیا جائے جس طرح گانے والوں کو کیا جاتا ہے۔ اِس کو بھی مارننگ شوز میں بلایا جائے گا اور اس کی کہانی بہتر انداز میں دنیا کے سامنے آسکے گی تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے کہ پاکستان میں دہشت گردی نہیں، علم پنپتا اور پھولتا ہے اور بے سرو سامانی کے عالم میں بھی بچوں کی سوچ کا محور وسیع ہے اور وہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ مصباح شاہین تعلیم کے میدان میں اور آنے والی عملی زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں اور عمران سکندر کو ان کی نیکی کا دنیا اور آخرت دونوں میں اچھا صلہ دیں۔ اللہ مصباح شاہین کا حامی و ناصر ہو۔
ٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس