تعلیمی میدان کی کھوکھلی زمین

تعلیم کواقربا پروری اورسیاسی مداخلت سےدور رکھا جائےاور چند افراد کونوازنے کیلئےتعلیم کا گلا گھونٹنے سے پرہیز کیا جائے۔


مقتدر طبقے کی اولادیں بیرون ملک سے تعلیم حاصل کررہی ہیں اور رعایا کے لئے ٹاٹ اسکول بھی میسر نہیں ہیں۔ فوٹو:فائل

لاہور پریس کلب سے چائے کا کپ اور سستا سینڈوچ کھانے کے بعد نہر کی جانب چند قدم چلنے کے بعد موٹرسائیکل کا پہیہ ایک دھماکے کے ساتھ پنکچر ہوگیا۔ تیمور خان موٹر سائیکل ڈرائیو کر رہا تھا۔ اردگرد پنکچر کی دکان کے لئے نظر دوڑائی لیکن پاکستان میں بجلی کی طرح پنکچر لگانے والی دکانیں بھی غائب تھیں، خیر لاہور کے گرم موسم چوالیس درجے سینٹی گریڈ میں گڑھی شاہو کی جانب بائیک گھسیٹنا شروع کردی اور چند سو میڑ چلنے کے بعد ایک جگہ دکان نظر آئی گویا امید کا دیا روشن ہوا۔

میں اور تیمور خان دونوں پسینے سے شرابور جب مکینک کے پاس پہنچے تو آنکھیں مارے حیرت کے کھلی کی کھلی رہ گئیں ایک چھوٹی سی ورکشاپ اور اس میں چار معصوم بچے گاہگوں کی موٹر سائیکلوں کی مرمت میں مصروف، ماتھے پر پسینے کے قطرے اور کپڑوں پر تیل کے دھبے ان کی حیات کی داستان سنا رہے تھے، ایک لمحے کو میں ساکت ہو کر رہ گیا، بائیک کے ساتھ چند منٹ پیدل چلتے ہوئے جو تکلیف ہوئی تھی ایک لمحے کو پریشانی میں بدل گئی۔ معصوم چہرے جن کے کانوں نے ابھی ماں کی پیاری پیاری لوری سننا تھی وہ ورکشاپ میں ''ابے چھوٹے'' کی آوازیں اور غلیظ گالیاں سننے پر مجبور تھے۔ جن کے لبوں پر ''بلبل کا بچہ'' کے نغمے ہونے تھے وہ پیارے ہونٹ گاہک کی خوش آمد میں مگن ہوتے ہیں، جو ننھے ننھے ہاتھ کچی پنسل سے کاپیوں پر اپنا مقدر تحریر کرنے چاہیے تھے لیکن اب وہ اوزاروں کو تھامے ہوئے ہیں۔ جن کمزور کاندھوں کو ابھی کتابوں کا بوجھ اُٹھانا چاہیے تھا اب وہ گاڑیوں کے سپییر پارٹس کے بوجھ تلے دبے ہیں۔



اگرچہ یہ واقعہ میرے لئے نیا نہیں تھا کیونکہ لاہور شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے درجنوں ننھے بچے روزانہ نظر آتے ہیں اور یہ بات لاہور تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہاتوں میں یہ مزدور بچے آپ کو نظر آئیں گے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یونیسکو کے مطابق پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں سے 113 ویں نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 50 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پرائمری اسکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح 30 فیصد ہے۔ آئین پاکستان کی شق A-25 کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔

https://twitter.com/b_kris100/status/542820743302893568

لیکن آج تک ملک کے ایوان اقتدار پر براجمان صاحبان نے جہاں آئین کی ہر شق کی دھجیاں بکھیری ہیں وہیں آئین کی اس شق کے ساتھ بھی جی بھر کے کھلواڑ کیا۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے نمائندے جہاں ملک کو جی بھر کر لوٹتے ہیں وہیں قوم کو تعلیم سے محروم رکھنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ مقتدر طبقے کی اولادیں بیرون ملک سے تعلیم حاصل کررہی ہیں اور رعایا کے لئے ٹاٹ اسکول بھی میسر نہیں ہیں۔ گویا ایوان اقتدار کا غریب کی جھونپڑی سے محض ووٹ کی ایک پرچی کا رشتہ ہے جو ان کے لئے اقتدار کی ایک چٹھی کا درجہ رکھتی ہے، انتخابات سے قبل روزانہ جھونپڑیوں کی زیارت کرنے والے منتخب ہونے کے بعد اس جانب دیکھنا تو دور اُن کا خیال بھی نہیں لاتے۔

گذشتہ انتخابات میں نوجوانوں کو ووٹ کا اختیار ملا تو تمام سیاسی جماعتوں نے تعلیم کو اولین ترجیح میں رکھا لیکن ہوا کیا؟ تعلیم کا جنازہ جی بھر کر نکالا گیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ صاحب جو گذشتہ دور میں لیپ ٹاپ اور اسپورٹس فیسٹیولز کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی سیاسی جماعت کی جانب راغب کرنے میں مصروف و مگن تھے، نئے الیکشن میں وفاق اور پنجاب میں حکومت ملنے کے بعد غائب ہوگئے ہیں۔ سندھ کی مثال لے لیں نصاب میں تبدیلی کرکے قومی وحدت اور شعائر اسلام کا مذاق تو اُڑا لیا، پیپلز پارٹی جو اقتدار پر براجمان ہے قوم کے نوجوانوں کے لئے تو کچھ نہیں کر پائی ہاں مگر اس کے نوجوان چیئرمین نے بیرون ملک سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی ہے۔ نئے پاکستان کے دعویداروں نے نوجوانوں کو دھاندلی دھاندلی کا خواب دکھایا مگر خیبر میں اقتدار ملنے کے بعد وہاں کے وزیراعلیٰ صاحب دھرنا ڈانس کے علاوہ تعلیم کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر پائے۔



بلوچستان کی حالت تو سبھی کے سامنے ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق شرح خواندگی میں سب سے بدترین درجہ صوبہ بلوچستان کا ہے۔تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہونے کی وجہ سے جہاں قومی وحدت کو نقصان ہوا۔ نت نئے تجربات کئے جارہے ہیں، نت نئے ہیروز اور اسباق پڑھانے کی کوششیں ہورہی ہیں، اردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں تبدیلی کی جا رہی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی زخمت گوارہ نہیں کی جارہی وہیں دوسری جانب صوبے تعلیم کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کمی کر رہے ہیں۔ بجٹ کا ایک بڑا حصہ (تقریباََ 95 فیصد) تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہوں پر لگائے جارہے ہیں۔ ان تنخواہوں سے ایک بڑی رقم گھوسٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو ادا کی جارہی ہے۔ یہ اسکولز وہ ہیں جو سرکاری کاغذات میں تو موجود ہیں مگر زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 6 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کا وجود یا تو صرف کاغذوں تک محدود ہے یا پھر ان عمارتوں پر مقامی با اثر افراد یا کسی دوسرے سرکاری محکمے کا قبضہ ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ ضلع عدالتوں کے تین ججوں پر مشتمل ایک ٹیم نے ملک بھر کے دوروں کے بعد سرکاری اسکولوں سے متعلق یہ اعداد و شمار اکٹھے کئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غیر فعال سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد تقریباً 6 ہزار ہے، صوبہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے، جہاں 1962 گھوسٹ اسکولوں کے علاوہ 4 ہزار سے زائد غیر فعال تعلیمی اداروں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ پنجاب میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 83 ہے، خیبر پختونخوا میں 1300 کے قریب غیر فعال اسکول ہیں۔ اسکولوں کی عمارتوں پر قبضہ زیادہ تر سندھ اور پنجاب میں رپورٹ کیا گیا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں سیاسی مداخلت، وڈیرہ اور چوہدری سسٹم جب تک موجود ہے ملک میں شرح خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔

تعلیمی بجٹ اس وقت 2 فیصد سے بھی کم ہے جو ہاتھی کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ میری ذاتی رائے میں تعلیم پر کم از کم 5 فیصد خرچ کیا جانا چاہئے اور ایک بڑا حصہ اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کیا جانا چاہئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے میرٹ کی بنیاد پر مستحق اور ہونہار طلبہ و طالبات کو وظائف دینے چاہیں تاکہ غریب کی جھونپڑیوں میں بھی اُمید کا دیا روشن ہو اور اِس نظریے کی نفی کی جائے، جس کے مطابق ''مال جس کی جیب میں وہ ڈگریاں خرید لے''۔

سیاسی جماعتیں الیکشن سے قبل جو وعدے اور دعوے کر رہی تھیں اب اُن کا فرض ہے کہ وہ ملک سے جہالت کے اندھیرے مٹائیں۔ تعلیم کو اقربا پروری، جیالا نوازی اور سیاسی مداخلت سے دور رکھا جائے اور محض چند افراد کو نوازنے کے لئے تعلیم کا گلا گھونٹنے سے پرہیز کیا جائے۔ اِسی طرح عوام کو بھی اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے آگے بڑھنا ہوگا تبھی اس ملک سے اندھیرے ختم ہوں گے۔

[poll id="458"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں