طالبان کے خلاف دو طرفہ کارروائی کی ضرورت

افغان صدراشرف غنی نےپاکستان سےانسداد دہشتگردی میں مزیدتعاون مانگتےہوئےافغان طالبان کےخلاف سخت کارروائی کامطالبہ کیاہے


Editorial June 02, 2015
افغان سیکیورٹی فورسز کا فرض ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش تحریک طالبان پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالہ کریں۔ فوٹو : فائل

افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان سے انسداد دہشتگردی میں مزید تعاون مانگتے ہوئے افغان طالبان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق پاکستان کے نام خط میں افغان صدر نے سویلین اور عسکری قیادت سے طالبان کی تازہ جارحیت کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بروقت جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کی سربراہی میں مفاہمتی عمل کا حامی ہے اور ہم وعدے پورے کریں گے، بعض سفارتی حلقوں کے مطابق مکتوب افغان صدر پر پڑنے والا داخلی حلقوں کا دباؤ ہے جن کی خواہش ہے کہ 12 مئی2015 ء کو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین جو سنگ میل مفاہتی معاہدہ طے پایا، اسے ریورس کیا جائے جس کی بنیاد پر دونوں برادر ملکوں نے اس بات کا عہد کر رکھا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے دونوں ملک ساتھ چلیں گے ۔

پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن تصور ہوگا۔ پاکستان نے طالبان کے موسم بہار کے حملوں کی شدید مذمت کی جو غالباً پاکستان کی طرف سے پہلا سخت رد عمل تھا۔بہر کیف افغان صدر کے خط میں درج شکایات کا پاکستان کو فوری نوٹس لینا چاہیے تاہم پاکستان سے یہ مطالبہ کہ وہ حقانی جنگجوؤں کو گرفتار کرے ، طالبان رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کرے، اس امر کا متقاضی ہے کہ افغان حکام پاکستان کے اس سے قبل پیش کردہ مطالبات کا بھی جائزہ لیں جن میں پہلا مطالبہ یہ تھا کہ طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ سمیت تمام دہشت گردوں کو جو افغانستان میں روپوش ہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے۔

اگر پاکستانی عرضداشت پر عمل درآمد ہوجاتا تو اس خط کی ضرورت پیش نہ آتی ، پاکستان جوابی کارروائی کے طور آپریشن ضرب عضب کا پورا ریکارڈ سامنے رکھ سکتا ہے، طالبان کے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے نیٹ ورک تباہ و برباد ہوچکے۔ اس لیے یہ شکایت بے جا ہے کہ پاک افغان معاہدہ اور باقی طے پاجانے والے نکات کا پاکستان کی طرف سے وعدوں کے باوجود کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مذکورہ خط میں ایک الٹی میٹم اور صبر کے پیمانہ کے لبریز ہونے کی جھلک ملتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ در حقیقت یہ خط ایک ایسے وقت پر لکھا گیا ہے جب اپریل کے اواخر میں طالبان کارروائیوں میں شدت کی وجہ سے افغانستان میں جانی نقصان میں اضافہ ہو گیا ہے۔

بلاشبہ پاک افغان تعلقات میں بہتری ، طالبان کے حملوں میں آنے والی شدت اور دہشتگردی سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے پیش نظر ضروری ہے کہ دونوں برادر ملک مفاہمت جاری رکھیں، اور طالبان فیکٹر سے نبرد آزما ہونے کے لیے دو طرفہ عسکری حکمت عملی کو بروئے کار لائیں، پاکستان کی طالبان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں ، اب نئے سرے سے منظم ہونے والی افغان سیکیورٹی فورسز کا فرض ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش تحریک طالبان پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالہ کریں۔اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان کا ساتھ دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |