بجٹ201516

بے چارے عوام ایک جانب گرمی کی شدت سے نڈھال ہیں ، تو دوسری جانب غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بدحال ہیں۔


Shakeel Farooqi June 02, 2015
[email protected]

بے چارے عوام ایک جانب گرمی کی شدت سے نڈھال ہیں ، تو دوسری جانب غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بدحال ہیں۔ رہی سہی کسر بجٹ کی آمد سے قبل آنے والی زبردست مہنگائی کی طوفانی لہر نے پوری کردی ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ بقول غالب:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

وفاقی کابینہ مالی سال 2015-16 کے لیے بجٹ اسٹرٹیجی پیپرکی منظوری دے چکی ہے جب کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ ہدایت جاری فرمائی ہے کہ آیندہ مالی سال کا بجٹ عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی ہونا چاہیے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف ملنا چاہیے۔ وزیر اعظم کی ہدایت سر آنکھوں پر مگر ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ پرنالہ وہیں گرے گا۔

وزیر اعظم نے عوامی ریلیف کی بات کرکے ''گڑ نہ دے گڑ جیسی میٹھی بات تو کہہ دے'' والی کہاوت کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا مقصد عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ انھیں عام آدمی کے دکھ درد کا اچھی طرح احساس ہے اور وہ عوام کی معاشی حالت سدھارنے میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اس قول میں کس قدر صداقت اور حقیقت ہے اور وہ عوام کی فلاح و بہبود سے عملاً کس قدر مخلص ہیں اس کا پتہ بجٹ کے فوراً بعد ہی لگ جائے گا جس کے آنے میں اب زیادہ دیر باقی نہیں ہے۔ بجٹ وہ لگام نہیں ہے کہ جس سے خواہشات کے سرکش گھوڑے کو روکا جاسکے۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی تیسری حکومت کا یہ تیسرا بجٹ ہوگا۔ ماضی کی طرح اس بجٹ کے بارے میں بھی پہلے ہی سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ عوام دوست بجٹ ہوگا۔ مگر خدشہ یہی ہے کہ اس بار بھی وہی ہوگا جو اس سے قبل ہوتا رہا ہے۔پاکستان کے عام آدمی کا المیہ تو بس یہی ہے کہ:

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

وطن عزیزکا مظلوم اور ستم رسیدہ عام آدمی مدت دراز سے فریب پر فریب کھا رہا ہے اور ہر سال ''عوام دوست بجٹ'' کے عنوان سے پیش کیے جانے والے ''عوام دشمن'' بجٹ کو سچ مچ اپنا ہی بجٹ سمجھتا چلا آرہا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بندہ مزدور کے اوقات تنگ سے تنگ تر ہوتے جا رہے ہیں اور بھولے بھالے عوام کا حال یہ ہے کہ :

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

پاکستان میں ایک طبقہ تو وہ ہے جسے آپ Budget Proof کہہ سکتے ہیں۔ بجٹ خواہ کیسا بھی کیوں نہ آئے اس کی صحت پر اس کا کوئی اکثر نہیں پڑتا۔ یہ طبقہ حکمرانوں، سیٹھوں و ساہوکاروں، زمینداروں ، وڈیروں اور رشوت خور سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ہے جن کی آمدن ان کے جا و بے جا شاہانہ اخراجات سے بھی کئی گنا زیادہ ہے اور جو صرف برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ایف بی آر کے کسی بڑے سے بڑے کرتا دھرتا کی یہ مجال نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جس کی تنخواہیں اور مراعات اتنی زیادہ ہیں کہ مہنگائی ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتی۔ اس میں بڑے بڑے بیوروکریٹس، ٹیکنوکریٹس اورکارپوریٹ سیکٹر کے سفید ہاتھی شامل ہیں جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہونے کے علاوہ بے شمار مراعات بھی انھیں حاصل ہیں۔ ملک کا سب سے بدنصیب اور مظلوم ترین طبقہ وہ ہے جس کی آمدنی انتہائی محدود ہے اور روز افزوں مہنگائی نے جس کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ بجٹ کی برق تپاں سے سب سے زیادہ یہی طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ اس میں درمیانہ اور نچلے درجے کے سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین شامل ہیں جنھیں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا روز بروز مشکل سے مشکل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ان کی معاشی چادر اتنی تنگ ہے کہ اگر سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں نکل جاتے ہیں اور اگر پاؤں ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں تو سر برہنہ ہوجاتا ہے۔ اس بے کس اور بے بس طبقے سے تعلق رکھنے والے بدنصیبوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ''جائیں تو جائیں کہاں۔''

ایک صحیح معنوں میں حقیقی جمہوری حکومت کا فرض یہ ہے کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے جو درحقیقت عوامی امنگوں کا آئینہ دار ہو اور ملک کی اقتصادی و سماجی تبدیلی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں اور اس کی قوت خرید اور پس انداز کرنے کی طاقت و صلاحیت میں اضافہ ہو۔ مگر ماضی کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور ہر سال کے بجٹ کے نتیجے میں بے چارے عام آدمی کی حالت بد سے بدتر ہوجاتی ہے۔

ہماری مالیاتی پالیسی کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں Indirect Taxation کا بڑا عمل دخل ہے جس کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ اس سارے مسئلے کی اصل جڑ Incidence of Taxation۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ براہ راست ٹیکس لگانے کے نظام کو فروغ دیا جائے جسے انگریزی زبان میں Direct Taxation Systemکہا جاتا ہے۔ جب تک یہ نظام رائج نہیں ہوگا تب تک بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہی رہیں گے۔

معاشی اور معاشرتی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی پرانی اور ظالمانہ روش کو ترک کرکے ہر ایک کی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حصہ بقدر جثہ کی بنیاد پر ٹیکس وصول کرنے کا منصفانہ اور انسان دوست مالیاتی نظام متعارف کرایا جائے جو ایک فلاحی ریاست کا نصب العین ہونا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے حالانکہ یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویدار ہے۔

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے گزشتہ دونوں بجٹ انتہائی مایوس کن ثابت ہوئے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا Macro Economic سیاق و سباق سے دور پرے کا بھی کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا۔ یہ دونوں ہی بجٹ وطن عزیز کے انتہائی سنگین مسائل کا حل تلاش کرنے میں قطعی ناکام رہے ہیں۔

ہمارا بجٹ بنانے اور پیش کرنے کا نظام ایک فرسودہ روایت بن چکا ہے جسے اگر اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندا کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سالانہ مالیاتی میزانیہ حکومت کے وژن کا آئینہ دار ہو۔ مگر عملاً ایسا بالکل نہیں ہے۔ عمال حکومت کا سارا زور کسی نہ کسی طور سے محصولات کی وصولیابی پر ہی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں چالاک اور اسمارٹ مچھلیاں ہمیشہ کی طرح ہر بار ٹیکس کے جال میں آنے سے صاف بچ کر نکل جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ ہماری وزارت خزانہ میں بھی بڑے بڑے لال بجھکڑ بیٹھے ہوئے ہیں جو دور کی کوڑی لانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس کی تازہ ترین مثال اس مشورے کی صورت میں نظر آتی ہے کہ بیرونی ممالک سے موصولہ ترسیلات پر انکم ٹیکس لگایا جائے۔ خدانخواستہ اگر ہمارے وزیر خزانہ اس جھانسے میں آجاتے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کتنے سنگین نتائج برآمد ہوتے اور بیرونی ممالک میں اپنا خون پسینہ ایک کرکے غیر ملکی زرمبادلہ کماکما کر وطن عزیز کا خزانہ بھرنے والے پاکستانیوں کی کتنی حوصلہ شکنی ہوتی۔

حکومت وقت سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر کی شاہ خرچیاں کیوں کم نہیں کرتی اور ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان کے مشاہروں اور مراعات میں کمی کے بجائے بے حساب اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے جب کہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کا روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جینا حرام کر رکھا ہے۔ کاش حکومت Indexation کا وہ نظام بحال کردیتی جو عظیم ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق (مرحوم) نے بحیثیت وزیر خزانہ متعارف کرایا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔