قدیم ترین گاؤں بھون اور اس کا جوان بیٹا شعیب
اخبار پڑھنا مجبوری ہے ورنہ ادھر کچھ عرصہ سے پہلی بار بندوق اور کلہاڑی سے نہیں آگ لگا کر قتل کیا جاتا ہے
ہوتا تو ہمیشہ یہی رہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس لیکن کسی شریف زمانے میں بھینس کا بھی کچھ لحاظ کیا جاتا تھا اور لاٹھی کو بھی بچایا جاتا تھا۔ کوشش یہی ہوتی کہ میانہ روی سے کام نکال لیا جائے لیکن اب تو ہمارے معاشرے میں میانہ روی نام کی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہی۔ اخبار پڑھنا مجبوری ہے ورنہ ادھر کچھ عرصہ سے پہلی بار بندوق اور کلہاڑی سے نہیں آگ لگا کر قتل کیا جاتا ہے۔
کسی کو جہیز نہ لانے پر یا سسرال کی خواہش کے مطابق جہیز نہ لانے پر آگ میں جلایا جا رہا ہے تو کسی مخالف کو سوتے میں اس پر تیل چھڑک کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔ سب کچھ ہمارے معاشرے میں پہلی بار ہو رہا ہے اور ہم اسے برداشت کر رہے ہیں اور ہماری برداشت کا یہی عالم رہا تو بات نہ جانے کہاں جا کرختم ہو گی اور کیا رنگ دکھائے گی، انسان اس قدر ظالم اور وحشی ہو گیا ہے کہ بس روک کر سواریوں کو باہر نکالا جاتا ہے، قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر ایک ایک کر کے ان کو گولی مار دی جاتی ہے۔
ہمارے اس پورے خطے کا مزاج اس قدر بگڑ چکا ہے اور ہم اپنے مشکوک احوال کی وجہ سے اس قدر خوفزدہ ہو چکے ہیں کہ اگر سرحد پار سے انسان توکیا کبوتر جیسا معصوم پرندہ بھی غلطی سے آ جاتا ہے تو اسے خطرے سے خالی نہیں سمجھا جاتا اور اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پھر اس کی باقاعدہ تفتیش شروع ہوتی ہے اور اس مجرم کو حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہے ہمارے اندر کا خوف ہے جو ہماری بدنیتی اور ہر دوسرے کے بارے میں بدگمانی سے پیدا ہوتا ہے اور ختم نہیں ہو پاتا۔
میں نے اوپر کہا ہے کہ اخبار پڑھنا مجبوری ہے کہ ہمارا پیشہ ہی اخبار پڑھنا اور اس کی خبروں اور تبصروں پر کچھ لکھنا ہے، قارئین کو حالات زمانہ اور حاضرہ سے باخبر رکھنا ہے اور جس حد تک ممکن ہو ان کے ذہنوں کو نارمل رکھنا ہے۔ ان دنوں پاکستان کے ایک حیرت انگیز ذہن کے مالک شخص کا ذکر چہار دانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کا نام شعیب شیخ بتایا جاتا ہے جس نے تعلیمی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
یہ کون ہے اس پاکستانی کے بارے میں ہمارے دوست کالم نگار سینیٹر طارق چوہدری لکھتے ہیں کہ شعیب شیخ کون ہیں جو عالمی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں اور اس میں نیویارک ٹائمز کی ایک اسٹوری کا بڑا دخل عمل ہے۔ آپ موٹروے پر آتے جاتے، سر سبز پہاڑوں میں گھرے خوبصورت جھیل کلر کہار سے باہر نکل کر چکوال کی طرف روانہ ہوں تو پہاڑ کی اترائی میں ایک نالہ ہے اس سے ذرا پرے سڑک کے دونوں کنارے ایک گاؤں آباد ہے جس کا نام 'بھون' ہے۔ یہ گاؤں اسے خطے کا قدیم ترین گاؤں ہے کیونکہ کورو پانڈو کی جنگ اور یدھ اس گاؤں نے دیکھا ہے۔
پہاڑ کی اترائی میں واقعے نالے کے کنارے 'سوئمبر' ہوا تھا۔ اس مقابلے میں پانڈو کے بڑے بھائی ارجن نے مچھلی کی آنکھ میں تیر پرو کر خوبصورت دروپدی کو جیت لیا تھا۔ جو رسم و رواج کے مطابق سب بھائیوں کی بیوی بنی تھی کیونکہ ان دنوں 'چندری' کا رواج تھا۔ دروپدی کی رقابت مہا بھارت جنگ کا باعث بنی جس میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔ اسی گاؤں میں ہمارے دوست پروفیسر غنی جاوید رہتے ہیں ان کی بغل میں پٹواریوں کا ایک گھر ہے۔اسی گھرانے کا ایک چشم و چراغ شعیب ہے جس نے ارادہ باندھ رکھا تھا کہ وہ پیدا تو ایک کمرے کے گھر میں ہوا لیکن دنیا کا امیر ترین آدمی بن کر رہے گا۔ یہی شعیب اب شیخ اور ایگزیکٹ کا چیف ہے اور بلاشبہ وقت کا بہت بڑا آدمی ہے بے پناہ دولت مند اور مشہور و معروف۔
کل تک بالکل گمنام اس شخص کا تعارف ہمارے دوست نے کرا دیا اور ایک صحافتی معرکہ مار دیا۔ جس جھیل کلر کہار کا ذکر آیا ہے وہ موٹروے بن جانے کے بعد میرے گاؤں کے راستے میں بھی ہے اب صاف ستھرا اور آسان راستہ وہی ہے جو موٹروے کے کلر کہار موڑ سے مغرب میں سکسیر پہاڑ کی طرف جاتا ہے اس کے راستے میں میرا گاؤں بھی ہے لیکن مجھے ہرگز معلوم نہ تھا کہ میں تاریخ کے اتنے بڑے مقام کے راستے میں ہوں۔ جب بھی گاؤں جاتا ہوں تو تاریخ کی اس گزر گاہ سے ہو کر جاتا ہوں۔
ہندو مذہب چند روایات کا مجموعہ ہے۔ ایک ہندو عالم کے ساتھ دلی میں جب بات ہو رہی تھی تو اس نے مجھے روک کر کہا کہ ہمارا مذہب آپ کے مذہب کی طرح نہیں ہے، یہ چند غیر یقینی روایات کا مجموعہ ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں اور اب تحریر میں بھی آ چکی ہیں۔ بھون نامی گاؤں بھی ایسی ہی مشہور و معروف روایات کا امین ہے جہاں کا ہمارا آج کی دنیا کا ہیرو رہنے والا ہے۔
کلر کہار جھیل جس کا ذکر آیا ہے ہمارے گاؤں کے راستے میں پڑتی ہے اس کے قریب ایک بڑا سا پتھر ہے جس پر بابر نے فتوحات کی تھکان اتارنے کے لیے آرام کیا تھا۔ یہ پتھر تخت بابری کے نام سے مشہور ہے۔ بابر نے یہاں دو چار روز قیام بھی کیا تھا اور اپنی خود نوشت میں اس علاقے اور یہاں کے لوگوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ اس نے تعجب کے ساتھ لکھا کہ یہاں لوگ اناج کے ساتھ اناج کھاتے ہیں۔ یعنی روٹی اور دال۔ بابر گوشت کھانے والا تھا۔
اسے محض اتفاق سمجھیں کہ تاریخ نے کس طرح اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرایا ہے۔ ایک تو بھون کا گاؤں اور علاقہ ہے جہاں کوروپانڈو کی جنگیں بھی ہوئیں اور تاریخ نے ان واقعات کوسنبھال کر رکھا ہوا ہے۔
اب جدید دور میں تاریخ کو ایک اور موضوع مل گیا ہے جو اسی گاؤں بھون کی پیداوار ہے اور جسے اب ایک دنیا جانتی ہے اور اس کی ذہانت اور جرات پر حیران ہے۔ شعیب شیخ نے تاریخ کے قدیم ترین حوالوں سے بڑھ کر ایک نئی تاریخ لکھ دی ہے جو کسی قدیم تاریخ سے کم حیران کن نہیں ہے۔ ہمارے مزاج میں جو تلخی اور تندی پیدا ہو گئی ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے، یہ اس قدیم تاریخ کی چلی آنے والی روایت ہے جو اب ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔