حکومت کا ایک مثبت اقدام

پاکستان کا شروع ہی سے سب سے بڑا مسئلہ نیم قبائلی،جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ رہا ہے


Zaheer Akhter Bedari June 02, 2015
[email protected]

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طلباء برادری کا کردار متضاد بھی رہا ہے اور تعمیری اور تخریبی بھی، طلباء برادری اور طلبا تحریک کو دو واضح حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ طلباء کی حالیہ تاریخ طلباء کی ماضی کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ آج ملکی اورعالمی سطح پر دہشت گردی کا جو خطرناک کلچر پھلتا پھولتا اور پھیلتا نظر آرہا ہے اس کی جڑیں بھی ماضی ہی میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔

چونکہ طلبا تحریک سیاسی تحریکوں سے جڑی ہوئی رہی ہے۔ لہٰذا طلبا تحریک کو سیاسی تحریک سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں طلبا برادری دو متضاد حصوں میں بٹی رہی، ایک حصہ ترقی پسند طاقتوں کا تھا، دوسرا رجعت پسند طاقتوں کا دونوں حصوں کی نظریاتی بنیادوں کو پرکھنے کے لیے دونوں حصوں کے سیاسی نظریات کا موازنہ کرنا ضروری ہے۔ ترقی پسند طاقتیں اپنی ابتدا ہی سے سامراج مخالف جاگیرداری، سرمایہ داری مخالف رہی ہیں اور رجعت پسند طاقتیں ہمیشہ سامراجی سرمائے اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی حمایت کی محتاج رہی ہیں اس کا عملی مشاہدہ ماضی کے ان واقعات سے کیا جاسکتا ہے جو روز مرہ کے معمول بنے ہوئے تھے۔

مثال کے طور پر ترقی پسند سیاسی کارکن طلبا برادری جب سامراجی طاقتوں جاگیر داری قبائلی نظام کے خلاف سڑکوں پر آئین یا ان طاقتوں کے خلاف وال چاکنگ کرتیں تو رجعت پسند طاقتوں کے لٹھ بند جتھے مد مقابل آجاتے اور ان کی مسلح مزاحمت کرتے تھے، کالجوں اور یونیورسٹیز میں نئے سال کے داخلوں کا موقع ہو یا طلبا کی سرگرمیوں کا موقع رجعت پسند طاقتیں، ترقی پسند طلبا برادری کا مقابلہ طاقت کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتیں کیونکہ جب منفی طاقتوں کے پاس دلیل اور جواز کا راستہ نہیں ہوتا تو وہ مجبوراً تشدد کا راستہ اختیار کرلیتیں۔

پاکستان کا شروع ہی سے سب سے بڑا مسئلہ نیم قبائلی،جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ رہا ہے، ترقی پسند طاقتوں جن میں طلبا برادری شامل ہے نے ہمیشہ اس فرسودہ نظام کی مخالف رہی ہیں جب کہ رجعت پسند طاقتیں اس فرسودہ نظام کی بالواسطہ اور بلا واسطہ حامی رہی ہیں اور اس نظام کی حمایت کو نظریاتی بنیاد فراہم کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر زمین کے لا محدود حق ملکیت کی حمایت کرکے رجعت پسندوں نے جاگیردارانہ نظام کی براہ راست حمایت کا ارتکاب کرتی رہیں۔ آج ہم اس مسئلے پر قلم اٹھانے پر اس لیے آمادہ ہوئے کہ ہماری وفاقی حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس پر ایمانداری سے عمل کیا جائے تو پاکستان کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ایک مستقل اور جامع پالیسی بنائی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق اس پالیسی کی تشکیل کے لیے وزارت داخلہ مذہبی امور، ہائرایجوکیشن، صوبائی حکومتوں، محکمہ تعلیم کے تعاون سے تعلیمی اداروں میں مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے خصوصی لیکچرز اور سیمینار وغیرہ کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل در آمد کے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جارہی ہے جس میں صوبائی حکومتوں اور اہم اداروں کے نمایندے شامل ہوں گے، کمیٹی تعلیمی اداروں اور جامعات میں ملک دشمن عناصر کی جانب سے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے لائحہ عمل بھی تیار کرے گی۔

یہ بھی طے کیا جائے گا کہ امن، بھائی چارہ، مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے صوبوں کی سطح پر خصوصی مضامین پر مشتمل نصاب مرتب کیا جائے گا جس کا اطلاق پرائمری سطح سے گریجویشن پر مشتمل نصاب مرتب کیا جائے گا، جس کا اطلاق پرائمری سطح سے گریجویشن تک کیا جائے گا۔

بتایاگیا ہے کہ اس مسئلے کا محرک سانحہ صفورا چورنگی ہے جس کے گرفتار ملزمان میں 95 فی صد ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ پائے گئے ہیں۔ اس پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہوگا کہ تعلیمی اداروں میں ایک خفیہ سروے کراکر یہ دیکھا جائے گا کہ کون سے گروپ طلبا میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے طلبا میں فکری ترویج کا کام انجام دے رہے ہیں اور ان گروپس کا طریقہ کار کیا ہے اور ان کی مالی معاونت کے ذرایع کیا ہیں؟ ان عناصر کی نشاندہی کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس پالیسی کی غالباً ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف سخت ترین آپریشنز کے باوجود دہشت گردی پر پوری طرح قابو نہیں پایا جارہاہے اور سانحہ صفورا کے بعد یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی آبیاری تعلیمی ادارے کررہے ہیں۔ جو اصولاً جہل کے مخالف ہوتے ہیں لیکن عملاً جہل کے فروغ کے باعث بن رہے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان کے مستقبل پر نظر ڈالی جائے تو ایک انتہائی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر معاشرتی حوالے سے ایک نیم قبائلی، جاگیردارانہ معاشرت کا حامل ملک ہے پاکستان کی آبادی کا لگ بھگ 60 فی صد حصہ دیہی معیشت اور معاشرت سے جڑا ہوا ہے جہاں مولوی حضرات اور جاگیردار نظریاتی رہنما بنے ہوئے ہیں۔

اس اتحاد کا نتیجہ یہ ہے کہ یا تو تعلیمی اداروں کو بارود سے اڑایا جارہاہے یا پھر ان اداروں میں وڈیروں کے مویشی باندھے جاتے ہیں۔ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے امریکا بہادر نے ڈالروں کے ذریعے دینی مدرسوں کو جس طرح انتہا پسندوں کی عسکری تربیت گاہوں میں بدل دیا اور پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ کئی مسلم ملکوں کے انتہا پسندوں کو پاکستان میں جمع کردیا ان سے روس کو نکالنے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن پاکستان کو جس انتہا پسندی کے حوالے کردیا، اس کا خمیازہ پاکستان پچھلے دو عشروں سے بھگت رہا ہے۔

حالیہ ایگزیکٹ اسکینڈل کے حوالے سے ہمارے ایک مذہبی مدبر نے ایگزیکٹ کے اداروں کو جہالت کی فیکٹریوں کا نام دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے پر جعلی ڈگریوں کی فروخت کا الزام ہے اور یہ سرگرمیاں بالواسطہ جہالت کی مضبوطی کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ اس ادارے کو کرپشن کی فیکٹریاں تو کہا جاسکتا ہے لیکن جہالت کی فیکٹریاں نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ منظم کرپشن کا کام جاہل نہیں کرسکتے۔ہمارے دینی مدارس کی بھاری اکثریت انتہا پسندی کرانے میں ملوث نہیں ہے بلکہ جہالت پھیلانے میں اہم کردار جدید نوعیت کے تعلیمی اداروں نے کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔