جنے لہورنئیں ویکھیا اوجمیا ای نئیں پہلاحصہ

ایک دور ایسا تھا کہ پاکستانی فلموں کا عروج تھا ، چھوٹے قصبوں سمیت بڑے شہروں میں لاتعداد سینما گھر تھے


لیاقت راجپر June 02, 2015

ایک دور ایسا تھا کہ پاکستانی فلموں کا عروج تھا ، چھوٹے قصبوں سمیت بڑے شہروں میں لاتعداد سینما گھر تھے ۔ جمعے کو جب نئی فلم کا پہلا میٹنی شو ہوتا تو سینما گھروں پر بے تحاشا رش نظر آتا ۔ اس دور میں اداکار محمدعلی، ندیم، وحید مراد کا طوطی بولتا تھا اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ کراچی اور لاہور کا رخ کرتے تھے۔ اداکاراؤں میں زیبا، رانی، انجمن، عالیہ، بابرہ شریف کے بھی بہت فین تھے۔

1971 کی جنگ کے بعد مجھے بھی خیال آیا کہ میں بھی لاہور جاؤں اور جو نظارے فلموں میں نظر آتے ہیں وہ بھی دیکھوں اور اپنے پسندیدہ اداکار اور اداکاراؤں سے ملوں اور پھر اپنے ہیروز کی طرح فلموں میں کام کروں۔ فلمیں دیکھ دیکھ کر میں بھی اپنے آپ کو کسی ہیرو سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ اس وقت جوانی تھی،کپڑے اچھے پہنتا تھا، بال بھی گھنے اور بڑے تھے، ورزش کرنے کی وجہ سے باڈی بھی خوبصورت تھی۔

فلمیں دیکھ دیکھ کر میں بھی اداکار بننے کے شوق میں مبتلا ہوگیا ، ایک دن اپنے دوست مشرف کو کہا کہ میں لاہور جانا چاہتا ہوں اور وہ مجھے کسی رشتے دار کا پتہ دیں۔ میرے دوست کے دونوں کزنز سے میری سلام دعا تھی کیونکہ وہ جب شادی میں شرکت کے لیے لاڑکانہ آئے تھے تو ان سے واقفیت ہوگئی تھی۔ میں لاڑکانہ سے روہڑی آیا اور وہاں سے لاہور کے لیے ریل گاڑی میں سوار ہوا۔

رات کا کچھ حصہ اور دن کے کئی گھنٹے گاڑی میں سوار ہونے کے بعد جب میں لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو مجھے رنگیلے کی فلم کا سین یاد آیا جس میں ٹانگے والے اسے دونوں اطراف سے ٹانگے پر بیٹھنے کے لیے اتنا کھینچتے ہیں کہ کوٹ کی دونوں آستینیں پھٹ کر ٹانگے والوں کے ہاتھوں میں آجاتی ہیں۔ لہٰذا میں کافی محتاط ہوکر قمیص کے بٹن کھول کر آستینیں چڑھاکر اور سینہ پھلا کر چلنے لگا تو ٹانگے والے میرے طرف لپکے اور کہا پہلوان جی کتھے جانا ہے۔

پنجابی فلمیں دیکھ کر مجھے پنجابی اچھی طرح بولنے آتی تھی۔ میں نے پنجابی میں ٹانگے والوں سے کہا کہ مجھے ٹی این ٹی کالونی جانا ہے۔ انھوں نے ایک چلتی ویگن کی طرف اشارہ کیا کہ وہ جا رہی ہے ادھر۔ کنڈیکٹر سے پوچھا کہ بھائی مجھے ٹی این ٹی جانا ہے تو اس نے کہا آہو جی آجاؤ۔ اب اس ویگن نے مجھے گلبرگ اتار دیا۔

گلبرگ میں جب میں نے ٹی اینڈ ٹی کالونی کا پوچھا تو بتایا کہ وہ تو دوسری طرف ہے۔ اب میں نے ٹریفک والے کو سارا حال بتایا جس نے وہاں جانے والی ویگن کو روک کر اسے کہا ' اے میرا پرونہ ہے ایہدے کولوں پیسے نہ لیویں۔ اب میں جب وہاں منزل پر پہنچا تو سورج غروب ہونے والا تھا۔ بہرحال راستہ پوچھتے پوچھتے منزل پر پہنچ گیا، جہاں میرا بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا۔ جہاں میں گیا تھا وہ تھے تو اردو بولنے والے مگر ان کا کھانا پینا بالکل پنجابی طرزکا تھا۔ نیا گھر، نیا ماحول، نئی چارپائی اور نیا موسم جس کی وجہ سے مجھے ساری رات نیند نہیں آئی

صبح ہوتے ہی میں نے اپنے دوست کے کزن سے کہا کہ مجھے فلم اسٹوڈیو جانا ہے تو انھوں نے کہا کہ کل چلیں گے آج انھیں ڈیوٹی پر جانا ہے اور وہ اپنے دفتر نکل گئے۔ میں بے چین تھا اور باہر سڑک پر نکل آیا اور اسٹوڈیوکا پتہ پوچھا۔ معلوم ہوا کہ اسی ملتان روڈ پرکافی آگے جاکرہے ۔ میں بس میں بیٹھ کر اس طرف روانہ ہوا۔

جب ایورنیو اسٹوڈیو کا بورڈ نظر آیا تو وہاں اترگیا۔ سامنے ایک بڑا گیٹ تھا جہاں ایک پٹھان چھڑی ہاتھ میں لے کر لوگوں کو گیٹ سے بھگا رہا تھا۔ میں بھی ایک کونہ پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ کوئی اداکار یا پھر اداکارہ اسٹوڈیو سے باہر آئے یا پھر اندر جائے تو وہاں پر کھڑے ہوئے لوگ بھیڑ کی صورت میں نظر آتے تھے۔ وہ کہتے تھے ارے محمد علی گاڑی میں جا رہا ہے، ارے اداکارہ رانی باہر نکل رہی ہیں۔

یہاں کھڑے کھڑے دوپہر ہوگئی اور بھوک بھی لگنے لگی۔ ایورنیو اسٹوڈیو کے ساتھ باری اور اس کے برابر میں شاہ نور اسٹوڈیو تھے اور ان کے باہرکچھ جھونپڑی نما ہوٹل تھے جہاں پر چھوٹے اداکار اور ایکسٹرا کا رول کرنے والے کھانا کھاتے نظر آئے۔

اب باری باری تینوں اسٹوڈیوز کے چکر لگتے رہے۔ جب رات ہوگئی تو میں گھر کی طرف لوٹ آیا۔ میری غلطی یہ تھی کہ میں نے کسی کو بتایا ہی نہیں کہ میں کہاں جا رہا ہوں جس کی وجہ سے سارے گھر والے بڑے پریشان تھے ،اس فعل سے مجھے کافی شرمندگی محسوس ہوئی۔ ٹی اینڈ ٹی کالونی میں ایک سینما تھا جہاں میرے میزبان مجھے فلم دکھانے لے گئے۔ فلم سے واپسی کے بعد میں نے انھیں بتایا کہ وہ پریشان نہ ہوں میں خود ہی لاہورکی سیرکروں گا۔

صبح میں اسٹوڈیوزکی طرف آگیا، اب میں نے سوچا کہ ایسے تو میں عمر بھر اسٹوڈیو کے اندر نہیں جاسکتا اس لیے میں نے سوچا کوئی واقفیت نکالوں۔ ایورنیو اسٹوڈیو کے برابر ایک پان بیڑی کا کیبن تھا جہاں کولڈڈرنک بھی ملتی تھی۔ وہاں جاکر ایک کولڈڈرنک خریدی اور پینے کے دوران میں نے کیبن والے سے کہا کہ بھائی میں لاڑکانہ سے آیا ہوں ، اسٹوڈیو دیکھنا چاہتا ہوں ، بتاؤں مجھے اندر جانے کے لیے اجازت کیسے ملے گی۔

یہ بات سنتے ہی کیبن والا اچھل پڑا اور کہا کہ'' تم لاڑکانہ سے آئے ہو بھٹو کے شہر سے۔'' اس نے ایک دم اسٹوڈیو کے گیٹ والے کو بلایا اور کہا یہ بندہ ہمارے لیڈر بھٹو کے شہر سے آیا ہے۔

اب یہ بات پورے اسٹوڈیو میں پھیل گئی اور مجھ سے ہر آدمی ملنے کے لیے آنے لگا اور مجھے اسٹوڈیو میں اندر لے گئے جہاں پر منیجر بیٹھا تھا جس نے میرے لیے ٹھنڈا مشروب منگوایا اور پھرکھانا کھلایا۔ میرے چاروں طرف لوگوں کا مجمع سا اکٹھا ہوگیا جس میں اداکار بھی تھے۔اداکار محمد علی سے لے کر، ادیب، حبیب، ہدایتکار، موسیقار، رائٹرز سب ہی بھٹو کے فین تھے۔ مجھ سے بھٹو کے بارے میں پوچھتے رہتے اور میں انھیں بھٹو کے بارے میں بتاتا رہا۔کیا دن تھے۔

(جاری ہے )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں