انسانیت کے لیے

16 جولائی 1945 کو علی الصباح انسانی تاریخ کے پہلے ایٹم بم کا دھماکا ہوا۔


[email protected]

KARACHI: سائنس نے ذرے کا بطن چیر کر ایٹم بم تو برآمد کرلیا مگر اس بوتل سے نکلنے کے بعد اب یہ جن خود اپنے خالقوں کے لیے ایک ہیبت ناک ہوا بن گیا ہے یہاں تک کہ اب امریکا اس خوف سے لرزہ براندام ہے کہ ایٹم بم اگر دہشت گردوں کے ہاتھ آگیا توکیا ہوگا؟

بہر حال ایٹم بم کی کہانی بھی خوب ہے، شروع شروع میں امریکی سائنس دانوں کو جس چیز سے دلچسپی پیدا ہوئی وہ ایٹم بم نہیں تھا بلکہ وہ یورنیم کے انشقاق کا طریقہ معلوم کرنا چاہتے تھے، پر امن ذریعہ توانائی کے طور پر نہ کہ خطرناک ہتھیار کے طور پر 1939 کے اوائل میں صدر روز ویلٹ نے سائنس دانوں کے ایک گروپ کی سفارش پر ''مجلس مشاورت برائے یورنیم قائم کی جس کا سربراہ ڈاکٹر لائی مین برگس تھا۔

اس مجلس سے کہا گیا کہ وہ ''توانائی کے اس نئے ذریعے کے امکاناتِ ترقی دریافت کرے'' مجلس نے اپنا کام شروع کردیا، ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ جنگ عظیم دوم یورپ اور برطانیہ کی حدود سے نکل کر اطراف میں پھیلنے لگی اور محسوس ہونے لگا کہ امریکا کو بھی جلد یا بدیر اس جنگ میں شامل ہونا پڑے گا، چنانچہ امریکا بھی اس جنگ میں شامل ہوگیا۔ 1941 کے موسم خزاں میں امریکا اور برطانیہ کے سائنس دانوں نے اس امکان پر غور کرنا شروع کردیا کہ کوئی زیادہ خوفناک بم ایجاد کرنا چاہیے۔

7دسمبر 1941 کو پرل ہاربر کے حملے کے بعد ایسا بم بنانے کے اقدامات پوری تیزی سے کیے گئے اس سے پہلے کبھی انسانی تاریخ میں سائنس دانوں کی کسی ٹیم نے مل کر اتنے کم وقت میں اتنا بڑا انقلابی یا انقلاب خیز فناکار (ANNIHILATOR) کارنامہ سرانجام نہ دیا تھا۔ ان کے سامنے اصول یہ تھا کہ اگر یو235 کی کمیت کو تیزی سے یکجا کیا جائے تو انتہائی خوفناک تباہی لانے والا بم بنایا جاسکتا ہے، نیز یہ کہ بم کے دھماکے سے جو توانائی خارج ہوگی اس کی ایک کلو گرام کی توانائی تین سو ٹی این ٹی کے مساوی ہوگی۔ اس اصول کو روبہ عمل لانے کے لیے جنونی انداز میں کام کیا گیا اور اس طرح صرف دو سال کی شبانہ روز مجنونہ تحقیق کے بعد دنیا کا پہلا ایٹم بم تجربے کے لیے تیار تھا۔ اس پر اب تک دو ارب ڈالر خرچ ہوچکے تھے۔

16 جولائی 1945 کو علی الصباح انسانی تاریخ کے پہلے ایٹم بم کا دھماکا ہوا۔ یہ ایٹمی تجربہ البوقرق سے120 میل سے فاصلے پر بنائے گئے ایک آہنی مینار کی چوٹی پر سے کیا گیا پورا دیہی علاقہ ایسی روشنی سے چمک اٹھا جو دوپہر کی دھوپ سے بھی کئی گنا زیادہ نوریت رکھتی تھی۔ 6 اگست 1945 کو دنیا کا پہلا ایٹم بم جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایاگیا۔ 9 اگست 1945 کو دنیا کا دوسرا بم جاپان کے شہر ناگا ساکی پرگرایاگیا۔ دونوں شہر صفحہ ہستی سے نابود ہوگئے۔ دوسرے دن شہنشاہ جاپان نے امن کی درخواست کی۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہوگئی۔

ہر سال ماہ اگست میں ان ایک لاکھ چالیس ہزار نفوس کی یاد میں جلسے جلوس، سیمینار، مذاکرے اور مظاہرے ہوتے ہیں جو 1945 میں امریکی ایٹم بموں کا نشانہ بن کر مظلوم بے موت مارے گئے، مغربی و یورپی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک افسوس ناک حد تک اپنے اپنے سیاسی، معاشرتی اور معاشی و اقتصادی حالات میں گھرے ہونے کے سبب محسوس ہی نہیں کرپا رہے کہ جس تلوار نے ہیروشیما اور ناگا ساکی کو بے دردی سے ذبح کردیاتھا وہ اب ان کے سروں پر بھی لٹکی ہوئی ہے اس پر المیہ یہ کہ یہ ممالک ایٹمی جنگ کے خطرناک اثرات سے بے نیاز اور ہولناک تباہ کاری سے نابلد ہیں۔ ''ایٹمی سردیوں'' کے موضوع پر تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اگر صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک میں ایٹمی جنگ ہوئی تو اس کی تابکاری سے بظاہر غیر جانب دار چھوٹے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

ایٹمی جنگ کے بعد ایٹمی سردیوں کا موسم طاری ہوجائے گا اور آیندہ زندگی کے آثار تک معدوم ہوجائیں گے، ایک اندازے کے مطابق اگر یورپ میں محدود ایٹمی جنگ بھی ہو اور اس جنگ میں موجود ایٹمی ہتھیار کا صرف ایک چوتھائی ذخیرہ استعمال کیا جائے اور صرف چند شہروں پر بمباری کی جائے تو فضا میں اتنی تاب کاری پیدا ہوجائے کہ کئی مہینوں تک سورج کی دھوپ زمین تک نہیں پہنچے گی، جنگل کے جنگل سوکھ جائیں گے، کھڑی فصلیں تباہ ہوجائیں گی اور نئی فصلوں کے اگنے کا آیندہ کئی سال تک امکان نہیں رہے گا،اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ترقی پذیر ممالک رئیس ممالک کی تباہی کے بعد خود بھی معاشی طور پر مفلوج ہوجائیں گے۔

آج ہم سب ایٹمی خطرے میں زندہ رہتے ہیں، آج جتنی بھی ایٹمی طاقتیں ہیں ان تمام سربرآوردہ ایٹمی طاقتوں کو پوری انسانیت کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق آخر کیونکر پہنچتا ہے؟ سپر طاقتیں آج جنگ پر بے دریغ خرچ کررہی ہیں اور جس طرح ترقی یافتہ ممالک کو اپنا اسلحہ فروخت کرنے کی ہوس ہے، اس طرح ترقی پذیر ممالک کو بھی اسلحہ خریدنے کی ہوس ہے اس طرح یہ جنگی و ایٹمی جنون ایک لا علاج مرض کی طرح مسلسل بڑھتا جارہاہے اور آج سیکنڈے نیویا سے لے کر جنوبی امریکا تک، یورپ سے لے کر افریقہ تک، افریقہ سے لے کر مشرقی بعید تک ہر مرد اور عورت کی زندگی ان بڑی ایٹمی طاقتوں کے فیصلوں کی تابع ہوکر رہ گئی ہے، حالانکہ اب بڑی طاقتوں کی ذمے داری صرف ان کی اپنی آبادی تک محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ اب ہر ملک اور ہر قوم کی، ہم سب کی ذمے داری بن گئی ہے۔

کسی بھی نظریے یا نظریاتی تصادم کو انسان کا مستقبل داغدار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انسان کی حالیہ ترقی اور ماضی کے تاریخی و تہذیبی کارنامے سب منفی ایٹمی ترقی کی بدولت داؤ پر لگے ہوئے ہیں، نوجوانوں کی بے یقینی، غریبوں کی مفلوک الحالی اور مفلسوں کی بھوک کے وقت میں ہم نے اپنا مستقبل سچ مچ اسلحے کی دوڑ کے نام گروی رکھ دیا ہے، اس کے باوجود ہم اسی راہ پر اندھا دھند چلے جارہے ہیں، پس عالمی برادری کو اس تعلق پر خصوصی توجہ دینا ہوگی جو تخفیف اسلحہ اور ترقی کے درمیان موجود ہے اور پھر اس پر عمل کرنا ہوگا۔

اسلحے کے کارخانوں اور صنعتوں کو ''فوجی پیداوار کے شعبے سے نکال کر ''سول پیدا وار کے شعبے میں بدل دینے کے لیے ہمیں ٹھوس اور دور رس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں اس لمبی خلیج کو بھی پاٹنا چاہیے جو ''اسلحہ بنانے کی تحقیق'' اور ''اسلحہ مٹانے کی تحقیق'' کے درمیان موجود ہے۔ ایٹمی تحفظ اور سلامتی کی بات کرتے وقت ایٹمی طاقتوں کو ترقی پذیر ممالک کے نقطہ نظر سے بھی سوچنا چاہیے جہاں غربت و افلاس، قحط، بے روزگاری، خوراک کی کمی اور تعلیم و ناخواندگی جیسے اہم اور بنیادی مسائل چیلنجز کی صورت میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.

کتنی عجیب اور حیرت انگیز بات ہے کہ فوجی تحقیق پر با صلاحیت اور ذہین و فطین مردوں اور عورتوں کی سائنسی صلاحیت اگر موسمیات، خوراک، آب و ہوا اور امراض وغیرہ پر مرکوز ہوتی تو انسان کے حق میں کتنے مفید نتائج بر آمد ہوتے۔ مصنوعی سیارے، میزائل اور اینٹی میزائل وغیرہ کا ڈیزائن بنانے اور پھر ان کی حقیقی ساخت و تعمیر کے لیے ہزاروں نہیں لاکھوں سائنس دانوں اور انجینئروں کی افرادی قوت تعمیری منصوبوں پر لگائی جائے تو ہمارے بیمار کرۂ ارض کی تقدیر بدل سکتی ہے.

آج ایٹم بم اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے خالق اور استعمال کرنے والے انسانیت کی عدالت میں بطور مجرم کھڑے ہیں، عوام پہلے ہی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے ہیں لیکن حکومتوں کی ترجیحات پر یہ صدائے احتجاج کب اثر انداز ہونا شروع ہوں گے ابھی یہ واضح نہیں، بین الاقوامی معاہدوں پر حقیقی معنوں میں کب عمل در آمد ہوگا یہ بھی ابھی واضح نہیں، آپ دفاعی نظام بنائیں گے تو آپ کا دشمن بھی بنائے گا یہ سوچنا غلطی ہے کہ دوسرا آپ جیسا دفاعی نظام نہیں بنائے گا، بڑے دکھ کے ساتھ سوال کرنا پڑ رہا ہے ایسا کیوں ہے؟ یہ سب کچھ کیا ہورہاہے۔

، کس لیے ہورہاہے اور کس کے لیے ہورہاہے، آخر تمام ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے ایٹمی اسلحہ خانوں کو مکمل طور پر ختم کردینے کے بارے میں بالمشافہ گفتگو کرکے سادہ دلی سے معاہدہ کیوں نہیں کرلیتیں کہ آیندہ ایٹمی ہتھیار و ایٹمی میزائل نیز دیگر روایتی و مہلک جنگی سازوسامان نہیں بنائے جائیں اور جتنے بنائے گئے ہیں ان کو استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ تلف کردیاجائے گا، ہماری وفاداری کا رشتہ اس نازک نیلے سیارے (کرۂ ارض) اور اس پر آباد مخلوق سے استوار ہے، نہ صرف اپنے لیے نبھانا ہے بلکہ اس مادر ارض کے واسطے بھی جس کی قدیم اور وسیع کوکھ سے ہم نے جنم لیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں