ڈاکو کھیت سے ڈاکوگیری تک

بات ہو رہی تھی ڈاکو کی تو اس زمانے میں چور سپاہی کی کہانیاں تو بچوں کو سنائی جاتی تھیں۔



ISLAMABAD: ڈاکو لفظ جرائم کرنے والوں کی Superlative Degree ہے۔ بادشاہ، چوکیدار، چور یہ لفظ بھی تھے اور لوگ بھی بعض بادشاہ ڈاکو تھے، بعض ڈاکو بادشاہ ۔ بچپن سے کہانیوں میں چور سپاہی کے قصے پڑھے۔ان کہانیوں میں چور بھی ایک ''معصومانہ'' حرکت کرنے والا اور سپاہی بھی ایک قانون کے مطابق اس غلطی کو درست کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔

اس زمانے میں شاید چوری ایک غلطی تھی اور غلطی کی سزا کے بعد یوں ہی تھا کہ جیسے ہیڈ ماسٹر سے سزا کے بعد طالب علم پھر طالب علم رہتا تھا اور وہ آنے والے دنوں میں کامیابیوں کے بعد اپنے ٹیچرز کی سزاؤں کو ایک درست اقدام قرار دیتے اور اس سزا کو ہی اپنی ترقی کا زینہ اور وجہ قرار دیتے تھے۔ پھر زمانہ کچھ بدلا انگریز کا دور آیا یعنی سابقہ ہندوستان کے لوگوں کی غلامی کا دور شروع ہوا۔ سابقہ ہندوستان میں یہ علاقے بھی کافی حد تک شامل تھے جو اب پنجاب اور سندھ پر مشتمل ہیں، بہرحال انگریز کی حکمرانی رہی یوں ہند اور سندھ دونوں غلام بنے۔

بات ہو رہی تھی ڈاکو کی تو اس زمانے میں چور سپاہی کی کہانیاں تو بچوں کو سنائی جاتی تھیں۔ مجھ جیسے بچے خود پڑھ لیا کرتے تھے آنہ لائبریری سے۔ تو ڈاکو کو بہت خوفناک چیز سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کے ہاتھ جو کچھ لگ جائے وہ بچنا مشکل تھا چاہے سامان ہو یا اور ''کچھ''۔ تو عموماً اس کردارکو زیادہ ڈراؤنا سمجھا جاتا تھا اور بچوں کو یہ کہہ کر بھی ڈرایا جاتا تھا کہ خاموش ہوجاؤ ورنہ فلاں ڈاکو آجائے گا۔ یہ الزام بھی ڈاکو کے سلسلے میں انگریز کے سر ہی لگے گا حالانکہ کہیں کی بھی تاریخ اٹھالیں۔ ڈاکو اور اس کے سرپرست ایک جیسے ہی نظر آئیں گے۔

وہ ملک جو آج شائستگی اور اخلاقیات کی اعلیٰ حدوں کو چھو رہے ہیں ان میں بھی ایک زمانے میں ڈاکو راج رہ چکا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں ہے جس میں ڈاکو راج نہ رہا ہو یا اب رائج نہیں ہو رہا۔

ڈاکوؤں کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے علاقے طے تھے اور وہ علاقے ''ڈاکو کھیت'' تھے ایک طرح سے اور اس علاقے میں آباد لوگ ان کھیتوں کی پیداوار جن سے ڈاکو ''نان نفقہ'' حاصل کرتے تھے۔ ڈاکو ہر دور میں رہے ہیں بس معاملہ یوں ہے کہ کہیں ڈاکو کو ڈاکو ہی کہا گیا اور کہیں اسے ڈاکو نہیں کہا گیا مگر کام اس نے وہی انجام دیے اور ''بادشاہ'' کہلایا۔

اکثر ایمان پر ڈاکا ڈالا گیا دولت کے بل پر اور ڈاکو کامیاب رہے۔ جہاں ڈاکو کامیاب نہ رہے وہاں کی تاریخ آج بھی قابل فخر لکھی اور پڑھی جاتی ہے اور ایسا ہوتا رہے گا۔ نسلیں بدل جائیں گی واقعے کی تاریخ بدلے گی نہ اس کے اثرات۔برصغیر میں ڈاکو راج میں ایک ''تڑکا'' لگا۔ سلطانہ ڈاکو۔ اب یہ پتہ نہیں کہ سلطانہ کیوں۔ سلطان کیوں نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جس طرح اغلاط عام نے اردو کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔

ڈاکو کے نام کا بھی ''اغلاط عام'' ہوگیا ہو۔ ہمیں یہی لکھنا پڑے گا کیونکہ لوگ اس نام سے ہی واقف ہیں۔ جنس کا کیا جھگڑا کرنا۔ تو سلطانہ ڈاکو نے اپنے پیشے کا پہلی بار کمرشل استعمال کیا اور کامیابیوں کا ایک طویل سلسلہ حاصل کیا اس طوالت کے پیچھے وہ کمرشل ازم یا سلطانہ ڈاکو کا ذہن تھا کہ جس نے یہ Positive Resultدیے۔ وہ یہ کہ سلطانہ ڈاکو نے ایک فلاحی اسکیم شروع کی اور اس کے تحت اس نے آمدنی۔۔۔۔معاف کیجیے گا ڈاکے کا ایک حصہ غریبوں کی امداد کے لیے مختص کردیا اور لوگوں کو وہاں سے ہی لوٹ کر وہاں مدد کرنے کا آغاز کیا۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسرے کو لٹتے دیکھ کر کبھی ناخوش نہیں ہوتا، گھر بٹھا کے فائدے پر ضرور خوش ہوتا ہے تو یہ طریقہ کار سلطانہ ڈاکو نے اختیار کیا اور اس طرح دو فائدے حاصل کیے ایک تو لوگ لٹنے والوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے کیونکہ ان کو تو اس میں سے امداد مل رہی تھی اور وہ خود ان امیروں کو کب پسند کرتے تھے چاہے وہ امیر کاروبار سے ہی بنے ہوں تو یوں مخالفت اور مخالف Manpower کا خاتمہ ہوگیا اور دوسرے ڈاکے کو برا سمجھنے کا تصور دم توڑنے لگا اس کی جگہ لوگ ڈاکو کو رحم دل، ہم درد، خیرخواہ اور غریبوں کا مسیحا سمجھنے لگے۔

اس کا فائدہ انگریزوں نے بہت اٹھایا اور اس رسم ''ڈاکو گیری'' کو ''ملک گیری'' میں تبدیل کرکے سابقہ ہندوستان پر قبضہ کرلیا اس کے مدد کردہ غریب، میر جعفر، میر قاسم کی صورت موجود تھے جو اس کی نظروں میں غریب تھے یہ الگ بات ہے کہ مقامی طور پر وہ ''سرمایہ دار'' تھے۔ انگریز نے وہیں سے لوٹا وہیں دے دیا یہ تصور اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا ورثہ برصغیر کے لوگوں کو ملا ہے۔ پہلے تو سلطانہ ڈاکو کی ترکیب مگر انگریز نے ''ڈالی'' لگا کر اسے انگریز کی وراثت بناکر ''لاٹ صاحب'' بنا دیا اور یوں اس سارے علاقے میں ''کالے لاٹ صاحب'' پیدا ہوگئے۔

دراصل لفظ تو "LOARD" ہے مگر انگریز اپنے علاوہ Loard کسی کو مانتا نہیں لہٰذا اس نے ان نچلے درجے کے Loards کو ''لاٹ صاحب'' کا ''اغلاط عام'' میں ہی دبا رہنے دیا اور کبھی درستگی کی کوشش نہ کی۔ اب یہ قصہ تو پھر زنانہ شعبے میں بھی گیا اور وہاں ''پھولن دیوی'' کا جنم ہوا، جسے خود ان لوگوں نے جن کے ظلم سے وہ ''پھولن'' بنی اسے خوب اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا یہاں تک کہ لوک سبھا تک کا ممبر بنوادیا مگر اس کے بعد شاید پھولن دیوی کو ''ادراک'' ہوگیا۔

لہٰذا پھولن دیوی کا کردار موت کے حوالے کردیا گیا جو ڈاکو کا انجام ہوتا ہے وہاں وہی ہوا چاہے اسے لوک سبھا تک کا ممبر بنا دیا گیا تھا۔یہ ایک طویل کہانی ہے اور ایسے کردار انسانی تاریخ میں بھرے پڑے ہیں جیساکہ میں نے لکھا ہے کہ کسی ملک کی تاریخ اس سے آزاد نہیں ہوگی، کیوں؟ اس لیے کہ یہ انسانی فطرت ہے، مزاج ہے ایک شدید غلط فہمی ہےWorld Over کہ انسان ہمیشہ زندہ رہے گا۔ تجربات سے انسانی زندگی کو بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کیونکہ شواہد ملے کہ انسان ہزار سال تک بھی عمر پاچکا ہے اور شواہد کی کتاب ''قرآن کریم'' نے اس کا ذکر بہت پہلے کردیا اور تمام قوموں کا ذکر کردیا جو آچکی ہیں، جو آگئی ہیں، اور جو آئیں گی۔ 'وارث قرآن'' تو قتل و غارت گری میں مصروف ہیں ،وارث قرآن بمعنی تمام مسلمان اور ان کا ایک گمراہ حصہ قتل و غارتگری میں مصروف ہے۔ وضاحت ضروری ہے کہ کسی کو غلط معنی نکالنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ سوچ بھی تو ہماری محدود اور مائل بہ گمراہی رہتی ہے عام طور پر۔ خیر تو ان ڈاکوؤں کو استعمال کرنے کا طریقہ دریافت کیا ان لوگوں نے جنھیں یہ ڈاکو لوٹا کرتے تھے۔

کیونکہ ڈاکوؤں کا کوئی مخصوص گھر تو نہیں ہوتا یہ تو Travelling Robbers تھے، آج بھی ہیں تو ان کو چھپنے، آرام کرنے کی جگہ چاہیے ہوتی تھی اس کا بندوبست سرمایہ داروں نے کیا اور اس کے عوض دوسرے سرمایہ داروں کے یہاں ''ڈاکے'' ڈلوائے، مخبری کروائی۔ اور حاصل شدہ مال سے ایک حصہ بھی حاصل کیا، جب ایک نے یہ کام کیا تو سب اس پر لگ گئے اور ایک دوسرے کو ''لوٹنا''، ''لٹوانا'' شروع ہوا۔ پھر ان لوگوں نے سوچا کہ یہ ہم کیا کر رہے ہیں غریبوں کا خون ہم چوستے ہیں پھر ڈاکو لے جاتے ہیں، پھر ہمیں ڈاکوؤں کو پناہ دینی پڑتی ہے، پھر حصہ ملتا ہے تو یہ تو بہت دردسری ہے کوئی اور راستہ ہونا چاہیے تو شاید ادارے وجود میں آئے اور اب ان کو ادارہ کہیں تو شاید لوگ برا نہ مان جائیں مگر جرائم کے بھی تو ادارے ہی ہوتے ہیں۔ اب جہاں تربیت دی جاتی ہے وہاں یہ بات الگ ہے کہ حکومت کا نام وہاں نہیں ہوتا مگر کام تو وہ حکومت کا ہی کرتے ہیں۔

یہ الگ موضوع ہے پھر کبھی سہی، بات ہے ڈاکوؤں کی۔ سب سے زیادہ یہی شعبہ چلا اور کامیاب رہا اور یہاں تک ہوا کہ بعض ڈاکو ''رابن ہڈ'' بن کر تھانوں اور تفتیش میں آنے لگے۔ یہ میں انگلینڈ اور دوسرے ممالک کی بات کر رہا ہوں کراچی سے اس کا کوئی خفی یا جلی تعلق نہ سمجھا جائے نہ اس میں لیاری کو شامل کیا جائے۔

ڈاکوؤں کی اس کہانی کو لکھنے میں خاصا دور تک جانا پڑا ہے اور اب بھی ایک ''پھولن دیوی'' حاضر ہوتی ہیں عدالت میں مگر کیا طمطراق اور ''شان'' ہے کہ سب ''صدقے قربان'' ہیں جیل سے عدالت تک۔ (عدالت نہیں)۔

اب ایک کام تو کریں آپ۔ میرے بیان کردہ کردار تاریخ برصغیر کے کردار ہیںNon Written یا Written۔ آپ بھی تو تھوڑا سا حصہ لیں اس میں۔ ان کرداروں کو جو اب بھی موجود ہیں ''سلطانہ ڈاکو'' ، اس کی اسکیم ''امیروں کی پناہ گاہیں برائے ڈاکو صاحبان'' وغیرہ تو اپنی آسانی اور مزید لطف کے لیے ان کرداروں کے موجودہ اصلی نام تو لکھ کر دیکھیے آپ کو KPKسے بلوچستان تک لطف آجائے گا۔ پنجاب اور سندھ سے تو آپ اس دوران گزریں گے ہی لطف اٹھاتے ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں