’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘
نجم سیٹھی کو سمجھ آہی گئی کہ ایک بار پی سی بی کو چھوڑا تو دوبارہ واپسی مشکل ہوگی
''شکریہ آپ نے فون کیا ورنہ اب تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے، جب بورڈ کا سربراہ تھا تو لوگ آگے پیچھے گھومتے تھے مگر اب ایک کال کر کے خیریت بھی دریافت نہیں کرتے''
گذشتہ دنوں ایک سابق چیئرمین پی سی بی سے جب بات ہوئی تو انھوں نے یہ الفاظ ادا کیے، اس وقت میں نے سوچا کہ ہمارے ملک میں جو کرسی پر ہے اسی کو سلام کیا جاتا ہے بعد میں کوئی اہمیت نہیں رہتی،ایسے میں جب آج نجم سیٹھی کا یہ اعلان سامنے آیاکہ وہ آئی سی سی کی صدارت قبول نہیں کر رہے تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوئی، دیر سے سہی مگر انھیں یہ بات سمجھ آ ہی گئی کہ ایک بار پی سی بی کو چھوڑا تو دوبارہ واپس آنا انتہائی دشوار ہو گا،کل تک وہ کونسل کی پوسٹ کیلیے بے چین تھے، انھوں نے پی سی بی کی سربراہی سے بھی اسی وجہ سے الگ ہونا مناسب سمجھا مگر اب اچانک خود ہی دستبردار ہوگئے، انھیں یہ احساس ہو گیا کہ آئی سی سی کا یہ عہدہ نمائشی ہے۔اس میں آپ بغیر بلائے کسی میٹنگ میں شرکت کر سکتے ہیں نہ ووٹ کا اختیار ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان ملکی بورڈ سے لاتعلق ہونا ہے، نجم سیٹھی کو بھی طاقتور کرکٹ کمیٹی کی سربراہی اور گورننگ بورڈ کو چھوڑنا پڑتا، اس کا سب سے بڑا فائدہ شہریارخان کو ہوتا جو بطور چیئرمین کھل کر اپنی اننگز کھیلتے، بورڈ میں ایک بار جو آ جائے اس کا جانے کو دل نہیں کرتا۔
نجم سیٹھی کیلیے بھی یہ راہ تلاش کی گئی کہ انھیں ایک سال کیلیے گورننگ بورڈ سے چھٹی دے دی جائے، وہ بطور آئی سی سی صدر بورڈ میں ہی دفتر بنائیں مگر شاید بات نہ بن سکی۔یہاں ایک ماہ کا پتا نہیں ہوتا وہ ایک سال کیلیے پی سی بی چھوڑتے تو اتنا طاقتور بن کر واپس آنا ممکن نہ ہوتا، ایسے میں یقیناً انھوں نے یہی سوچا ہو گا کہ آئی سی سی کی صدارت چھوڑ کر پاکستان کرکٹ کے معاملات ہی سنبھالے رہیں،فرسٹ کلاس کے فضائی ٹکٹ، فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام، غیر ملکی دورے تو پی سی بی میں رہ کر بھی ممکن ہیں، آئی سی سی میں علامتی پوسٹ کا کیا فائدہ،اب وہ تمام تر دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں گے، کچھ عرصے قبل آئی سی سی نے انھیں حساس موضوعات پر میڈیا سے بات کرنے سے بھی منع کیا تھا، وہ خود کسی تنازع میں پڑنے سے بچنے کیلیے خاصے لو پروفائل میں تھے، گذشتہ دنوں کئی فیصلے چیئرمین نے تن تنہا کیے، اب ایسا نہیں ہو سکے گا، نجانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں نجم سیٹھی ایک بار پھر چیئرمین بھی بن سکتے ہیں۔
آج جب ان کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تو فوراً کال کی جو انھوں نے وصول نہ کی مگر پھر ایک گھنٹے بعد جوابی فون آیا، میں نے ان سے کہا کہ '' یہ آپ نے کیا دھماکا کر دیا'' تو وہ کہنے لگے ''کیسا ہے میرا فیصلہ، میں نے آئی سی سی کے چیئرمین، پی سی بی چیف اور اپنے اہل خانہ سب سے مشاورت کے بعد یہ قدم اٹھایا، اس پوسٹ میں مجھے تقریباً50 لاکھ روپے تک ملتے، فرسٹ کلاس کا ہوائی سفر، ٹورز پر 400ڈالرز یومیہ الاؤنس الگ تھا'' میں نے ان سے کہا کہ میری معلومات کے مطابق تو یہ اعزازی پوسٹ تھی تو وہ کہنے لگے پھر بھی50لاکھ روپے تک مل جاتے،ان کا کہنا تھا کہ ''آئی سی سی آئندہ سال سے کسی سابق کرکٹر کو صدر بنائے گی،بنگلہ دیشی مصطفیٰ کمال کے تنازع کی وجہ سے ایسا فیصلہ ہوا، اگر میں ابھی یہ عہدہ سنبھال لوں تو پاکستان کی اگلی باری 10برس بعد آتی یہ ہمارے کسی سابق کھلاڑی کے ساتھ ناانصافی ہوتی''، میں نے جب ان سے پوچھا کہ اب کسے صدر بنا رہے ہیں تو جواب دیا کہ یہ فیصلہ گورننگ بورڈ کرے گا۔
بہرحال پی سی بی جو بھی فیصلہ کرے مجھے اس وقت آئی سی سی صدارت کے2،3 امیدوار نظر آرہے ہیں، ایک رمیز راجہ جو ماضی میں بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو بھی رہ چکے، ان کی شہریارخان اور نجم سیٹھی کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت بھی ہوئی ہے، دوسری شخصیت ظہیر عباس ہیں جو بیچارے گذشتہ کئی برس سے کوچ سے چیئرمین بورڈ تک ہر پوسٹ کیلیے اپنی ''خدمات'' پیش کر چکے مگر کوئی لفٹ کرانے کو تیار نہیں، وہ حکام کے خاصے قریب ہیں اس لیے شاید قرعہ فال ان کے نام نکل آئے، بعض آزاد حلقے ماجد خان کا نام بھی پیش کر رہے ہیں،بہرحال تقرری کسی کی بھی ہو وہ ایسی شخصیت ہونی چاہیے جو آئی سی سی کی میٹنگ میں جا کر اچھی طرح بات تو کر سکے ۔
کیونکہ وہاں معاملہ میچ کے بعد انگریزی میں رٹے چند جملے بولنے کا نہیں ہوگا اپنی پوری بات سمجھانی پڑے گی، اگر بورڈ کو کوئی مناسب امیدوار نہیں مل رہا تو سی او او سبحان احمد کو ہی نامزد کر دینا چاہیے،اچھی ساکھ کے حامل سبحان پاکستان کرکٹ کے حوالے سے مناسب فیصلے کرا سکتے ہیں۔دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے مگر اب بورڈ کے تمام افسران کو مل جل کر ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے کام کرنا ہوگا، سب سے پہلے میڈیا ڈپارٹمنٹ کو ٹھیک کرنا چاہیے،اعلیٰ لیول پر مسائل کا اثر نچلے ملازمین پر بھی پڑنے لگا ہے۔
امجد حسین بھٹی عمدگی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، انھوں نے زمبابوے سے سیریز میں بھی بہترین انداز سے کام کیا، انھیں رضا راشد جیسے ایک،دو نوجوان افسران دے کر آزادی سے فرائض نبھانے دینا چاہیے،آغا اکبر اب ان کے ساتھ نہیں چل سکتے کسی دوسرے شعبے میں تبادلہ کرنے سے ماحول خوشگوار ہو جائے گا،اسی طرح بورڈ کو کچھ مخصوص افراد کے گھیرے سے نکل کر باصلاحیت افسران کا تقرر کرنا چاہیے۔
اپنے ہی اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے سے وہی حال ہو گا جو اب ہے، ٹیم نویں نمبر پر آ چکی اور زمبابوے نے بھی ناکوں چنے چبوا دیے، ابھی تو خیراعلیٰ افسران ہوم سیریز کے انعقاد پر کامیابی کے نشے میں چور ہیں،انھیں جشن منانے دیتے ہیں،مگر تیار رہیں آگے سری لنکا سے سیریز آ رہی ہے، وہ میڈیا جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر خامیوں کی نشاندہی سے باز رہا تلواریں تیز کر رہا ہو گا، ایسے میں مناسب یہی ہو گا کہ اچھے اقدامات کر کے کسی کو تنقید کا موقع ہی نہ دیا جائے تاکہ مثبت نتائج سامنے آ سکیں۔
گذشتہ دنوں ایک سابق چیئرمین پی سی بی سے جب بات ہوئی تو انھوں نے یہ الفاظ ادا کیے، اس وقت میں نے سوچا کہ ہمارے ملک میں جو کرسی پر ہے اسی کو سلام کیا جاتا ہے بعد میں کوئی اہمیت نہیں رہتی،ایسے میں جب آج نجم سیٹھی کا یہ اعلان سامنے آیاکہ وہ آئی سی سی کی صدارت قبول نہیں کر رہے تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوئی، دیر سے سہی مگر انھیں یہ بات سمجھ آ ہی گئی کہ ایک بار پی سی بی کو چھوڑا تو دوبارہ واپس آنا انتہائی دشوار ہو گا،کل تک وہ کونسل کی پوسٹ کیلیے بے چین تھے، انھوں نے پی سی بی کی سربراہی سے بھی اسی وجہ سے الگ ہونا مناسب سمجھا مگر اب اچانک خود ہی دستبردار ہوگئے، انھیں یہ احساس ہو گیا کہ آئی سی سی کا یہ عہدہ نمائشی ہے۔اس میں آپ بغیر بلائے کسی میٹنگ میں شرکت کر سکتے ہیں نہ ووٹ کا اختیار ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان ملکی بورڈ سے لاتعلق ہونا ہے، نجم سیٹھی کو بھی طاقتور کرکٹ کمیٹی کی سربراہی اور گورننگ بورڈ کو چھوڑنا پڑتا، اس کا سب سے بڑا فائدہ شہریارخان کو ہوتا جو بطور چیئرمین کھل کر اپنی اننگز کھیلتے، بورڈ میں ایک بار جو آ جائے اس کا جانے کو دل نہیں کرتا۔
نجم سیٹھی کیلیے بھی یہ راہ تلاش کی گئی کہ انھیں ایک سال کیلیے گورننگ بورڈ سے چھٹی دے دی جائے، وہ بطور آئی سی سی صدر بورڈ میں ہی دفتر بنائیں مگر شاید بات نہ بن سکی۔یہاں ایک ماہ کا پتا نہیں ہوتا وہ ایک سال کیلیے پی سی بی چھوڑتے تو اتنا طاقتور بن کر واپس آنا ممکن نہ ہوتا، ایسے میں یقیناً انھوں نے یہی سوچا ہو گا کہ آئی سی سی کی صدارت چھوڑ کر پاکستان کرکٹ کے معاملات ہی سنبھالے رہیں،فرسٹ کلاس کے فضائی ٹکٹ، فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام، غیر ملکی دورے تو پی سی بی میں رہ کر بھی ممکن ہیں، آئی سی سی میں علامتی پوسٹ کا کیا فائدہ،اب وہ تمام تر دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں گے، کچھ عرصے قبل آئی سی سی نے انھیں حساس موضوعات پر میڈیا سے بات کرنے سے بھی منع کیا تھا، وہ خود کسی تنازع میں پڑنے سے بچنے کیلیے خاصے لو پروفائل میں تھے، گذشتہ دنوں کئی فیصلے چیئرمین نے تن تنہا کیے، اب ایسا نہیں ہو سکے گا، نجانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں نجم سیٹھی ایک بار پھر چیئرمین بھی بن سکتے ہیں۔
آج جب ان کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تو فوراً کال کی جو انھوں نے وصول نہ کی مگر پھر ایک گھنٹے بعد جوابی فون آیا، میں نے ان سے کہا کہ '' یہ آپ نے کیا دھماکا کر دیا'' تو وہ کہنے لگے ''کیسا ہے میرا فیصلہ، میں نے آئی سی سی کے چیئرمین، پی سی بی چیف اور اپنے اہل خانہ سب سے مشاورت کے بعد یہ قدم اٹھایا، اس پوسٹ میں مجھے تقریباً50 لاکھ روپے تک ملتے، فرسٹ کلاس کا ہوائی سفر، ٹورز پر 400ڈالرز یومیہ الاؤنس الگ تھا'' میں نے ان سے کہا کہ میری معلومات کے مطابق تو یہ اعزازی پوسٹ تھی تو وہ کہنے لگے پھر بھی50لاکھ روپے تک مل جاتے،ان کا کہنا تھا کہ ''آئی سی سی آئندہ سال سے کسی سابق کرکٹر کو صدر بنائے گی،بنگلہ دیشی مصطفیٰ کمال کے تنازع کی وجہ سے ایسا فیصلہ ہوا، اگر میں ابھی یہ عہدہ سنبھال لوں تو پاکستان کی اگلی باری 10برس بعد آتی یہ ہمارے کسی سابق کھلاڑی کے ساتھ ناانصافی ہوتی''، میں نے جب ان سے پوچھا کہ اب کسے صدر بنا رہے ہیں تو جواب دیا کہ یہ فیصلہ گورننگ بورڈ کرے گا۔
بہرحال پی سی بی جو بھی فیصلہ کرے مجھے اس وقت آئی سی سی صدارت کے2،3 امیدوار نظر آرہے ہیں، ایک رمیز راجہ جو ماضی میں بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو بھی رہ چکے، ان کی شہریارخان اور نجم سیٹھی کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت بھی ہوئی ہے، دوسری شخصیت ظہیر عباس ہیں جو بیچارے گذشتہ کئی برس سے کوچ سے چیئرمین بورڈ تک ہر پوسٹ کیلیے اپنی ''خدمات'' پیش کر چکے مگر کوئی لفٹ کرانے کو تیار نہیں، وہ حکام کے خاصے قریب ہیں اس لیے شاید قرعہ فال ان کے نام نکل آئے، بعض آزاد حلقے ماجد خان کا نام بھی پیش کر رہے ہیں،بہرحال تقرری کسی کی بھی ہو وہ ایسی شخصیت ہونی چاہیے جو آئی سی سی کی میٹنگ میں جا کر اچھی طرح بات تو کر سکے ۔
کیونکہ وہاں معاملہ میچ کے بعد انگریزی میں رٹے چند جملے بولنے کا نہیں ہوگا اپنی پوری بات سمجھانی پڑے گی، اگر بورڈ کو کوئی مناسب امیدوار نہیں مل رہا تو سی او او سبحان احمد کو ہی نامزد کر دینا چاہیے،اچھی ساکھ کے حامل سبحان پاکستان کرکٹ کے حوالے سے مناسب فیصلے کرا سکتے ہیں۔دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے مگر اب بورڈ کے تمام افسران کو مل جل کر ملکی کرکٹ کی بہتری کیلیے کام کرنا ہوگا، سب سے پہلے میڈیا ڈپارٹمنٹ کو ٹھیک کرنا چاہیے،اعلیٰ لیول پر مسائل کا اثر نچلے ملازمین پر بھی پڑنے لگا ہے۔
امجد حسین بھٹی عمدگی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، انھوں نے زمبابوے سے سیریز میں بھی بہترین انداز سے کام کیا، انھیں رضا راشد جیسے ایک،دو نوجوان افسران دے کر آزادی سے فرائض نبھانے دینا چاہیے،آغا اکبر اب ان کے ساتھ نہیں چل سکتے کسی دوسرے شعبے میں تبادلہ کرنے سے ماحول خوشگوار ہو جائے گا،اسی طرح بورڈ کو کچھ مخصوص افراد کے گھیرے سے نکل کر باصلاحیت افسران کا تقرر کرنا چاہیے۔
اپنے ہی اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے سے وہی حال ہو گا جو اب ہے، ٹیم نویں نمبر پر آ چکی اور زمبابوے نے بھی ناکوں چنے چبوا دیے، ابھی تو خیراعلیٰ افسران ہوم سیریز کے انعقاد پر کامیابی کے نشے میں چور ہیں،انھیں جشن منانے دیتے ہیں،مگر تیار رہیں آگے سری لنکا سے سیریز آ رہی ہے، وہ میڈیا جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر خامیوں کی نشاندہی سے باز رہا تلواریں تیز کر رہا ہو گا، ایسے میں مناسب یہی ہو گا کہ اچھے اقدامات کر کے کسی کو تنقید کا موقع ہی نہ دیا جائے تاکہ مثبت نتائج سامنے آ سکیں۔