احساس محرومی

یہ محرومیاں کسی انتقامی جذبے میں ڈھل کر کسی ایسے نقصان کا باعث نہ بن جائیں جس کا ازالہ ممکن نہ ہو۔

احساس محرومی اور نامناسب ماحول میں پل کرجب یہ بچے بڑے ہونگے تو معاشرے میں کیا مقام حاصل کر پائیں گے؟ فوٹو: فائل

الازہر گارڈن سے ایک خط

پیا رے اللہ میاں،

میرے ابو نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ کہیں نظر نہیں آتے۔ میری دوست ثانیہ کہتی ہے کہ تمہارے ابو اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے ہیں۔ کیا وہ آپ کے پاس آگئے ہیں؟ پیارے اللہ آپ اُن کو واپس بھیج دیجئے۔ میرا دل ان کے بغیر بہت اداس ہے۔ میں کبھی ان کو ناراض نہیں کروں گی، کبھی بھی تنگ نہیں کروں گی۔ وہ مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ میں روزانہ شام کو اُن کا انتظار کرتی ہوں کہ اب اُن کا دفتر سے آنے کا وقت ہوگیا ہے مگر وہ نہیں آتے۔

وہ مجھ سے ناراض ہوکر تو نہیں گئے تھے، وہ تو دفترگئے تھے بس میں بیٹھ کر، کہہ کر گئے تھے کہ شام کو واپس آتے ہوئے میرے اور بھائی کے لئے ٹافیاں، بسکٹ اور کلر پینسل لائیں گے۔ لیکن پھر وہ آئے ہی نہیں، میں جب سے ان کا انتظار کر رہی ہوں۔ آپ ابو سے کہیئے گا کہ میں اب کوئی فرمائش نہیں کروں گی بس وہ آجائیں۔

آپ تو اللہ میاں سب کا حال جانتے ہیں ناں آپ انہیں بتا دیجئے گا کہ میں بہت دل لگا کر پڑھ رہی ہوں۔ کلاس میں اچھے نمبر آتے ہیں، شرارتیں بھی نہیں کرتی اور امی اور چھوٹے بھائی کا خیال بھی رکھتی ہوں۔ سب لوگ مجھے پیار کرتے ہیں۔ چاچو، تایا ابو، ماموں مگر مجھے پھر بھی ابو بہت یاد آتے ہیں۔ میری دوست ہے ناں ثانیہ اس کے ابو جب اسے اسکول چھوڑنے آتے ہیں ناں تو مجھے یاد آتا ہے کہ ابو میرا بیگ اٹھا کر مجھے اسکول چھوڑ کر آتے تھے۔ ابو کے سارے کپڑے، جوتے میں نے ترتیب سے الماری میں رکھے ہوئے ہیں روزانہ انہیں دیکھتی ہوں کہ اپنی جگہ ترتیب سے رکھے ہیں کہ نہیں، ان کی ساری کتابیں بہت احتیاط سے صاف کرتی ہوں تا کہ گندی نہ ہوں۔

لیکن وہ آ کیوں نہیں رہے؟ کیا اُن کو میں یاد نہیں آتی؟ میرا دل کرتا ہے کہ میں ابو کے ہاتھوں پر آرام سے سر رکھ کرلیٹ جاوں وہ مجھے کہانیاں سنائیں۔ اللہ میاں سب کہتے ہیں کہ وہ اب کبھی نہیں آئیں گے انہیں دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے مار دیا ہے۔ جس بس پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی تھی اس میں ابو بھی تھے۔ اُنہیں بھی گولیاں لگیں تھیں اور ان کا بہت خون بہہ رہا تھا۔ اُن کے سارے کپڑے خون میں بھر گئے تھے، یہ میں نے چاچو کو کہتے سنا تھا۔ پیارے اللہ میاں ان کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ جب میں کھیلتے ہوئے گرگئی تھی تو میرے چوٹ لگ گئی تھی اور خون بھی نکل رہا تھا تو میرے بہت درد ہوا تھا۔ پھر ابو نے ہی میرے ہاتھ پر دوا لگائی تھی۔ پتہ نہیں ابو کے زخموں پر کسی نہ دوا لگائی بھی ہوگی کہ نہیں، اللہ میاں اب ان کو واپس بھیج دیں میں وعدہ کرتی ہوں کہ کبھی تنگ نہیں کروںگی ابو کو، ان کے زخموں پر خود دوا بھی لگایا کروں گی اور جب وہ ٹھیک ہوجائیں گے تو مجھے اسکول بھی چھوڑنے جایا کریں گے، میں اُن کے ساتھ کھیلوں گی اور بہت ساری باتیں بھی کروں گی۔ ان سے کہیئے کہ اب آجائیں میں بہت یاد کر رہی ہوں اور ان کے بغیر اداس ہوں۔

ابو آپ کی منتظر

مریم
(کراچی)

درج بالا خط ایک معصوم بچی کے احساسات کا ترجمان ہے۔ جس میں اس نے اپنے طفلانہ احساسات اور جذبات کا اظہار اللہ تعالیٰ سے کیا ہے۔ فقط ایک کراچی صفورا واقعے میں یتیم ہونے والی ایک مریم ہی کیا، پورا پاکستان خواہ وہ وزیرستان ہو کہ کوئٹہ و گلگت نہ جانے ایسے کتنے معصوم بچوں کو پدرانہ شفقت و محبت سے محروم کردیا گیا ہے۔ حالیہ رونما ہونے والا سانحہ مستونگ جس میں 19 بے گناہ مسافروں کا بلا جواز قتل عام کردیا گیا۔ اِن سب واقعات کے متاثرین کس سے سوال کریں؟ شہرکراچی میں روزانہ ہی کئی افراد دہشت گردوں کی سفاکیت کا شکار ہوتے ہیں۔ کہیں مذہب تو کہیں لسانی بنیادوں پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور اُن کے پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے بوڑھے والدین، فریاد کناں بہنیں، بے آسرا ہوجانے والے معصوم اطفال جن کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔

لیکن حکومت ہے کہ اِن موت بانٹنے والے دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام ہے۔ یہ برسرِاقتدار افراد کبھی پلٹ کر یہ نہیں دیکھتے کہ جن مرنے والوں نے انہیں منتخب کرکے یہ اقتدار بخشا اُن کی ناقص کارکردگی اور بے حسی کی نذر ہوگئے۔ اُن کے بعد اُن کے پسماندگان کس حال میں ہیں؟ اس بے ہنگم مہنگائی کے دور میں کس طرح اپنے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ ان حکومتی سربراہان کے اپنے بچے تو بیرون ملک میں اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کرر ہے ہیں۔مگر کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان غریب مرنے والوں کے بچے کس حال میں ہیں؟ ان کی تعلیم اور ضروریات کا ذمہ دار کون ہے؟

احساس محرومی اور نامناسب ماحول میں پل کر جب یہ بچے بڑے ہونگے تو معاشرے میں کیا مقام حاصل کر پائیں گے۔ اِن تلخ حقیقتوں کا ادراک اہل اقتدار کو ہونا چاہیئے کیونکہ یہ محرومیاں کسی انتقامی جذبے میں ڈھل کر کسی ایسے نقصان کا باعث نہ بن جائیں جس کا ازالہ ممکن نہ ہو۔

حکومت اور عوام دونوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ملکر باہم رہنا چاہئے تمام مذہبی و مسلکی تفریق بھلا کر مہاجر، سندھی، بلوچی، پنجابی وپختون تضادات مٹانے ہونگے تاکہ کوئی ہمیں کمزور پاکر اپنے مفادات کی خاطر ہم میں پھوٹ نہ ڈلواسکے اور ان حکمرانوں کو بھی چاہیئے کہ وہ ان تضادات کو اپنے اقتدار اور سیاسی مقاصد کے لئے نہ ابھاریں۔ جو بچے اس محرومی کا شکار ہوگئے ہیں ان کی دیکھ بھال اور تعلیم وتربیت ہم سب کی ملی و مذہبی ذمہ داری ہے تاکہ مستقبل میں یہ اطفال بھی کارآمد شہری بن کر اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کو صف اول کی اقوام میں شامل کرسکیں۔

[poll id="496"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story