’’جونام وہی پہچان صرف اور صرف پاکستان‘‘
جو ہمارانام ہے وہی ہماری پہچان ہے اور ہمارا نام اور ہماری پہچان صرف اور صرف پاکستان ہے۔
اچھے روزگار کے تلاش کی خواہش کسے نہیں ہوتی؟ اس کے لئے انسان سب سے پہلے اچھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے لئے شبانہ روز محنت کرتا ہے تاکہ اسے معاشرے میں ایک باعزت اور اچھا روزگار میسر آسکے بعد ازاں ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد وہ دفاتر کے جنگل میں مارا مارا پھر کر اپنی ڈگریوں اور صلاحیتوں کے بل پر روزگار حاصل کرنے کی بھر پور سعی کرتا ہے اور پھر جب سفارش اور رشوت یا پھر کوئی سیاسی وابستگی نہ ہونے کے باعث اسے کہیں سے بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پاتی تو وہ انسان دلبرداشتہ ہوکر یا تو جرائم کی راہ اختیارکر لیتا ہے یا پھر بیرون ملک سفر کا ارادہ کر لیتا ہے۔
جانے کیسے کیسے جتن کرکے، لوگوں سے قرض لے کر، اپنی ماں کے زیور فروخت کرکے، یہاں تک کہ وہ اچھے مستقبل کے لئے سود پر قرض لینے تک سے نہیں چوکتا اور کسی نہ کسی طرح بیرون ملک ویزہ حاصل کرکے ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، سے دور سمندر پار جا پہنچتا ہے تاکہ وہ اپنے گھر کو آسودگی فراہم کرسکے ۔
بڑی چاہ ہوتی ہے انسان کو کہ وہ کسی طرح بیرون ملک جا کر اچھی نوکری حاصل کرکے خود سے وابستہ لوگوں کی کفالت کا ذمہ با احسن طریقے سے ادا کرسکے اس کے لئے انسان کافی محنت اور تگ و دو کے بعد ایجنٹ کے وسیلے سے ویزہ حاصل کرتا ہے تو اُس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، خوشی خوشی وہ اپنے اچھے مستقبل کے لئے وہ دل پر پتھر رکھ کراپنوں سے دور دیارغیر کا سفر اس سوچ اور نیت کیساتھ کرتا ہے کہ اب اس کے تمام تر دُکھ اور درد دور ہوجائیں گے اور وہ یکسوئی کے ساتھ سخت محنت کے بعد روٹی روزی کما کر مسرت و شادمانی حاصل کرلیتا ہے اور چشم تصور سے وہ اہل خانہ کی خوشحالی کو دیکھتے ہوئے تقویت حاصل کرکے قدرے اطمینان حاصل کرتا ہے کہ اس کی ذات سے اس کے گھر والے اب بتدریج رفتہ رفتہ آسودگی کی جانب مائل ہونے لگے ہیں اور وہ اپنی تمام تر تکالیف، پریشانیوں اور تردد کو پس پشت ڈال کر مزید تندہی کے ساتھ مشقت میں جت جاتا ہے۔
مگر جہاں انسان بہت سی معاشی بحرانوں سے خود کو نکال لیتا ہے وہیں اسے کچھ ایسے عوامل اور باتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو اس کے کرب میں اضافہ کرتے ہیں جن میں چند ایسی منفی باتیں، باہمی کدورتیں، نفرتیں حسد جیسے محرکات شامل ہیں جو کہ پردیس میں نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اُس کو بسا اوقات اس سے بھی نبردآزما ہونا پڑتا ہے اور ان تمام باتوں سے ایسا انسان جو ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہو وہ ذہنی تناؤ اور کم مائیگی کا شکار ہوجاتا ہے۔
راقم الحروف بھی گزشتہ چند سالوں سے سعودی عرب کی ایک مقامی کمپنی میں ملازمت کرکے اپنے اہل خانہ کی پرورش و پرداخت میں کردار ادا کررہا ہوں اور اس بات سے قدرے مطمئن ہوں کہ اگر وہ گھر سے دور ہے تو کیا ہوا گھر والے تو خوش حال ہیں، بس یہی سوچ کر تمام تر تھکاوٹ اور پریشانی کا احساس دل سے جاتا رہتا ہے۔ مگر ایک بات نے مجھے یہاں اپنے ابتدائی ایام سے ہی تکلیف اور تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ پردیس جہاں بسنے والے سارے پاکستانیوں کو ایک فیملی کی مانند ہونا چاہئے تھا وہاں یہ بات واضح طور پر نظر آرہی تھی کہ یہاں پر مقیم زیادہ تر پاکستانیوں کی اکثریت پاکستانی ہونے کے بجائے خود کو اپنے آبائی گاؤں، شہروں، صوبوں اور مختلف زبانوں کی بنیاد پر روشناس کرانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے تھے جس سے قومیتی و نسلی تعصب فروغ پا رہا تھا اور پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال بھی فاصلوں کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کررہی تھی۔
کیونکہ لوگوں میں سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی پسندیدگی اور ناپسندگی کا سلسلہ بھی اس ضمن میں منفی کردار ادا کررہا تھا اور الیکشن کے زمانے میں یہ زہر یہاں کے نفوس کے رگ و پے میں اس قدر سرائیت کر جاتا ہے کہ کہیں سے یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم سب ایک وطن میں رہنے والے ایک ملک کے باسی اور پاکستانی ہیں بس خود کو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور سامنے والے کو پست و نیچا ثابت کرکے فخر محسوس کیا جا رہا تھا۔ یہاں بسنے والے دیگر ممالک کے لوگ جن میں بھارت، بنگلہ دیش، فلپائن، مصر، یمن اور دیگر ممالک سے وابستہ افراد روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے، وہ سب ہماری ذہنی پسماندگی اور ابتر صورتحال دیکھ کر نہ صرف محظوظ ہورہے تھے بلکہ گاہے بگاہے وہ خود ہمیں اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ ''بھائی۔۔۔!! آپ لوگوں کی فطرت میں پہچان کا احساس اس قدر کیوں اتر گیا ہے''؟ وہ ہمیں بارہا ہے یہ بات بھی باور کراتے تھے کہ ''آپ پر قبضہ کرنے کے لئے کسی بھی دشمن کی ضرورت نہیں آپ لوگوں کے قلوب میں خود ہی ایک دوسرے کی نفرت اس قدر ہوگئی ہے کہ آپ کے ملک میں کسی مسلح مداخلت کی ضرورت نہیں''۔
یہ صورتحال محض صرف یہاں نہیں بلکہ میری معلومات اور تجزیے کے مطابق دنیا کے کسی بھی کونے میں چاہے وہ گلف ممالک ہوں یا یورپ کا کوئی ملک وہاں ہر جگہ پاکستانیوں کا یہی حال ہے، خود کو پاکستانی کہلانے کے بجائے اپنی زبان سے خود کو فوقیت دے کر افضل و اول ثابت کرنے کی حتی المقدور سعی کی جاتی ہے جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔
مجھے افسوس اس بات کا بھی بہت تھا کہ جب پاکستان کا کوئی بھی شہر لسانیت، فرقہ وارایت یا کسی بھی نوعیت کے جرائم یا قتل وغارت گری کا شکار ہوتا تو وہ اُس پر کف افسوس ملنے کے بجائے وہاں کے اپنے اُس ہم وطن دوست جو اُس وقت بد قسمتی سے ان کے ساتھ ملازمت کررہا ہو اور اس کا تعلق اسی شہر، اسی علاقے سے ہو تو پھر اس پر مسلسل طنز کے نشتر چبھو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی کہ مبادا یہ کام اس شخص نے یہاں پردیس میں بیٹھا از خود کروایا ہو۔ ایسا رویہ اپنے ہی ہم وطنوں کا مضحکہ خیز رویہ اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ دیگر ممالک کے باسی جو یہاں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے اُن میں اِس قسم کی تقسیم نظر نہیں آتی تھی وہ تمام لوگ بھی مختلف زبانوں اور صوبوں کے ہونے کے باوجود باہمی محبت، اخوت اورملنساری کا مثالی نمونہ نظر آتے تھے۔
بھارت اور بنگلہ دیش جو کہ ہر اعتبار سے تقریباً ہماری ہی طرح کے ممالک ہیں وہاں ہم سے زیادہ صوبے اور زبانیں بولی جاتی ہیں مگر یہاں رہنے والوں میں، میں نے کسی بھی قسم کی انفرادیت یا پہچان موجود نہیں دیکھی۔ وہ سب سے پہلے خود کو انڈین، بنگلہ دیشی کہلواتے تھے، وہ سب ایک ساتھ مل کر اور باہمی تعاون کا مظاہرہ کرکے اپنے ایک ہونے اور مضبوطی کا برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جو کہ ان کی یہ ایک اچھی روایت اور ایک خوش آئند بات بھی ہے۔
اِس لیے میں تمام ایسے ہم وطنوں سے جو پاکستان سے دور دیارِغیر میں روزگار کے سلسلے میں آباد ہوں وہ سب سے پہلے خود کو پاکستانی تصور کریں اور باقی لوگوں پر یہ آشکار کردیں کہ ہم سب ایک پرچم کے سائے تلے زندگی گزارنے والے محب وطن سچے پاکستانی ہیں تاکہ دوسرا کوئی ہم پر یہ کہہ کر کہ ''آپ پر قبضہ کرنے کے لئے کسی بھی دشمن کی ضرورت نہیں آپ لوگوں کے اندر توخود ہی ایک دوسرے کی نفرت کا اس قدر ہے کہ کسی مسلح مداخلت کی ضرورت نہیں'' انگلی اٹھانے کی جسارت نہ کرے۔ یاد رکھیں ہمیں خود کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لئے اپنے ذہن سے اس قسم کی تمام تر خرافات کو از خود باہر نکال پھینکنا ہوگا اور یہ بات ذہن میں ازبر کرلینی ہوگی کہ جو ہمارانام ہے وہی ہماری پہچان ہے اور ہمارا نام اور ہماری پہچان صرف اور صرف پاکستان ہے اور ہم نے ایسا نہیں کیا تو خدا نہ کرے ہماری اس کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر ہمارے دشمن ہمارے خلاف ہم پر غالب آکر مبادہ کوئی سنگین اقدام نہ اٹھا لیں۔
[poll id="459"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جانے کیسے کیسے جتن کرکے، لوگوں سے قرض لے کر، اپنی ماں کے زیور فروخت کرکے، یہاں تک کہ وہ اچھے مستقبل کے لئے سود پر قرض لینے تک سے نہیں چوکتا اور کسی نہ کسی طرح بیرون ملک ویزہ حاصل کرکے ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، سے دور سمندر پار جا پہنچتا ہے تاکہ وہ اپنے گھر کو آسودگی فراہم کرسکے ۔
بڑی چاہ ہوتی ہے انسان کو کہ وہ کسی طرح بیرون ملک جا کر اچھی نوکری حاصل کرکے خود سے وابستہ لوگوں کی کفالت کا ذمہ با احسن طریقے سے ادا کرسکے اس کے لئے انسان کافی محنت اور تگ و دو کے بعد ایجنٹ کے وسیلے سے ویزہ حاصل کرتا ہے تو اُس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، خوشی خوشی وہ اپنے اچھے مستقبل کے لئے وہ دل پر پتھر رکھ کراپنوں سے دور دیارغیر کا سفر اس سوچ اور نیت کیساتھ کرتا ہے کہ اب اس کے تمام تر دُکھ اور درد دور ہوجائیں گے اور وہ یکسوئی کے ساتھ سخت محنت کے بعد روٹی روزی کما کر مسرت و شادمانی حاصل کرلیتا ہے اور چشم تصور سے وہ اہل خانہ کی خوشحالی کو دیکھتے ہوئے تقویت حاصل کرکے قدرے اطمینان حاصل کرتا ہے کہ اس کی ذات سے اس کے گھر والے اب بتدریج رفتہ رفتہ آسودگی کی جانب مائل ہونے لگے ہیں اور وہ اپنی تمام تر تکالیف، پریشانیوں اور تردد کو پس پشت ڈال کر مزید تندہی کے ساتھ مشقت میں جت جاتا ہے۔
مگر جہاں انسان بہت سی معاشی بحرانوں سے خود کو نکال لیتا ہے وہیں اسے کچھ ایسے عوامل اور باتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو اس کے کرب میں اضافہ کرتے ہیں جن میں چند ایسی منفی باتیں، باہمی کدورتیں، نفرتیں حسد جیسے محرکات شامل ہیں جو کہ پردیس میں نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اُس کو بسا اوقات اس سے بھی نبردآزما ہونا پڑتا ہے اور ان تمام باتوں سے ایسا انسان جو ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہو وہ ذہنی تناؤ اور کم مائیگی کا شکار ہوجاتا ہے۔
راقم الحروف بھی گزشتہ چند سالوں سے سعودی عرب کی ایک مقامی کمپنی میں ملازمت کرکے اپنے اہل خانہ کی پرورش و پرداخت میں کردار ادا کررہا ہوں اور اس بات سے قدرے مطمئن ہوں کہ اگر وہ گھر سے دور ہے تو کیا ہوا گھر والے تو خوش حال ہیں، بس یہی سوچ کر تمام تر تھکاوٹ اور پریشانی کا احساس دل سے جاتا رہتا ہے۔ مگر ایک بات نے مجھے یہاں اپنے ابتدائی ایام سے ہی تکلیف اور تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ پردیس جہاں بسنے والے سارے پاکستانیوں کو ایک فیملی کی مانند ہونا چاہئے تھا وہاں یہ بات واضح طور پر نظر آرہی تھی کہ یہاں پر مقیم زیادہ تر پاکستانیوں کی اکثریت پاکستانی ہونے کے بجائے خود کو اپنے آبائی گاؤں، شہروں، صوبوں اور مختلف زبانوں کی بنیاد پر روشناس کرانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے تھے جس سے قومیتی و نسلی تعصب فروغ پا رہا تھا اور پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال بھی فاصلوں کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کررہی تھی۔
کیونکہ لوگوں میں سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی پسندیدگی اور ناپسندگی کا سلسلہ بھی اس ضمن میں منفی کردار ادا کررہا تھا اور الیکشن کے زمانے میں یہ زہر یہاں کے نفوس کے رگ و پے میں اس قدر سرائیت کر جاتا ہے کہ کہیں سے یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم سب ایک وطن میں رہنے والے ایک ملک کے باسی اور پاکستانی ہیں بس خود کو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور سامنے والے کو پست و نیچا ثابت کرکے فخر محسوس کیا جا رہا تھا۔ یہاں بسنے والے دیگر ممالک کے لوگ جن میں بھارت، بنگلہ دیش، فلپائن، مصر، یمن اور دیگر ممالک سے وابستہ افراد روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے، وہ سب ہماری ذہنی پسماندگی اور ابتر صورتحال دیکھ کر نہ صرف محظوظ ہورہے تھے بلکہ گاہے بگاہے وہ خود ہمیں اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ ''بھائی۔۔۔!! آپ لوگوں کی فطرت میں پہچان کا احساس اس قدر کیوں اتر گیا ہے''؟ وہ ہمیں بارہا ہے یہ بات بھی باور کراتے تھے کہ ''آپ پر قبضہ کرنے کے لئے کسی بھی دشمن کی ضرورت نہیں آپ لوگوں کے قلوب میں خود ہی ایک دوسرے کی نفرت اس قدر ہوگئی ہے کہ آپ کے ملک میں کسی مسلح مداخلت کی ضرورت نہیں''۔
یہ صورتحال محض صرف یہاں نہیں بلکہ میری معلومات اور تجزیے کے مطابق دنیا کے کسی بھی کونے میں چاہے وہ گلف ممالک ہوں یا یورپ کا کوئی ملک وہاں ہر جگہ پاکستانیوں کا یہی حال ہے، خود کو پاکستانی کہلانے کے بجائے اپنی زبان سے خود کو فوقیت دے کر افضل و اول ثابت کرنے کی حتی المقدور سعی کی جاتی ہے جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔
مجھے افسوس اس بات کا بھی بہت تھا کہ جب پاکستان کا کوئی بھی شہر لسانیت، فرقہ وارایت یا کسی بھی نوعیت کے جرائم یا قتل وغارت گری کا شکار ہوتا تو وہ اُس پر کف افسوس ملنے کے بجائے وہاں کے اپنے اُس ہم وطن دوست جو اُس وقت بد قسمتی سے ان کے ساتھ ملازمت کررہا ہو اور اس کا تعلق اسی شہر، اسی علاقے سے ہو تو پھر اس پر مسلسل طنز کے نشتر چبھو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی کہ مبادا یہ کام اس شخص نے یہاں پردیس میں بیٹھا از خود کروایا ہو۔ ایسا رویہ اپنے ہی ہم وطنوں کا مضحکہ خیز رویہ اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ دیگر ممالک کے باسی جو یہاں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے اُن میں اِس قسم کی تقسیم نظر نہیں آتی تھی وہ تمام لوگ بھی مختلف زبانوں اور صوبوں کے ہونے کے باوجود باہمی محبت، اخوت اورملنساری کا مثالی نمونہ نظر آتے تھے۔
بھارت اور بنگلہ دیش جو کہ ہر اعتبار سے تقریباً ہماری ہی طرح کے ممالک ہیں وہاں ہم سے زیادہ صوبے اور زبانیں بولی جاتی ہیں مگر یہاں رہنے والوں میں، میں نے کسی بھی قسم کی انفرادیت یا پہچان موجود نہیں دیکھی۔ وہ سب سے پہلے خود کو انڈین، بنگلہ دیشی کہلواتے تھے، وہ سب ایک ساتھ مل کر اور باہمی تعاون کا مظاہرہ کرکے اپنے ایک ہونے اور مضبوطی کا برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جو کہ ان کی یہ ایک اچھی روایت اور ایک خوش آئند بات بھی ہے۔
اِس لیے میں تمام ایسے ہم وطنوں سے جو پاکستان سے دور دیارِغیر میں روزگار کے سلسلے میں آباد ہوں وہ سب سے پہلے خود کو پاکستانی تصور کریں اور باقی لوگوں پر یہ آشکار کردیں کہ ہم سب ایک پرچم کے سائے تلے زندگی گزارنے والے محب وطن سچے پاکستانی ہیں تاکہ دوسرا کوئی ہم پر یہ کہہ کر کہ ''آپ پر قبضہ کرنے کے لئے کسی بھی دشمن کی ضرورت نہیں آپ لوگوں کے اندر توخود ہی ایک دوسرے کی نفرت کا اس قدر ہے کہ کسی مسلح مداخلت کی ضرورت نہیں'' انگلی اٹھانے کی جسارت نہ کرے۔ یاد رکھیں ہمیں خود کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لئے اپنے ذہن سے اس قسم کی تمام تر خرافات کو از خود باہر نکال پھینکنا ہوگا اور یہ بات ذہن میں ازبر کرلینی ہوگی کہ جو ہمارانام ہے وہی ہماری پہچان ہے اور ہمارا نام اور ہماری پہچان صرف اور صرف پاکستان ہے اور ہم نے ایسا نہیں کیا تو خدا نہ کرے ہماری اس کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر ہمارے دشمن ہمارے خلاف ہم پر غالب آکر مبادہ کوئی سنگین اقدام نہ اٹھا لیں۔
[poll id="459"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس