اقتصادی راہداری پر بھارتی اعتراضات

پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر بھارتی مخالفت کھل کر سامنے آ رہی ہے


Editorial June 03, 2015
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ خطے میں خوشحالی ‘ ترقی اور روز گار کے مواقعے ملیں گے، فوٹو:فائل

پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر بھارتی مخالفت کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ روزنئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس میں اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر اپنی وزارت کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کے سخت خلاف ہے اور وزیراعظم نریندر مودی جب گزشتہ ماہ چین کے دورے پر گئے تھے تو مذاکرات کے دوران انھوں نے اس منصوبے کی سخت مخالفت کی تھی۔

گزشتہ روز ہی پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان پر ردعمل میں کہا گیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ خطے میں خوشحالی ' ترقی اور روز گار کے مواقعے ملیں گے۔ پاکستان راہداری منصوبے پر عمل ہر صورت عمل کیا جائے گا۔پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ روز سانحہ مستونگ پر آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے کوئٹہ گئے ۔انھوں نے کانفرنس سے خطاب کے دوران واضح کیا کہ اقتصادی راہداری پر بھارتی بیانات ان کے عزائم کے عکاس ہیں' چین نے بھارتی اعتراضات کو مسترد کر دیا۔

پاک چین اقتصادی راہداری بنیادی طور پر اقتصادیات سے جڑا ہوا منصوبہ ہے۔ اگر یہ راہداری عملی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اس سے پاکستان اور چین کی معیشت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اس سے بھارت یا کسی اور ملک کو کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں ہونا چاہیے۔

جس طرح بھارت چین کے ساتھ تجارت کر رہا ہے 'اسی طرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بڑھائے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے نیوز کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب وزیراعظم نریندر مودی چین گئے تو انھوں نے چینی رہنماؤں سے سختی سے کہا کہ یہ جو آپ نے اقتصادی راہداری کی بات کی ہے اور اس میں بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جانے کی بات کی ہے'وہ ہمیں منظور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ راہداری کشمیر سے گزر ہی نہیں رہی 'اس کا روٹ گلگت بلتستان سے شروع ہوتا ہے'شاید بھارت مہاراجہ ہری سنگھ کے دور کے کشمیر کی بات کر رہا ہے حالانکہ آج صورت حال انتہائی مختلف ہے۔

گلگت بلتستان کشمیر سے الگ اکائی ہے۔بھارت کو کشمیر کا اتنا ہی خیال ہے تو اسے اس مسئلے کو حل کر لینا چاہیے تھا ۔آج بھی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ تشدد کسی قوم کے حق میں نہیں۔ اس کا بھارت کو اور نہ ہی پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان جمی برف توڑنے کے خواہشمند ہیں۔

مذاکرات ہی واحدراستہ ہے جس سے ڈیڈ لاک ختم ہو سکتا ہے۔ ایک جانب مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو دوسری جانب مذاکرات کو بے نتیجہ رکھنے کا سامان بھی تیار کر لیا جاتا ہے۔ بھارت امریکا کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں 'اب بھارتی وزیراعظم اسرائیل کا دورہ کرنے جا رہے ہیں' اگر بھارت یہ سب کچھ کرنے میں آزاد ہے تو پھر پاکستان کو بھی یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے اتحادی تلاش کرے اور ان کے ساتھ گہرے تجارتی اور دفاعی تعلقات قائم کرے۔ پاکستان اور چین کے مفادات کئی مقامات پر اکٹھے ہو جاتے ہیں ' بالکل اسی طرح جس طرح بھارت اور امریکا کے مفادات اکٹھے ہوتے ہیں۔ بھارتی پالیسی سازوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ تنازع کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت خود ہے۔

جہاں تک پاک چین اقتصادی راہداری کا تعلق ہے تو اس پر بھارت کو ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بھی اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں شامل ہو جائے۔ بھارت کی قیادت کو اس حقیقت کا بھی ادراک رہنا چاہیے کہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان بھارت کی بقاء اور سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔ جنوبی ایشیاء میں قیام امن کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کو وقت کی نزاکت کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ملک جنگ کر کے یا ہر ایشو پر ایک دوسرے کی مخالفت کر کے اپنے معاملات کو حل نہیں کر سکتے۔

باہمی تنازعات اگر ختم نہ ہوں تو یہ کسی وقت بھی لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی جنگیں اس کا ثبوت ہیں۔ آج کی دنیا اپنے اقتصادی معاملات کوسامنے رکھ کر پالیسی تشکیل دے رہی ہے۔ دنیا اقتصادی بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے۔ یورپی یونین اورخلیج تعاون کونسل اس کی مثال ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو بھی اپنی روایتی سوچ سے نکل کر نئے دور کی سوچ اپنانی چاہیے۔ اس طریقے سے ہی جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور یہ خطہ ترقی کر سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں