اصلی پیرنی

ہم ہر روز سیکڑوں واقعات سنتے اور پڑھتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں محکمے میں فلاں جگہ تعینات ہے



ہمارے معاشرے میں جہاں دھوکا دینے اور لُوٹنے والے جعلی پیروں کی بہتات ہے وہاں کسی اصلی پِیرکا ذِکر سُننے کو مل جائے تو بڑا روح افزا لگتا ہے۔ اور اگریہ پیر کے بجائے پیرنی ہو تو خوشگوار حیرت سے دل جھوم اٹھُتا ہے۔

ہم ہر روز سیکڑوں واقعات سنتے اور پڑھتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں محکمے میں فلاں جگہ تعینات ہے اور محکمے کو کھا رہا ہے، فلاں خاتون اس جگہ تعینات ہے اور مال بنارہی ہے۔ لیکن اگر آپ کے کان یہ بات سننے کو ترس گئے ہیں کہ فلاں سرکاری ملازم اپنے محکمے کو اپنے گھر سے زیادہ سنوار رہا ہے اور عوام کی خدمت کرکے اس کی عزت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے تو پھر سُنئے۔کہ ہماری خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں چھُپی ہوئی ہیں۔

کوٹ ھرا ضلع گوجرانوالہ کا ایک دُور افتادہ قصبہ ھے۔ جس کی حدیں حافظ آباد اور منڈی بہاؤ الدین کے اضلاع سے ملتی ہیں۔ قصبے کا اسپتال ( بنیادی مرکزِ صحت ) اکثر دیہاتی اسپتالوں کی طرح ایک ایسی اجاڑ اور سنسان جگہ کا منظر پیش کرتا تھا جو صرف چرسیوں، نشیوں اورآوارہ کتوں کا ڈیرہ ہوتا تھا۔ یہاں محکمہ صحت کا تعینات شدہ عملہ بھی آنے سے گریز کرتا تھا۔ اس لیے اس اسپتال میں مریضوں کے علاج معالجے کا کوئی تصور نہ تھا ۔

اِن بدترین حا لات میں اس اسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹرکو تعینات کیا گیا۔ اسپتال کی نئی سربراہ نے خود باقاعدگی کے ساتھ وقت پر آنا شروع کیا تو باقی عملہ بھی وقت پر آنے اور کام کرنے پر مجبور ہوگیا۔ پھر لیڈی ڈاکٹر نے اس اُجڑے ہوئے اسپتال کی صفائی کرا کے رنگ روغن کرایا،نئے لان بنواکر گھاس اور پھولدار پَودے لگوائے اور نہ صرف اسپتال کو ایک خوبصورت عمارت میں بدل ڈالا بلکہ اسے اپنے پیسوں سے لائی گئی ادویات اور ضروری طبّی آلات سے بھر دیا۔

جب عملے نے دور دراز (مانسہرہ )سے آئی ہوئی انچارج لیڈی ڈاکٹر کوثر آفتاب کو ایک مشنری جذبے سے کام کرتے دیکھا تو وہ بھی Motivateہوا اور اس میں بھی فرض شناسی اور انسان دوستی بیدار ہوئی۔ صرف یہی نہیں ڈاکٹر کوثر نے علاقے کے دیہاتوں میں خود جاجاکر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور انھیںاسپتال سے مفت علاج کرانے پر آمادہ کیا۔ علاقے کے لوگوں کا اسپتال پر اعتماد بحال ہوا اور مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔حتیٰ کہ اس زبردست منتظمہ کی وجہ سے حافظ آباد اور منڈی بہاؤ الدین کے قریبی اضلاع سے بھی مریض اسی اسپتال میں آنے لگے۔

ڈاکٹر کوثر نے ایک بہترین مُنتظم کی طرح ہر معاملے میں ڈسپلن اور میرٹ کا سختی سے نفاذ کیا اور اس معاملے میں کبھی کسیِ بڑے سے بڑے دباوُ کی پرواہ نہیں کی۔ آج علاقے کے عوام بھی اس فرشتہ صفت ڈاکٹر کے لیے رطب اللّسان ہیں اور بااثر بڑے بھی معترف ہیں کہ اسپتال کی انچارج چند ماہ میں انقلاب لے آئی ہے اور اس نے ایک بدترین مرکز صحت کو ضلع گوجرانوالہ کا بہترین دیہاتی اسپتال بنادیا ہے اوراب یہ ضلع بھر میں بہترین اسپتال کے ایوارڈ کا حقدار قرار پاتاہے۔ لیڈی ڈاکٹرکے جذبے ، صلاحیتوں اور خدمات کو دیکھ کر اس وقت کے انسان دوست ڈائریکٹر ہیلتھ نے بھی اسے بھرپور مدد اور معاونت فراہم کی۔

ڈاکٹر کوثر کے آنے سے پہلے مین روڈ سے اسپتال تک سڑک تو درکنار کچا راستہ بھی نہ تھا اور یہ حصہ نشیب میں ہونے کی وجہ سے بارشوں کے پانی اور کیچڑ سے بھرا رہتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے خود زمینداروں سے بار بار ملکر انھیں رستہ دینے پر آمادہ کرلیا۔ جب رستہ مل گیا تووہ حلقے کے ایم این اے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ سے ملیں جنہوں نے فوری طور پر ترقیاتی فنڈ سے سڑک بنوادی۔ گزشتہ دِنوں سڑک کے ا فتتاح کے سلسلے میں اسپتال میں ایک بڑی عوامی تقریب منعقد ہوئی جس میں درویش صفت ایم این اے نے اس سڑک کو ''ڈاکٹر کوثر روڈ''کا نام دینے کا اعلان کیا تو پورا پنڈال تالیوں سے گُونج اُٹھا۔ اس لیے کہ اب ڈاکٹر کوثر علاقے کے عوام کے لیے ایک مخلص ڈاکٹر نہیں ایک سچّی پیرنی کی حیثیت رکھتی ہیں جو ان کے دکھ درد میں شریک ہوتی ہیں اور اُن کا مداوا کرتی ہیں۔

وہ دیہاتوں میں جاکر مفت میڈیکل کیمپ لگاتی ہیں، لوگوں کے اجتماعا ت منعقد کرکے ان میںہیپا ٹائٹس، ٹی بی،ملیریا، ڈینگی اور پیچش سمیت مختلف بیماریوں اورطِبی مسائل کے بارے میں آگاہی اور شعور پیدا کرتی ہیں۔ انھیں حفاظتی ٹیکوں کی اہمیت سمجھاتی ہیں اور مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے طریقے بتاتی ہیں اور اُن کے شوہر کے بقول اکثر ساری تنخواہ غریب مریضوں پر ہی صرف کردیتی ہیں۔ علاقے کے لوگ ڈاکٹر کوثر کو اپنا حقیقی مسیحا سمجھتے ہیں اورپِیروں کی طرح احترام کرتے ہیں۔ آج اس علاقے میں عوام کی نظروں میں سب سے مُحترم شخصیت ایک لیڈی ڈاکٹر کی ہے جِس کا تعلق نہ اس ضلع سے اور نہ ہی اِس صو بے سے ہے۔ بِلاشبہ ڈاکٹر کوثر آفتاب نے اپنی فرض شناسی اور خدمت ِ خلق کی وجہ سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیاہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈاکٹر صاحبہ آپ کو ان غیر معمولی خدمات کے عوض حکومت کی طرف سے بھی کوئی میڈل یا ایوارڈ ملا ہے؟ تو ڈاکٹر کوثر نے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ" لوگوں کے دلوں سے نکلنے والی دُعائیں ہی میرے لیے سب سے قیمتی میڈل اور ایوارڈ ہیں"۔ اﷲ تعالیٰ اس قوم کو اسی طرح کے چند اور اصلی پیر اور پیرنیاں عطا کردے۔

سانحہڈسکہ

پورا معاشرہ تحملّ اور برداشت سے عاری ہے۔ پولیس کی ٹریننگ انتہائی ناقص ہے۔ ریاست کمزور ہوئی ہے اور وکلاء قانون کے تحفظ کے بجائے قانون شکنی کے راستے پر گامزن ہیں ۔

ڈسکہ میں دو وکلاء کی ہلاکت کا سانحہ انتہائی افسوسناک ہے۔ غیر جانبدار ذرایع بتاتے ہیں کہ پولیس اسٹیشن کے سامنے وکلاء نے باوردی ایس ایچ او کو اس کے ماتحتوں کے سامنے گالیاں دیں ، تو وہ حواس پر قابو نہ رکھ سکا اور فائرنگ کردی جس سے دو وکلاء صاحبان جاںبحق ہوگئے۔ ہمارے معاشرے میں گالی پر مشتعل ہوکر قتل کرنے کے سیکڑوں واقعات ہیں، 80فیصد لوگوں کا رَدِّعمل اس سے مختلف نہ ہوتا مگر پولیس انسپکٹر کا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ ایک تربیّت یافتہ پروفیشنل افسر تھا۔

ٹریننگ ہجوم کو ڈسپلنڈ فورس میں تبدیل کرتی ہے، حواس اور جذبات پر قابو رکھنا سکھاتی اور حوصلہ ، تحمل اور برداشت پیدا کرتی ہے۔ اس سانحے کے بعد نوجوان وکیلوں کے گروہ مختلف شہروں میں توڑ پھوڑ ، ماردھاڑ اور قانون شکنی کے مظاہرے کرتے اور اپنے پیشے کی بدنامی کا باعث بنتے رہے۔کالا کوٹ قانون کے تحفظ کے بجائے قانون شِکنی کی علامت بن گیا جو بہت افسوسناک ہے۔ سینئر وکلاء کو چاہیے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کریں اور نوجوان وکیلوں کے غیر قانونی اور غیرمہذّب طرزِعمل کو روکیں۔

صوبائی حکومت نے اس موقع پر بھی کمزوری اور پسپائی دکھائی اور اسکرین پر چلنے والے ٹیکر اور سڑک پر نکلنے والے جلوس کے سامنے سرنڈر کرنے کی روایت برقرار رکھی۔ ڈی پی او اور اے سی کا تبادلہ غیر ضروری تھا۔ ریاست کی کمزوری سے قانون شکنوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بددل ہوتے ہیں۔

معاشرے میں عدم برداشت ،جارحیت اور تشدّد کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے رجحان پر سنجیدہ گفتگو کرنے کے لیے نہ حکوت تیار ہے اور نہ میڈیا۔ ناچیز کے خیال میں عام آدمی کے ساتھ ہر جگہ۔ تھانوں، کچہریوں اور سرکاری دفتروں میں جو توہین آمیز سلوک ہوتا ہے جس طرح اس کی عزّتِ نفس مجروح ہوتی ہے اور اسے اپنے جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اس توہین اور محرومی نے اس کے اندرجارحیت اور تشدّد کو جنم دیا ہے۔ انصاف دینے والے ادارے انصاف فراہم کرنے میں ناکامی کے باعث عوام کا اعتماد کھو چُکے ہیں۔ اﷲ سُبحان تعالیٰ اور نبِی کریمؐ کی تعلیمات سے دوری اور بیگانگی نے معاشرے کو صبراور برداشت سے محروم کردیا ہے۔ مغربی ممالک میں لوگوں کا رویّہ مہذب اس لیے ہے کہ وہاں عوام کی توہین نہیں ہوتی اور سرکاری اداروں سے انھیں عزت اور حقوق دستیاب ہیں ۔

کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ٹریننگ کی بہتر ی کی جانب پولیس کی سینئر کمانڈ کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ پولیس کالج سہالہ کے بارے میں قائم کی گئی انکوائری کمیٹی نے مشکُوک کردار کے کمانڈنٹ کو ہٹانے کی سفارش کی مگر اس پر عمل نہ کیا گیا۔ بپھرے ہوئے ہجوم سے نمٹنا ( Riot Control) پولیس ٹریننگ کا کمزور ترین پہلو ہے۔ حکومت پولیس کی ٹریننگ کو ترجیحِ اوّل بنائے اورفوری طور پر تربیّتی اداروں میں اعلٰی کردار کے افسر تعینات کرے۔

وکلاء کالے کوٹ کا تقدّس بحال کرنے کے لیے ذمے دارانہ رویّہ اختیار کریں وکلاء کے لیے بھی ٹریننگ اکیڈیمیاں قائم کی جائیں اور و کالت شروع کرنے سے پہلے اِن کی تین مہینے کی لازمی ٹریننگ ہو جہاں انھیں Professional ethics سکھائے جائیں۔اگر پولیس اور وکلاء کی قیادت اپنی ذمے داریوں کا احساس کرے اور میڈیا بھی فیصلہ کرے کہ وہ مائیک سے ماچس کا نہیں مشکیزے کا کام لے گا تو یہ سانحہ اصلاحِ احوال کی جانب ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں