راکھ ابھی گرم ہے
بھارتی پنجاب،میں علیحدگی پسند سکھوں کے خلاف اس خُونی حملے کو بھارتی فوج نے ’’آپریشن بلیو اسٹار‘‘ کا عنوان دیا تھا
تپتے اور دہکتے ہوئے جون کے پہلے ہفتے کے یہی دن تھے جب ایک مظلوم و محروم اقلیتی کمیونٹی کے ایک اولوالعزم شخص نے اپنی قوم کی پامال شدہ حُرمت کی بحالی کے لیے زندگی کی آخری جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی جدوجہد کی باز گشت بھارت سے لے کر برطانیہ، امریکا اور کینیڈا تک سنائی دے رہی تھی۔ وہ دن بھارتی تاریخ کے سب سے مشکل ایام تھے۔ اکتیس برس قبل جون کے پہلے ہفتے بھارتی پنجاب میں بھارتی افواج نے سکھ نوجوانوں، عورتوں، بزرگوں اور بچوں کے خون کی ندیاں بہا دیں۔ سکھوں کا وہ مقدس مقام، گولڈن ٹیمپل، جہاں کوئی جوتا لے کر بھی اندر جانے کی جسارت نہیں کرسکتا، بھارتی فوجی بوٹوں اور ٹینکوں کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوگئے۔ پانچ روز تک گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کی جاتی رہی۔
بھارتی پنجاب،میں علیحدگی پسند سکھوں کے خلاف اس خُونی حملے کو بھارتی فوج نے ''آپریشن بلیو اسٹار'' کا عنوان دیا تھا۔ اس کا آغاز تو اکتوبر 1983ء کے دنوں ہی میں ہوگیا تھا لیکن سکھوں کے خلاف بھارتی ہندو فوج کے غصے اور نفرت، جس نے آتش و آہن کی شکل اختیار کر لی تھی، کا عملی اور باقاعدہ اظہار 3جون 1984ء کو ہوا۔ بھارت کے خلاف مشرقی پنجاب کے ناراض سکھوں کی قیادت نوجوان سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کر رہے تھے۔
بھارتی ہندو حکمران طبقے کی سکھوں سے مسلسل زیادتیوں اور غاصبانہ ہتھکنڈوں کے خلاف بھنڈرانوالہ اس قدر طیش میں تھے کہ وہ وزیراعظم اندرا گاندھی کا نام لینے کے بجائے انھیں ''کراڑ دی کُڑی'' کہہ کر پکارتے۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ، جو اپنی عملی زندگی کے آغاز میں محض ایک مقامی مذہبی شخصیت تھے، دراصل بھارتی پنجاب کے محروم اور تعلیم یافتہ مگر بے روزگار اور زیرِ عتاب سکھ نوجوانوں کے ابلتے ہوئے جذبات کی متفقہ آواز بن گئے تھے۔
ان کا علیحدگی پسندی کی طرف ناقابلِ واپسی رُخ اختیار کر جانا دراصل اس امر کا بھی اظہار تھا کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندوؤں کو بھارت مل گیا، مسلمانوں کے حصے میں پاکستان آگیا مگر سکھوں کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے حالانکہ تقسیم ہند کے وقت سکھ قیادت کو ہندوؤں کے خبثِ باطن سے آگاہ بھی کیا تھا لیکن اس وقت سکھ قیادت (مثلاً تارا سنگھ) ہندوؤں کے کندھوں پر سوار ہوکر غفلت کا اظہار کررہی تھی۔
اپنے لاتعداد ساتھیوں کے ساتھ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا ''خالصتان'' کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کرنا دراصل اسی تاریخی محرومی کے خاتمے کا اظہار تھا۔ پاکستان کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ بھنڈرانوالہ اور ان کے حریت پسند ساتھیوں کی اعانت کرکے بھارت سے اس ظلم اور زیادتی کا بدلہ لیتا جب اس نے 1971ء میںپاکستان کو دولخت کرایا تھا۔ہماری قیادت نے مگر یہ شاندارموقع ضایع کردیا۔ اگر پاکستان جرأت و ہمت سے ''خالصتان'' کے لیے جان دینے والے بھنڈرانوالہ اور ان کے جاںنثاروں کا ہاتھ تھام لیتا تو آج بھارت کو پاکستان، خصوصاً بلوچستان میں مداخلت کرنے کا موقع نہ مل رہا ہوتا اور نہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت آج بھارت سے یہ گلے شکوے کررہی ہوتی کہ ''را'' پاکستان میں مداخلت کررہی ہے۔
جس وقت چار سو سال سے زائد قدیم سکھوں کے مقدس ترین مقام ''گولڈن ٹیمپل'' پر بھارتی افواج نے یلغار کی، اس وقت بھارت کا صدر ایک سکھ تھا:گیانی ذیل سنگھ۔ ہندو وزیراعظم اندرا گاندھی نے مگر اس کی قطعی پروا نہ کی۔ (یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندرا نے اپنے سِکھ صدر کو آپریشن بلیو اسٹار کے دوران گولڈن ٹیمپل کے اندر ٹینک اور فوج داخل کرنے کے بارے میں راز دار نہیں بنایا تھا۔ جب ترلوچن نامی افسر نے صدر ذیل سنگھ کو بتایا کہ فوج بوٹوں اور ٹینکوں سمیت گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوگئی ہے تو وہ ششدر رہ گئے۔
اندرا گاندھی کے فریب پر حیرت زدہ! بھارتی ہندو حکمران اب بھی اپنی سکھ کمیونٹی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ یکم جون 2015ء کو خبر آئی ہے کہ دہلی نے بھارتی پنجاب پر نظر رکھنے کے لیے 45کروڑ روپے کے جاسوسی آلات خریدے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے معروف سیاستدان پرتاپ سنگھ باجوہ نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آلات سکھ نوجوانوں اور سکھ گوردواروں کی جاسوسی کے لیے خریدے گئے ہیں) لیکن اندرا نے ایک اور کھیل کھیلا تاکہ آنے والے دنوں میں انگلی بھی اٹھے تو سکھ فوجیوں اور افسروں کی جانب اٹھے۔ مسز اندرا گاندھی کے حکم سے بھارتی افواج کے سربراہ جنرل کرشنا سوامی سندر جی نے ''آپریشن بلیو اسٹار'' کی قیادت دو سکھ فوجی افسروں کو سونپی۔ ان میں ایک کا نام بریگیڈئیر کلدیپ سنگھ براڑ اور دوسرے کا نام لیفٹیننٹ جنرل رنجیت سنگھ دیال تھا۔
حملے میں شامل سکھ فوجی گولڈن ٹیمپل یا ہرمندر صاحب کی بے حرمتی کرنے اور اسے آگ و خون کا غسل دینے کے لیے ٹینکوں پر چڑھ کر اندر داخل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن بھارتی آرمی چیف کے خصوصی حکم سے درجنوں ٹینک اندر داخل ہوگئے۔ کئی دن تک گولڈن ٹیمپل آگ، گندھک کے زہرآلود دھوئیں اور خون میں نہاتا رہا۔ تین جون سے آٹھ جون 1984ء تک! ایک محتاط اندازے کے مطابق، بھنڈرانوالہ سمیت آٹھ ہزار سکھوں کو اڑا دیا گیا۔ جنرل رنجیت سنگھ دیال نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ 45دنوں تک گولڈن ٹیمپل کے اندر مقتول سکھوں کی بدبُو سے ابکائیاں آتی رہیں۔ ایسی رپورٹیں بھی آئیں جن میں بتایا گیا تھا کہ سیکڑوں مسلح سکھوں کو ان کی اپنی پگڑیوں سے ہاتھ کمر پر باندھ کر آنکھوں اور دلوں پر قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں۔ سکھوں کی مقدس کتاب ''گرنتھ صاحب'' بھی خاکسترکردی گئی۔
خالصتانیوں اور بھنڈرانوالہ کے بہیمانہ قتل کے نتیجے میں اندرا گاندھی کو اپنے دوسکھ محافظوں کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہونا پڑا۔ اندرا کے قتل کے بعد دہلی سمیت بھارت کے ہر بڑے شہر میں ایک بار پھر لاتعداد بے گناہ اور نہتے سکھوں کا جس بے دردی سے ہندوؤں نے قتلِ عام کیا، اس نے ایک بار پھر سکھوں، خصوصاً بھارتی پنجاب کے سکھوں کو باور کرادیا کہ ان کے لیے اپنے علیحدہ وطن کا حصول کس قدر ضروری ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں بھنڈرانوالہ کے قتل اور گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کے بعد بھارتی پنجاب کے تین لاکھ سکھ نوجوانوں کو قیدوبند کی اعصاب شکن سختیوں سے گزرنا پڑا۔ اگر ہم بالی وڈ کی فلم ''ماچس'' دیکھیں یا Beyond The Lines اور One Life is Not Enough نامی کتابیں، جن کے مصنفین بھارتی ہندو ہیں، کا مطالعہ کریں تو سمجھ آتی ہے کہ اندرا گاندھی آخر کیوں خالصتانیوں کا خون بہانے پر تُل گئی تھیں۔
اس خونی سانحہ، جس نے دنیا بھر کے سکھوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے بھارت کے خلاف نفرت و عدات بھردی، سے بچا جاسکتا تھا مگر بھارتی ہندو اسٹیبلشمنٹ سکھوں کا ''بیج'' مارنے پر کئی برسوں سے خود کو ذہنی طور پر تیار کرچکی تھی۔ گذشتہ 31برس سے بھارتی پنجاب اور دنیا بھر میں رہنے والی سکھ کمیونٹی جون کا پہلا ہفتہ طلوع ہوتے ہی قتل کیے جانے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے جانباز خالصتانیوں کی یاد میں گھروں اور اپنے دلوں میں غم و افسوس کے دیپ روشن کرتے ہیں اور اس آس میں جیئے جارہے ہیں کہ ان کے اپنے وطن (خالصتان) کا روشن ستارہ کب طلوع ہوگا۔ دلی سے نجات حاصل کرنے کی آرزو کی آگ ابھی بجھی نہیں۔ اسے وقتی طور پر راکھ بنادیا گیا تھا۔ یہ راکھ مگر اب بھی بہت گرم ہے۔ کسی بھی وقت یہ شعلۂ جوالہ بن سکتی ہے!!
بھارتی پنجاب،میں علیحدگی پسند سکھوں کے خلاف اس خُونی حملے کو بھارتی فوج نے ''آپریشن بلیو اسٹار'' کا عنوان دیا تھا۔ اس کا آغاز تو اکتوبر 1983ء کے دنوں ہی میں ہوگیا تھا لیکن سکھوں کے خلاف بھارتی ہندو فوج کے غصے اور نفرت، جس نے آتش و آہن کی شکل اختیار کر لی تھی، کا عملی اور باقاعدہ اظہار 3جون 1984ء کو ہوا۔ بھارت کے خلاف مشرقی پنجاب کے ناراض سکھوں کی قیادت نوجوان سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کر رہے تھے۔
بھارتی ہندو حکمران طبقے کی سکھوں سے مسلسل زیادتیوں اور غاصبانہ ہتھکنڈوں کے خلاف بھنڈرانوالہ اس قدر طیش میں تھے کہ وہ وزیراعظم اندرا گاندھی کا نام لینے کے بجائے انھیں ''کراڑ دی کُڑی'' کہہ کر پکارتے۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ، جو اپنی عملی زندگی کے آغاز میں محض ایک مقامی مذہبی شخصیت تھے، دراصل بھارتی پنجاب کے محروم اور تعلیم یافتہ مگر بے روزگار اور زیرِ عتاب سکھ نوجوانوں کے ابلتے ہوئے جذبات کی متفقہ آواز بن گئے تھے۔
ان کا علیحدگی پسندی کی طرف ناقابلِ واپسی رُخ اختیار کر جانا دراصل اس امر کا بھی اظہار تھا کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندوؤں کو بھارت مل گیا، مسلمانوں کے حصے میں پاکستان آگیا مگر سکھوں کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے حالانکہ تقسیم ہند کے وقت سکھ قیادت کو ہندوؤں کے خبثِ باطن سے آگاہ بھی کیا تھا لیکن اس وقت سکھ قیادت (مثلاً تارا سنگھ) ہندوؤں کے کندھوں پر سوار ہوکر غفلت کا اظہار کررہی تھی۔
اپنے لاتعداد ساتھیوں کے ساتھ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا ''خالصتان'' کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کرنا دراصل اسی تاریخی محرومی کے خاتمے کا اظہار تھا۔ پاکستان کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ بھنڈرانوالہ اور ان کے حریت پسند ساتھیوں کی اعانت کرکے بھارت سے اس ظلم اور زیادتی کا بدلہ لیتا جب اس نے 1971ء میںپاکستان کو دولخت کرایا تھا۔ہماری قیادت نے مگر یہ شاندارموقع ضایع کردیا۔ اگر پاکستان جرأت و ہمت سے ''خالصتان'' کے لیے جان دینے والے بھنڈرانوالہ اور ان کے جاںنثاروں کا ہاتھ تھام لیتا تو آج بھارت کو پاکستان، خصوصاً بلوچستان میں مداخلت کرنے کا موقع نہ مل رہا ہوتا اور نہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت آج بھارت سے یہ گلے شکوے کررہی ہوتی کہ ''را'' پاکستان میں مداخلت کررہی ہے۔
جس وقت چار سو سال سے زائد قدیم سکھوں کے مقدس ترین مقام ''گولڈن ٹیمپل'' پر بھارتی افواج نے یلغار کی، اس وقت بھارت کا صدر ایک سکھ تھا:گیانی ذیل سنگھ۔ ہندو وزیراعظم اندرا گاندھی نے مگر اس کی قطعی پروا نہ کی۔ (یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندرا نے اپنے سِکھ صدر کو آپریشن بلیو اسٹار کے دوران گولڈن ٹیمپل کے اندر ٹینک اور فوج داخل کرنے کے بارے میں راز دار نہیں بنایا تھا۔ جب ترلوچن نامی افسر نے صدر ذیل سنگھ کو بتایا کہ فوج بوٹوں اور ٹینکوں سمیت گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوگئی ہے تو وہ ششدر رہ گئے۔
اندرا گاندھی کے فریب پر حیرت زدہ! بھارتی ہندو حکمران اب بھی اپنی سکھ کمیونٹی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ یکم جون 2015ء کو خبر آئی ہے کہ دہلی نے بھارتی پنجاب پر نظر رکھنے کے لیے 45کروڑ روپے کے جاسوسی آلات خریدے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے معروف سیاستدان پرتاپ سنگھ باجوہ نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آلات سکھ نوجوانوں اور سکھ گوردواروں کی جاسوسی کے لیے خریدے گئے ہیں) لیکن اندرا نے ایک اور کھیل کھیلا تاکہ آنے والے دنوں میں انگلی بھی اٹھے تو سکھ فوجیوں اور افسروں کی جانب اٹھے۔ مسز اندرا گاندھی کے حکم سے بھارتی افواج کے سربراہ جنرل کرشنا سوامی سندر جی نے ''آپریشن بلیو اسٹار'' کی قیادت دو سکھ فوجی افسروں کو سونپی۔ ان میں ایک کا نام بریگیڈئیر کلدیپ سنگھ براڑ اور دوسرے کا نام لیفٹیننٹ جنرل رنجیت سنگھ دیال تھا۔
حملے میں شامل سکھ فوجی گولڈن ٹیمپل یا ہرمندر صاحب کی بے حرمتی کرنے اور اسے آگ و خون کا غسل دینے کے لیے ٹینکوں پر چڑھ کر اندر داخل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن بھارتی آرمی چیف کے خصوصی حکم سے درجنوں ٹینک اندر داخل ہوگئے۔ کئی دن تک گولڈن ٹیمپل آگ، گندھک کے زہرآلود دھوئیں اور خون میں نہاتا رہا۔ تین جون سے آٹھ جون 1984ء تک! ایک محتاط اندازے کے مطابق، بھنڈرانوالہ سمیت آٹھ ہزار سکھوں کو اڑا دیا گیا۔ جنرل رنجیت سنگھ دیال نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ 45دنوں تک گولڈن ٹیمپل کے اندر مقتول سکھوں کی بدبُو سے ابکائیاں آتی رہیں۔ ایسی رپورٹیں بھی آئیں جن میں بتایا گیا تھا کہ سیکڑوں مسلح سکھوں کو ان کی اپنی پگڑیوں سے ہاتھ کمر پر باندھ کر آنکھوں اور دلوں پر قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں۔ سکھوں کی مقدس کتاب ''گرنتھ صاحب'' بھی خاکسترکردی گئی۔
خالصتانیوں اور بھنڈرانوالہ کے بہیمانہ قتل کے نتیجے میں اندرا گاندھی کو اپنے دوسکھ محافظوں کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہونا پڑا۔ اندرا کے قتل کے بعد دہلی سمیت بھارت کے ہر بڑے شہر میں ایک بار پھر لاتعداد بے گناہ اور نہتے سکھوں کا جس بے دردی سے ہندوؤں نے قتلِ عام کیا، اس نے ایک بار پھر سکھوں، خصوصاً بھارتی پنجاب کے سکھوں کو باور کرادیا کہ ان کے لیے اپنے علیحدہ وطن کا حصول کس قدر ضروری ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں بھنڈرانوالہ کے قتل اور گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کے بعد بھارتی پنجاب کے تین لاکھ سکھ نوجوانوں کو قیدوبند کی اعصاب شکن سختیوں سے گزرنا پڑا۔ اگر ہم بالی وڈ کی فلم ''ماچس'' دیکھیں یا Beyond The Lines اور One Life is Not Enough نامی کتابیں، جن کے مصنفین بھارتی ہندو ہیں، کا مطالعہ کریں تو سمجھ آتی ہے کہ اندرا گاندھی آخر کیوں خالصتانیوں کا خون بہانے پر تُل گئی تھیں۔
اس خونی سانحہ، جس نے دنیا بھر کے سکھوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے بھارت کے خلاف نفرت و عدات بھردی، سے بچا جاسکتا تھا مگر بھارتی ہندو اسٹیبلشمنٹ سکھوں کا ''بیج'' مارنے پر کئی برسوں سے خود کو ذہنی طور پر تیار کرچکی تھی۔ گذشتہ 31برس سے بھارتی پنجاب اور دنیا بھر میں رہنے والی سکھ کمیونٹی جون کا پہلا ہفتہ طلوع ہوتے ہی قتل کیے جانے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے جانباز خالصتانیوں کی یاد میں گھروں اور اپنے دلوں میں غم و افسوس کے دیپ روشن کرتے ہیں اور اس آس میں جیئے جارہے ہیں کہ ان کے اپنے وطن (خالصتان) کا روشن ستارہ کب طلوع ہوگا۔ دلی سے نجات حاصل کرنے کی آرزو کی آگ ابھی بجھی نہیں۔ اسے وقتی طور پر راکھ بنادیا گیا تھا۔ یہ راکھ مگر اب بھی بہت گرم ہے۔ کسی بھی وقت یہ شعلۂ جوالہ بن سکتی ہے!!