پاکستان سب کے لیے
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے اپنی کتاب کا عنوان ’’پاکستان سب کے لیے‘‘ رکھا ہے
ISLAMABAD:
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے اپنی کتاب کا عنوان ''پاکستان سب کے لیے'' رکھا ہے لیکن اس کا عنوان ''یہ کتاب سب کے لیے'' ہونا چاہیے تھا وہ کہتے ہیں ''اﷲ کے فضل سے پاکستان میں سب کچھ ہے۔ لہلہاتی فصلیں، سرسبز کھیت، دل فریب و دل پذیر نظارے، فلک بوس چوٹیاں، پرکشش وادیاں، برف پوش پہاڑیاں، گنگناتی ندیاں، گیت گاتے آبشار، صحت افزا مقامات، قیمتی معدنیات، جواہرات، سوئی گیس، ٹھاٹھیں مارتا سمندر، رواں دواں دریا، مسکراتی فضائیں، آزاد ہوائیں، مسرت خرام بہاریں، نکھرتی چاندنی، مجاہدین کا بانکپن، گلوں کا حسین پیرہن، حقیقتوں کی نغمگی، درختوں کی شگفتگی، جذبہ زندگی، تابندگی حق بندگی، پرلطف شب تاریک، صبح روشن۔''
ایک طرف یہ سب جسے ڈاکٹر ہارون اپنے وطن کی مانگ کا سندور کہتے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں۔ ہم میں لاکھوں خرابیاں ہیں، ہم کاہل اور غافل ہیں، ہم اسلامی اقدار حیات پر عمل نہیں کرتے، ہم (اہل پاکستان) میں فرقہ واریت کا زہر سرایت کر گیا ہے، ملک بھر میں دہشت گردی ہے، بسوں میں بم دھماکے اور بینکوں پر حملے ہیں، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، پولیس اور فوج پر حملے، سیاسی و سماجی شخصیات کا قتل، ڈکیتیاں اور لاقانونیت ہے، ملک کی دولت چند خاندانوں کی لونڈی بن گئی ہے، یہی خاندان آج تک کسی نہ کسی طرح حکمران ہیں، غریب پس کر رہ گیا ہے۔
مہنگائی نے اس کی کمر توڑ دی ہے، انگریزی میڈیم اور اردو میڈیم کے تضادات نے نظام تعلیم کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، ڈگریوں کی لوٹ سیل ہے، اسمبلیوں کے ممبروں کی جعلی ڈگریوں نے عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچایا ہے، پولیس کو حکومت اپنے اشاروں پر رکھتی ہے، یہ حسن اخلاق سے محروم اور ظلم و تشدد کی مثال بن گئی ہے، ہماری عام اخلاقی حالت کا بھی یہی حال ہے، ڈاکٹر کو گوالے سے شکوہ ہے کہ پانی ملا دودھ ہے، گوالے کو ڈاکٹر سے گلہ ہے کہ اس نے دو نمبر کی دوا دی ہے، لوگ واجبات ادا نہیں کرتے بجلی چوری کرتے ہیں۔
ٹیکس ادا کرنا جرم اور غلطی سمجھتے ہیں، اس کی کچھ وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ٹیکس ستان بن چکا ہے، واٹر ٹیکس، ہاؤس ٹیکس، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، وہیکل ٹیکس، ایکسائز ٹیکس، ٹیلی فون ٹیکس، سوئی گیس ٹیکس، بجلی ٹیکس، پیداواری ٹیکس، کار ٹیکس، ڈرائیونگ ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، موبائل ٹیکس، موبائل بیلنس ٹیکس، سیلز ٹیکس، تہہ بازاری ٹیکس، گروتھ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور نجانے کتنے اور ٹیکس۔ پھر سب سے بڑا جگا ٹیکس ہے جو ان ٹیکسوں پر حاوی ہے، لائسنس اور ٹیکس کا چولی دامن کا ساتھ ہے، چنانچہ ڈرائیونگ لائسنس، اسلحہ لائسنس، ٹی وی اور ریڈیو لائسنس، پروفیشنل لائسنس، تانگہ لائسنس، مختصر یہ کہ جو ٹیکس سے بچ گیا وہ لائسنس میں اٹک گیا اور جو ان دونوں کی زد سے باہر رہا وہ کسی فیس میں آ پھنسا، اس پوری صورت حال کی وجہ سے کرپشن ایک عادت بن گئی ہے ہم ذہنی طور پر کرپٹ ہو چکے ہیں، ہمارا ضمیر مردہ ہو گیا ہے، ہم بے حس ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''فطرت قوموں کی اجتماعی غلطیاں معاف نہیں کرتی، ہم نے اجتماعی جدوجہد سے یہ ملک حاصل کیا تھا اور پھر انفرادی اور اجتماعی رویوں سے اسے بگاڑنے کا فریضہ ادا کر دیا۔''
ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کی موجودہ صورت حال پر دکھ کا اظہار کیا ہے، اپنی اس کتاب میں انھوں نے نہ صرف ان باتوں کا جائزہ لیا ہے جو پاکستان میں بگاڑ کا سبب بنی ہیں اور ان کی وجوہ تلاش کی ہیں بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ حالات کو سدھارنے کے لیے اب کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی نظر میں تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ نظام تعلیم کو نظریہ پاکستان سے مربوط کرنا سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے وہ لکھتے ہیں:
''نظریہ پاکستان مملکت کے معاشرتی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، مذہبی، معاشی، روحانی اور تہذیبی مقاصد کی تکمیل کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مفکر پاکستان علامہ اقبال ایسے تعلیمی نظام کے متمنی تھے جو زندگی کے تقاضوں کے عین مطابق ہو، جو مذہب کے زیر اثر ہو، علامہ اقبال کو اس وقت بہت دکھ ہوا تھا جب انھوں نے دیکھا کہ اسلامی کتب جنھیں مسلمانوں کے پاس ہونا چاہیے تھا، یورپ کی لائبریریوں میں ہیں اور ان سے مسلمانوں کی بجائے غیر مسلم استفادہ کر رہے ہیں۔ اس لیے علامہ اقبال نے کہا کہ ہمیں ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو پہلے ایک سچا مسلمان بنائے اور پھر سچا محب وطن بننے کی طرف راغب کرے۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید نے اس بات پر زور دیا ہے کہ چونکہ نظام تعلیم کسی معاشرے کے استحکام کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لیے سب سے پہلے پاکستان میں اس پر توجہ دینا چاہیے تھا، یوں بھی جو قوم تعلیم کی نعمت سے مالا مال ہوتی ہے وہ ترقی کے منازل آسانی سے طے کر لیتی ہے، پاکستان کو وجود میں آئے نصف صدی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے لیکن اب تک یہاں خواندگی کی شرح بہت کم ہے، اگر کوئی اضافہ بھی ہو رہا ہے تو آبادی کے بڑھنے سے اس کی نفی ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر تبسم لکھتے ہیں کہ کئی حکومتوں نے نصاب تعلیم میں کچھ تبدیلیاں پیدا کر کے خوشگوار تبدیلی کی طرف اقدامات کرنے کی ابتدا کی لیکن مکمل کامیابی حاصل نہ ہو سکی، اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ ہمارے بالغ ان پڑھ علم جیسی دولت کی قدر و قیمت سے تا حال واقف نہیں۔ شناختی کارڈ کا حصول اگر لازمی ہے تو دستخط کرنا لازمی کیوں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی اصلاحات کے نفاذ سے ہم علم اور تعلیم کے کچھ تقاضے تو پورے کر سکتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اہل پاکستان دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو ان کو علم حاصل کرنا ہو گا اور لوگوں کو علم سکھانے کے لیے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا ہو گا۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے اپنی اس کتاب میں جن دوسرے موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے، ان میں اعلیٰ ثانوی سائنسی تعلیم کے مسائل اور ان کا حل، تعلیمی ارتقا کے لیے سفارشات، معلم کی معاشرے میں حیثیت، ان کے معاشی مسائل، اعلیٰ تعلیم میں تدریسی حکمت عملی، نظام تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیاں، نصاب سازی اور نظام امتحانات شامل ہیں۔
کتاب کے آخری حصے میں انھوں نے پاکستان کے بارے میں معروضی سوالات کا جواب دیا ہے، اس سے کتاب کی افادیت بڑھ جاتی ہے اور یوں 'پاکستان سب کے لیے' ہر گھر کی ضرورت بن جاتی ہے۔