سماجی خلیج کیسے بڑھی
اب حالات یہ ہیں کہ دنیا میں اتنے ایٹم بم موجود ہیں جن کے ذریعے اس کرۂ ارض کو 300 بار تباہ کیا جا سکتا ہے
جب سماج طبقات میں بٹ گیا، تب سماجی خلیج بڑھتی گئی۔ سازشیوں نے خلیج کو جائز قرار دینے کے لیے آئین اور قانون نافذ کیا۔ جو صرف پیداواری قوتوں، شہریوں اور محنت کشوں پر لاگو ہوا اور دوسری جانب صاحب جائیداد طبقات کو دولت بٹورنے اور عیاشیاں کرنے کی آزادی مل گئی۔
ریاست وجود میں آنے سے قبل یہ طبقاتی تقسیم نہیں تھی۔ سب مل کر رہتے تھے اور مل کر غذا حاصل کرتے تھے۔ کسی کی بھی نجی ملکیت نہیں تھی۔ جنگلات اور آبی وسائل کی بھرمار تھی، ماحول جنت نظیر تھا۔ آلودگی، حسد، مسابقت کا وجود نہ تھا۔ معدنیات ابھی دریافت نہیں ہوئی تھیں۔ پتھر، ہڈی اور لکڑی کو ہی اوزار اور ضروریات زندگی کے لیے کام میں لایا جاتا تھا۔ بقول روسو کے ''وحشی معصوم انسان'' ہوا کرتے تھے۔
اب حالات یہ ہیں کہ دنیا میں اتنے ایٹم بم موجود ہیں جن کے ذریعے اس کرۂ ارض کو 300 بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ تفریق پاکستان میں بھی کم نہیں۔ اراکین قومی اسمبلی کے علاج پر گزشتہ برس 48 کروڑ روپے خرچ ہوئے جب کہ یہ اراکین خود ارب پتی ہیں۔
انھیں اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں چائے 5 روپے کی ملتی ہے۔ جب کہ ان کی لاکھوں روپے تنخواہیں ہیں۔ 2014ء میں اخبارات میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ساڑھے تین سو اسمبلی ارکان کو لاکھوں روپے کی گاڑیاں صرف ایک ایک ہزار میں ملیں۔ ابھی چند دن پہلے کی خبر ہے کہ 22 گریڈ کی نوکرشاہی کو 2/2 پلاٹ دیے گئے۔
ان میں ایک آدھ ایسے جج بھی ہیں جو ان پلاٹوں کے حصول کے خلاف ہیں جیساکہ ریٹائرڈ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال۔ انھوں نے میڈیا پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 2/2 پلاٹ ملنا ایک ایسا عمل ہے کہ جس طرح اسمبلی کی کینٹین میں چائے 5 روپے کی ملتی ہو۔ جب کہ دوسری جانب اسی پاکستان میں روزانہ عدم علاج کی وجہ سے ہزاروں لوگ تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ چند لوگوں کی جھلکیاں ٹی وی اسکرین پر نظر آ جاتی ہیں اور وہ بھی جہاں کوئی بھلا رپورٹر پہنچ جاتا ہے یہ بھی اس کی قربانی اور مالکان کی ریٹنگ کے مرہون منت ہے۔
اسمبلی کے ارکان شاید اکا دکا کے علاوہ سب ہی مالدار ہیں۔ انھیں تو تنخواہیں لینا ہی نہیں چاہیے۔ یہ تو بجٹ کا بیشتر حصہ ادھر ادھرکر جاتے ہیں اور پہلے سے ارب پتی تھے یا بن جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اگرکوئی مساوات کی بات کرتا ہے تو یہ دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہاں یوں اگر کر لیں تو ایک حد تک گاڑی چل جائے گی۔
کروڑ پتیوں کے لیے چاول ایک ہزار روپے کلو اور محنت کشوں کے لیے 5 روپے کلو، امیروں کے لیے دالیں دو ہزار روپے کلو اور غریبوں کے لیے 10 روپے کلو، سرمایہ داروں کے لیے آٹا 200 روپے کلو تو صنعتی مزدوروں کے لیے 2 روپے کلو۔ پھر تو مساوات ٹھیک ہے ورنہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ عوام کو چائے 15 روپے فی کپ ملتی ہے اور اسمبلی ارکان کو 5 روپے میں۔ یہ تو الٹ ہو گیا۔ اسمبلی ارکان کو تقریباً مفت گاڑیاں ملتی ہیں اور عوام صبح سویرے بسوں میں لٹکتے ہوئے فیکٹریوں، کارخانوں، ملوں اور دفاتر میں پہنچتے ہیں۔
پاکستان میں تقریباً ساڑھے چار کروڑ شہری بے گھر ہیں جب کہ 22 گریڈ کے افسران بشمول ججوں کو 2/2 پلاٹ اور وہ بھی ہزاروں گز کے مفت فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اگر بے زمین کسانوں اور بے گھر مزدوروں کو 80/80 گز کے مکان سرکار مفت فراہم کرے تو ایک ہزار گز میں 20 خاندانوں کو رہائشیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یہ تو رہی اسمبلی ارکان کی بات ان کے علاوہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، علما سو اور نوکر شاہی کی الگ کہانیاں ہیں۔ جس کو جب چاہیں قتل کرا دیں، زمین ہتھیا لیں، کافر قرار دے دیں، بے بنیاد نشریات چلا دیں، ٹرانسفر کرا دیں، برطرف کر دیں اور غیر محب وطن قرار دے دیں۔
اب بجٹ آنے والا ہے، ابھی تو بجٹ آیا ہی نہیں، آئی ایم ایف نے بجلی اور دیگر توانائی کے نرخوں میں 25 فیصد اضافے کروانے کی شرط حکومت سے منوا لی ہے۔ ابھی تو 46 ارب ڈالر کا چین سے معاہدہ ہوا جس میں بجلی کی پیداوار کے پروجیکٹ بھی شامل ہے اور پروپیگنڈا یہ کیا جا رہا ہے کہ کوئی قرض نہیں جب کہ پاکستان پر 120 بلین ڈالر کا پہلے ہی سے قرض ہے اور چین کا 5 ارب ڈالر اور پھر حال ہی میں اے ڈی بی اور دیگر اداروں کے قرضوں کا بوجھ ملا کر 130 سے 150 ارب ڈالر ہو جائے گا۔
دفاعی بجٹ میں اضافہ اور صحت و تعلیم کے بجٹ میں ہر سال کمی کی روایت بن گئی ہے۔ ہم ایک میزائل بنانے اور ٹیسٹ کرنے پر 6 ارب روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو 6 ارب میں6 بڑے اسپتال بن سکتے ہیں۔ جب کہ ہم سال میں 18 میزائل ٹیسٹ کرتے ہیں۔ ہم نے 120 ایٹم بم بنا رکھے ہیں۔ اگر یہ پیسے عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ کیا جاتا تو آج ملک سے جہالت اور بیماری کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ ملک کی ترقی بڑی عمارتیں، بڑی مساجد یا موٹروے نہیں بلکہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی، روزگار، رہائش، علاج اور تعلیم مہیا کرنا ہے۔
اگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے ترقی ہوئی تو کس چیز کی ترقی۔ بھوک، افلاس، غربت، بے گھری اور جہالت کی ترقی ہوئی۔ پاکستان جب بنا تو 1948ء میں 3 روپے کا ایک ڈالر تھا اور اب 103ء روپے کا ایک ڈالر۔ یہ برکات صرف آئی ایم ایف کے قرضہ جات اور سود کی ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری، لاعلاجی اور جہالت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بیرونی قرضے لینا بند کر دیں۔ جو لے چکے ہیں انھیں بحق سرکار ضبط کر لیں۔ اس لیے کہ لیے گئے قرضوں کے سود قرضوں سے زیادہ ادا کر چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دفاعی اخراجات کم کر دیں گے تو ہندوستان ہمیں ہڑپ کر جائے گا۔ ہڑپ کرنا یا نہ کرنا یہ ہمارے اپنے کرتوتوں پر انحصار کرتا ہے۔
جیسا کہ منتخب جماعت کو اقتدار دینے کے بجائے سابقہ مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر کے اسے جدا کر دیا۔ کیوبا، وینزویلا، بولیوا، ایکواڈور وغیرہ کی لگ بھگ ایک ایک کروڑ کی آبادیاں ہیں اور امریکا سے 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ انھوں نے سامراجی قرضے ضبط کیے۔ ان کے پاس ایٹم بم بھی نہیں ہیں، پھر امریکا کیوں قبضہ نہیں کرتا؟ جب کہ پاک و ہند کی حکومتیں اپنے اپنے عوام کو بھوکا مار کر بم بنانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے بجٹ میں صحت اور تعلیم کا بجٹ 10/10 فیصد کر کے بڑھایا جائے۔ کم ازکم تنخواہ 25000 روپے کی جائے۔ بجلی، گیس، آٹا، تیل، چاول، دال، دودھ یعنی روز مرہ کے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کا بجٹ بنایا جائے۔
جن اداروں کے ملازمین کو مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں ان کی تنخواہیں فوراً ادا کی جائیں۔ جن کے پاس 50 ایکڑ سے زیادہ زمینیں ہیں ان کی زمینیں بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ روزگار دینے کے لیے الگ سے وزارت قائم کی جائے۔ نجکاری کو فوراً روکا جائے اور بڑی، بھاری، بنیادی اور غیر ملکی صنعتوں، اداروں اور کارخانوں کو قومی ملکیت میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ ہر چندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی بے ریاستی سماج میں مضمر ہے۔ آج نہیں تو کل پوری دنیا ایک ہو جائے گی۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔