کیا تم مہناز کو جانتے ہو …
میں جانتا ہوں کہ آپ کو نہیں معلوم ہو گا کہ عابد کون ہے؟ آپ اپنے ذہن پر زور دیں
میں جانتا ہوں کہ آپ کو نہیں معلوم ہو گا کہ عابد کون ہے؟ آپ اپنے ذہن پر زور دیں، کیا آپ کسی عابد کو جانتے ہیں؟ ایک ہفتے سے جس کے گھر میں کچھ بھی کھانے کے لیے موجود نہ ہو۔ کیا آپ نے اپنے دوستوں کی محفل میں اس قسمت کے مارے عابد کے متعلق سُنا ہے جو ہر وقت ملک کی سیاست پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں جنھیں اپنے پڑوس سے زیادہ سیاسی خبروں پر تبصرے کا شوق ہوتا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ عابد کی ایک بیوی بھی تھی۔ آپ نے ایان علی کی بہت ساری خبریں دیکھی ہونگی۔ آپ نے اُس کے بالوں سے لے کر اُس کے کپڑوں تک ہزاروں تبصرے سنے ہونگے۔ آپ کو اپنے گھر کی خواتین نے کبھی بتایا کہ مہناز کون ہے؟ آپ نے کبھی مہناز اور عابد کی تصویریں دیکھی ہیں؟ یقینی طور پر یہ بہت بڑی خبر ہے کہ ریحام خان کس طرح کا دوپٹہ پہنتی ہے مگر کسی نے پوچھا کہ مہناز کے جسم کو ڈھانپنے کے لیے اُس کے پاس کپڑے کہاں سے آئیں گے؟ یہ ظلم کم ہے کہ ان کی ایک پانچ سال کی بیٹی بھی ہے۔
آپ نے اُسے کہیِں دیکھا ہے۔ ایک ایسے ماں باپ کی بیٹی جس کا پیدا ہونا ہی جرم ہو۔ جو اپنی قسمت میں ہی پیدائش سے بھوک لکھوا کر آئی ہو۔ نہیں لیکن ہمیں یہ تو فکر ہو گی کہ کون سی دعوت میں کس نے کون سا کھانا بنایا۔ مگر اُس کھانے سے محروم دل کا درد کبھی سمجھا ہے۔ ابھی بڑے بڑے بجٹ اور بڑے بڑے دعوؤں کا موسم آ چکا ہے لیکن ہر شہر کے عابد اور مہناز پوچھتے ہیں کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟
یقینی طور پر ہمارے لیے یہ بڑی خبر نہیں تھی کیوں کہ یہاں تو ہر روز ایسے سانحات ہوتے ہیں۔ یہ سانگھڑ ہے۔ جس کا نام ہی ایک ماں پر رکھا گیا، ایک ایسی عورت جس نے اسے شناخت دی۔ اور آج یہ ہی سانگھڑ ہے جس کا نام ایک ماں پر ہے وہی ایک ماں نے جان دے د ی۔ یہ ہی سانگھڑ جس کا بہت بڑا حصہ بھارتی سرحد سے ملتا ہے۔ وہ ہی بھارت جس کی ہمیں اپنے لوگوں سے زیادہ فکر ہوتی ہے۔
اسی سانگھڑ کے شہر میں ایک گلشن کمال کالونی ہے۔ جو اپنی غربت کی وجہ سے بس صرف نام کا گلشن ہے اور یہاں صرف بھوک ہی کمال دکھاتی ہے، اس لیے نام کے علاوہ اس میں کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ جہاں اکثر لوگ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن آپ کو تو معلوم ہو گا کہ وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر وزیر اعلیٰ کے گھر میں جتنے پیسوں کا ایک وقت کا کھانا بنتا ہے اتنے میں اس آبادی کو مہینے بھر کا راشن مل سکتا ہے۔ مگر دل کو کیوں جلاتے ہیں کیا کر سکتی ہے ہماری بیچاری حکومت جس کا بجٹ ہی ہمیشہ خسارے کا ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو کہاں سے روزگار اور کھانا دے سکتی ہے۔ جو خود نام نہاد قرضے پر چلتی ہے۔
عابد جس کا پورا نام عابد علی یوسف زئی ہے اسی کالونی کا رہائشی ہے۔ ایک ایسا مزدور جو روز کماتا اور روز کھاتا ہے۔ دو سال قبل اُس کی شادی مہناز سے ہو گئی۔ زندگی میں کبھی دولت کی خوشی تو آئی نہیں لیکن شادی کے روز وہ بہت خوش تھا۔ مگر گھر چلانے کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کم آمدن میں بھی اپنی زندگی کے دن خوشی سے گزار رہے تھے اور پھر ان کی زندگی میں ایک مہمان آ گیا۔ ایک پیاری سی معصوم سی بچی۔ یہ ہمارے حکمران جس نظام کی بات کرتے کرتے نہیں تھکتے کہ مغرب میں ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے۔
وہ آج تک ایک بچے کی کفالت کی ذمے داری نہیں اٹھا سکے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں کے حکمرانوں کو اپنے بچوں کے علاوہ کسی کے بچے نظر نہیں آتے۔ بیٹی اگر عابد کے یہاں پیدا ہو گئی تو ریاست کی کوئی ذمے داری نہیں ہے؟ کسی کی مزدوری یہ دیکھ کر نہیں دی جاتی کہ اُس کے گھر میں کتنے لوگ ہیں۔ بچی کی پیدائش کے بعد اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔ آمدن جتنی تھی اتنی ہی رہی اور پھر کام بھی کم ہو گیا۔ حالت فاقوں تک آ گئی۔ بچی پانچ مہینے کی ہو چکی تھی۔ بیوی کم خوراک کی وجہ سے بچے کو دودھ کی ضرورت پوری نہیں کر سکتی تھی۔
ایسے میں تلخ کلامی معمول بن گئی۔ اور پھر گزشتہ روز دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم کمزور لوگ ہیں، ہم ڈاکے نہیں مار سکتے، ہم لوٹ مار نہیں کر سکتے، ہم منی لانڈرنگ نہیں کر سکتے، ہم اپنے جسموں پر برائے فروخت کا بور ڈ نہیں لگا سکتے۔ رمضان قریب آ رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ٹماٹر کتنے کا آتا ہے اور آلو کیا کلو ہے۔ دودھ کیا لیٹر ہے لیکن رمضان قریب آتے ہی مہنگائی بڑھ گئی ہے۔
ایسے میں ایک عابد کیا کرے گا جس کی آمدن کم ہو اور روز کی بنیاد پر 100 روپے کا اضافی خرچ مہنگائی کی وجہ سے ہو جائے۔ میاں بیوی نے گزشتہ روز فیصلہ کر لیا اور کہا کہ اس سے پہلے کہ حکومت مٹی کے تیل پر قیمت بڑھا دے بہتر یہ ہے کہ اسے پی کر ہی اپنی جان دے دی جائے اور پھر انھوں نے ایسا ہی کیا۔
کیا خود کو ختم کر لینے کی کوشش سے پہلے انھیں اپنی معصوم بیٹی کا خیال نہیں آیا ہو گا۔ اُن کے دل میں اس بات کی تشویش نہیں ہوئی ہو گی کہ ان کی پانچ ماہ کی بچی کیا کرے گی۔ لیکن شاید انھوں نے سوچا ہو گا کہ وہ بھوک سے اپنی بیٹی کو اپنے سامنے مرتا ہوا نہ دیکھ لے، اسی لیے انھوں نے یہ قدم اٹھایا ہو گا۔ ہمارے یہاں ریاست ایک بچہ نہیں پال سکتی۔ کسی نے بچے کی روتے ہوئے آواز سُنی اور جب اندر داخل ہوئے تو میاں بیوی مٹی کا تیل پی چکے تھے حالت خطرناک تھی انھیں سانگھڑ کے سول اسپتال لایا گیا۔ اب آپ خود سوچیں کہ ایک ڈسٹرکٹ اسپتال لایا گیا۔
انھیں کسی محلے کی ڈسپنسری میں نہیں لائے تھے۔ شرم آنی چاہیے ہمیں کہ ہمارے پاس ڈسٹرکٹ لیول پر بھی ایک ایسا اسپتال نہیں جو ایمرجنسی کی صورتحال پر کسی کی مدد کر سکے۔ اور پھر انھیں نواب شاہ بھیج دیا گیا۔ راستے میں مہناز نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس قتل کی ذمے داری حکومت پر عائد نہیں ہوتی تو کس پر ہوتی ہے۔ جو لوگوں کو خوراک تک نہیں دے سکی، جو اربوں روپے تو اپنے گھروں میں چھپاتی ہے لیکن پورے ضلع میں ایک اسپتال نہیں دے سکتی۔ اس بچی کے سر پر سے ماں کا سایا چھیننے میں یہاں کہ تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں کا ہاتھ نہیں تو کس کا ہے۔
آئیے اس سے بھی بڑھ کر شرمندگی دیکھتے ہیں کہ جب ایک رپورٹر نے مقامی تھانے میں فون کیا تو وہاں سے یہ کہا گیا کہ ہمیں اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے اور کسی نے کیوں کہ اب تک شکایت درج نہیں کرائی ہے اس لیے ہم کچھ نہیں بتا سکتے۔ جہاں بڑے بڑے نام بیچ میں آ جائیں وہاں کیا کبھی پولیس یہ کہتی ہے کہ ہمارے پاس رپورٹ درج نہیں ہوئی ہے۔ پورے ملک کی مشینری حرکت میں آ جاتی ہے۔
یہ بجٹ، بجٹ کی بحث سے کیا ہو گا۔ کون مجھے اس بات کی یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ آیندہ اس بجٹ کے بعد کوئی بھی عابد اور مہناز صرف اس لیے اپنی جان نہیں لیں گے کہ وہ اپنے بچے کو خوراک نہیں دے سکتے ہیں۔ ان کی اولین ترجیحات کیا ہیں۔
وفاق کو دیکھیے جو نیا بجٹ لا رہی ہے لیکن پرانے ٹیکس بڑے لوگوں سے نہیں لے سکی۔ جو ہائیر ایجوکیشن پر اس سال ایک روپیہ بھی بڑھا نہیں رہی۔ اور یہ سندھ حکومت جس کو پورے سال خیال نہیں آیا کہ بجٹ استعمال بھی کرنا ہوتا ہے اور اب سندھ کے 50 ہزار اسکولوں کے لیے 3 ارب روپے سے زیادہ ریلیز کیے گئے ہیں کہ ایک مہینے میں خرچ کرنے ہیں۔
سب کا حساب بندھا ہوا ہے۔ اس لیے یہ بچی جو مہناز چھوڑ کرگئی ہے۔ اس کے مستقبل کے ساتھ کیا ہو گا وہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ اگر آپ کر سکتے ہیں تو بس اتنا کر لیجیے کہ ایان علی کی بجائے اپنے اردگرد کسی مہناز کو دیکھ لیجیے شاید آپ کسی اور بچی کے سر سے ماں کا سایہ نہ اٹھنے دے۔ یہ حکومتیں تو کچھ نہیں کر سکتیں کیوں کہ ان کا بجٹ تو ہمیشہ خسارہ کا ہی رہے گا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ عابد کی ایک بیوی بھی تھی۔ آپ نے ایان علی کی بہت ساری خبریں دیکھی ہونگی۔ آپ نے اُس کے بالوں سے لے کر اُس کے کپڑوں تک ہزاروں تبصرے سنے ہونگے۔ آپ کو اپنے گھر کی خواتین نے کبھی بتایا کہ مہناز کون ہے؟ آپ نے کبھی مہناز اور عابد کی تصویریں دیکھی ہیں؟ یقینی طور پر یہ بہت بڑی خبر ہے کہ ریحام خان کس طرح کا دوپٹہ پہنتی ہے مگر کسی نے پوچھا کہ مہناز کے جسم کو ڈھانپنے کے لیے اُس کے پاس کپڑے کہاں سے آئیں گے؟ یہ ظلم کم ہے کہ ان کی ایک پانچ سال کی بیٹی بھی ہے۔
آپ نے اُسے کہیِں دیکھا ہے۔ ایک ایسے ماں باپ کی بیٹی جس کا پیدا ہونا ہی جرم ہو۔ جو اپنی قسمت میں ہی پیدائش سے بھوک لکھوا کر آئی ہو۔ نہیں لیکن ہمیں یہ تو فکر ہو گی کہ کون سی دعوت میں کس نے کون سا کھانا بنایا۔ مگر اُس کھانے سے محروم دل کا درد کبھی سمجھا ہے۔ ابھی بڑے بڑے بجٹ اور بڑے بڑے دعوؤں کا موسم آ چکا ہے لیکن ہر شہر کے عابد اور مہناز پوچھتے ہیں کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟
یقینی طور پر ہمارے لیے یہ بڑی خبر نہیں تھی کیوں کہ یہاں تو ہر روز ایسے سانحات ہوتے ہیں۔ یہ سانگھڑ ہے۔ جس کا نام ہی ایک ماں پر رکھا گیا، ایک ایسی عورت جس نے اسے شناخت دی۔ اور آج یہ ہی سانگھڑ ہے جس کا نام ایک ماں پر ہے وہی ایک ماں نے جان دے د ی۔ یہ ہی سانگھڑ جس کا بہت بڑا حصہ بھارتی سرحد سے ملتا ہے۔ وہ ہی بھارت جس کی ہمیں اپنے لوگوں سے زیادہ فکر ہوتی ہے۔
اسی سانگھڑ کے شہر میں ایک گلشن کمال کالونی ہے۔ جو اپنی غربت کی وجہ سے بس صرف نام کا گلشن ہے اور یہاں صرف بھوک ہی کمال دکھاتی ہے، اس لیے نام کے علاوہ اس میں کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ جہاں اکثر لوگ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن آپ کو تو معلوم ہو گا کہ وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر وزیر اعلیٰ کے گھر میں جتنے پیسوں کا ایک وقت کا کھانا بنتا ہے اتنے میں اس آبادی کو مہینے بھر کا راشن مل سکتا ہے۔ مگر دل کو کیوں جلاتے ہیں کیا کر سکتی ہے ہماری بیچاری حکومت جس کا بجٹ ہی ہمیشہ خسارے کا ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو کہاں سے روزگار اور کھانا دے سکتی ہے۔ جو خود نام نہاد قرضے پر چلتی ہے۔
عابد جس کا پورا نام عابد علی یوسف زئی ہے اسی کالونی کا رہائشی ہے۔ ایک ایسا مزدور جو روز کماتا اور روز کھاتا ہے۔ دو سال قبل اُس کی شادی مہناز سے ہو گئی۔ زندگی میں کبھی دولت کی خوشی تو آئی نہیں لیکن شادی کے روز وہ بہت خوش تھا۔ مگر گھر چلانے کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کم آمدن میں بھی اپنی زندگی کے دن خوشی سے گزار رہے تھے اور پھر ان کی زندگی میں ایک مہمان آ گیا۔ ایک پیاری سی معصوم سی بچی۔ یہ ہمارے حکمران جس نظام کی بات کرتے کرتے نہیں تھکتے کہ مغرب میں ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے۔
وہ آج تک ایک بچے کی کفالت کی ذمے داری نہیں اٹھا سکے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں کے حکمرانوں کو اپنے بچوں کے علاوہ کسی کے بچے نظر نہیں آتے۔ بیٹی اگر عابد کے یہاں پیدا ہو گئی تو ریاست کی کوئی ذمے داری نہیں ہے؟ کسی کی مزدوری یہ دیکھ کر نہیں دی جاتی کہ اُس کے گھر میں کتنے لوگ ہیں۔ بچی کی پیدائش کے بعد اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔ آمدن جتنی تھی اتنی ہی رہی اور پھر کام بھی کم ہو گیا۔ حالت فاقوں تک آ گئی۔ بچی پانچ مہینے کی ہو چکی تھی۔ بیوی کم خوراک کی وجہ سے بچے کو دودھ کی ضرورت پوری نہیں کر سکتی تھی۔
ایسے میں تلخ کلامی معمول بن گئی۔ اور پھر گزشتہ روز دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم کمزور لوگ ہیں، ہم ڈاکے نہیں مار سکتے، ہم لوٹ مار نہیں کر سکتے، ہم منی لانڈرنگ نہیں کر سکتے، ہم اپنے جسموں پر برائے فروخت کا بور ڈ نہیں لگا سکتے۔ رمضان قریب آ رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ٹماٹر کتنے کا آتا ہے اور آلو کیا کلو ہے۔ دودھ کیا لیٹر ہے لیکن رمضان قریب آتے ہی مہنگائی بڑھ گئی ہے۔
ایسے میں ایک عابد کیا کرے گا جس کی آمدن کم ہو اور روز کی بنیاد پر 100 روپے کا اضافی خرچ مہنگائی کی وجہ سے ہو جائے۔ میاں بیوی نے گزشتہ روز فیصلہ کر لیا اور کہا کہ اس سے پہلے کہ حکومت مٹی کے تیل پر قیمت بڑھا دے بہتر یہ ہے کہ اسے پی کر ہی اپنی جان دے دی جائے اور پھر انھوں نے ایسا ہی کیا۔
کیا خود کو ختم کر لینے کی کوشش سے پہلے انھیں اپنی معصوم بیٹی کا خیال نہیں آیا ہو گا۔ اُن کے دل میں اس بات کی تشویش نہیں ہوئی ہو گی کہ ان کی پانچ ماہ کی بچی کیا کرے گی۔ لیکن شاید انھوں نے سوچا ہو گا کہ وہ بھوک سے اپنی بیٹی کو اپنے سامنے مرتا ہوا نہ دیکھ لے، اسی لیے انھوں نے یہ قدم اٹھایا ہو گا۔ ہمارے یہاں ریاست ایک بچہ نہیں پال سکتی۔ کسی نے بچے کی روتے ہوئے آواز سُنی اور جب اندر داخل ہوئے تو میاں بیوی مٹی کا تیل پی چکے تھے حالت خطرناک تھی انھیں سانگھڑ کے سول اسپتال لایا گیا۔ اب آپ خود سوچیں کہ ایک ڈسٹرکٹ اسپتال لایا گیا۔
انھیں کسی محلے کی ڈسپنسری میں نہیں لائے تھے۔ شرم آنی چاہیے ہمیں کہ ہمارے پاس ڈسٹرکٹ لیول پر بھی ایک ایسا اسپتال نہیں جو ایمرجنسی کی صورتحال پر کسی کی مدد کر سکے۔ اور پھر انھیں نواب شاہ بھیج دیا گیا۔ راستے میں مہناز نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس قتل کی ذمے داری حکومت پر عائد نہیں ہوتی تو کس پر ہوتی ہے۔ جو لوگوں کو خوراک تک نہیں دے سکی، جو اربوں روپے تو اپنے گھروں میں چھپاتی ہے لیکن پورے ضلع میں ایک اسپتال نہیں دے سکتی۔ اس بچی کے سر پر سے ماں کا سایا چھیننے میں یہاں کہ تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں کا ہاتھ نہیں تو کس کا ہے۔
آئیے اس سے بھی بڑھ کر شرمندگی دیکھتے ہیں کہ جب ایک رپورٹر نے مقامی تھانے میں فون کیا تو وہاں سے یہ کہا گیا کہ ہمیں اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے اور کسی نے کیوں کہ اب تک شکایت درج نہیں کرائی ہے اس لیے ہم کچھ نہیں بتا سکتے۔ جہاں بڑے بڑے نام بیچ میں آ جائیں وہاں کیا کبھی پولیس یہ کہتی ہے کہ ہمارے پاس رپورٹ درج نہیں ہوئی ہے۔ پورے ملک کی مشینری حرکت میں آ جاتی ہے۔
یہ بجٹ، بجٹ کی بحث سے کیا ہو گا۔ کون مجھے اس بات کی یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ آیندہ اس بجٹ کے بعد کوئی بھی عابد اور مہناز صرف اس لیے اپنی جان نہیں لیں گے کہ وہ اپنے بچے کو خوراک نہیں دے سکتے ہیں۔ ان کی اولین ترجیحات کیا ہیں۔
وفاق کو دیکھیے جو نیا بجٹ لا رہی ہے لیکن پرانے ٹیکس بڑے لوگوں سے نہیں لے سکی۔ جو ہائیر ایجوکیشن پر اس سال ایک روپیہ بھی بڑھا نہیں رہی۔ اور یہ سندھ حکومت جس کو پورے سال خیال نہیں آیا کہ بجٹ استعمال بھی کرنا ہوتا ہے اور اب سندھ کے 50 ہزار اسکولوں کے لیے 3 ارب روپے سے زیادہ ریلیز کیے گئے ہیں کہ ایک مہینے میں خرچ کرنے ہیں۔
سب کا حساب بندھا ہوا ہے۔ اس لیے یہ بچی جو مہناز چھوڑ کرگئی ہے۔ اس کے مستقبل کے ساتھ کیا ہو گا وہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ اگر آپ کر سکتے ہیں تو بس اتنا کر لیجیے کہ ایان علی کی بجائے اپنے اردگرد کسی مہناز کو دیکھ لیجیے شاید آپ کسی اور بچی کے سر سے ماں کا سایہ نہ اٹھنے دے۔ یہ حکومتیں تو کچھ نہیں کر سکتیں کیوں کہ ان کا بجٹ تو ہمیشہ خسارہ کا ہی رہے گا۔