پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات ایک اور فلاپ شو

پاکستان میں جمہوریت کتنی مضبوط ہوئی ہے اس کا اندازہ تو تمام اراکین اسمبلی کے اثاثوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔


انتخابی ڈرامے کی ذمہ دار نا ہی صوبائی حکومت ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن۔ اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ عوام ہیں جو ہر بار ڈسنے کے باوجود ان سانپوں کو پالتی ہیں۔

دنیا بھر کے سارے سیاستدان اپنی عوام کو مصروف رکھنے کے لئے مختلف ہتھکنڈوں، حیلوں اور بہانوں سے کام لیتے ہیں جنہیں وہ پراجکٹس یا منصوبوں کا نام دیتے ہیں۔ اسطرح ان کا بھی کام چلتا رہتا ہے اور عوام کی آنکھوں میں بھی کارکردگی کے نام پر دھول جھونکا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر زرداری حکومت پانچ سال تک حکومتی سرپرستی میں بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر خواتین کو ایک ہزار روپے کے عوض بینک کے باہر قطاروں میں کھڑا کرنے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتی رہی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ اس سے غربت کے خاتمے میں بڑی مدد ملی ہے۔ حکومت کی اس چال کی مقبولیت دیکھ کر نوازشریف نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد اس رسوائی میں دو سو روپے کا اور اضافہ کردیا کیا۔ پنجاب نے طلباء میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنا شروع کئے لیکن اس خوف سے اس پیکج سے انٹرنیٹ کی یو ایس بی غائب کردی تاکہ طلباء آن لائن ہوکر گو نواز گو کے مہم میں حصہ نہ لے سکیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں دنیا کے آٹھویں عجوبے اور گندھارا تہذیب کے سب سے بہترین نمونے قائم علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنادیا تاکہ لوگ حکومت کو بددعائیں دینے کے بجائے دعائیں دینے لگیں۔

صوبہ پختونخوا میں عوام کو مصروف رکھنے کے لئے عمران خان نے پہلے ہی سے ایک ارب درخت، تین سو پچاس ڈیموں، صحت کا انصاف، تعلیم کا انصاف اور پشاور کی سڑکوں پر اپنے لئے بہت سارے یوٹرن بنا کر اس قسم کے بڑے بڑے خیالی منصوبے شروع کئے اور عوام کے ہاتھ میں تبدیلی کا لالی پاپ دینے کے بعد نوازشریف کو تنگ کرنا شروع کیا۔ انقلاب کی جگہ دلہنیا لانے والے عمران خان کو جب اسی عدالت نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا جس نے افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 2013 کے عام انتخابات میں ان کے ساتھ دھاندلی کی تھی تو انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی صوبائی حکومت میں الیکشن کا انتظام سنبھالنے کی اہلیت ہی نہیں، بلدیاتی انتخابات کے فوائد گنوانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ لینے کی کوشش شروع کی۔

مجھے ذاتی طور پر بادل ناخواستہ اس انتخابی عمل میں پریزائڈنگ آفیسر کے طور پر خدمات انجام دینا پڑیں اور تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ مردان کے ڈی سی او کے آفس سے فرمان جاری ہوا تھا کہ تمہیں ہر حال میں الیکشن ڈیوٹی سرانجام دینی ہوگی۔ ہماری یونیورسٹی کی نالائق انتظامیہ نے بھی دباو میں آکر خواہ مخواہ اپنے پروفیسروں کو ذلیل کرنے کی حامی بھری۔ اس دن میرے اور ساتھی پروفیسرز کے ساتھ جو ہوا، وہ الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ لیکن الیکشن کے دن سے لے کر آج تک اس عمل کا حصہ بننے والے کسی بھی ووٹر، پولنگ آفیسر، پریزائڈنگ آفیسر، پولنگ ایجنٹ، امیدوار یہاں تک کہ سیکورٹی پر مامور پولیس والوں سے الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کے لئے سوائے لعن طعن اور گالیوں کے کچھ نہیں سنا۔ ذاتی طور پر یہ نہ صرف میری زندگی کا ناخوشگوار ترین دن تھا، بلکہ اس روز مجھے جس ذہنی کوفت اور ذلالت کا سامنا کرنا پڑا وہ میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔

مجھے ڈیوٹی سنبھالنے سے پہلے معلوم تھا کہ صوبائی حکومت تاحال اس منصوبے پر کام کررہی ہے کہ ضلع کونسل، تحصیل کونسل، جنرل کونسل، نوجوان، مزدورکسان اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والوں کو سالانہ کتنے فنڈز ملیں گے اور ان کے کیا کیا اختیارات ہوں گے؟ انتخابی مہم میں امیدواروں کی تقریریں سن کر آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ سارا عمل زبانی جمع خرچ اور لوگوں کو مصروف رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس سے پہلے ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف وغیرہ نے بھی اپنی اقتدار کو طول دینے کی غرض سے بلدیاتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا تھا۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات کا اعلان کیا تو پورے صوبے سے 93 ہزار امیدوارمیدان میں اترے جن میں 43 ہزار نے منتخب ہونا تھا۔ مطلب ہر گھرانے سے ایک ایک فرد ملک و قوم و سلطنت کی خدمت کرکے کچھ پیسے کمانا چاہتا تھا۔ انتخابی نشانات کی باری آئی توالیکشن کمیشن میں بیٹھے نااہلوں کے پاس ڈھنگ کے انتخابی نشان نہیں تھے۔ کسی کو بوتل دیا گیا تو کسی کو پیچکس، کسی کو موٹرسائیکل پلگ تو کسی کو سیرنج کا انتخابی نشان ملا، یہاں تک کہ چارسدہ کے ایک مولوی کو انتخابی نشان کے طور پر باجا ملا۔ اب ظاہر ہے مولوی کو باجا ملے گا اور وہ اسے بجائے گا تو اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آچکی ہے!

الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے الیکشن کمیشن نے ضلعی انتظامیہ سے الیکشن ڈیوٹی کے لئے انتخابی عملے اور پولیس سیکیورٹی سمیت سہولیات فراہم کرنے کا کہا۔ ضلعی انتظامیہ نے محکمہ تعلیم سمیت یونیورسٹی پروفیسرز کو بھی نہ بخشا اور زبردستی سب کی ڈیوٹی لگائی۔ اسکول ٹیچرز تو الیکشن ڈیوٹی اور امتحانات میں ڈیوٹی انجام دینے کے لئے باقاعدہ سفارشیں کرواتے ہیں لیکن یونیورسٹی پروفیسرز کو اس عمل میں دھکیلنا نہ صرف ان کی بدمعاشی تھی بلکہ ضلعی انتظامیہ کی ایسی بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ شاید انہیں کافی عرصے تک بھگتنا پڑے۔ غلطی اس لئے تھی کہ یونیورسٹی اساتذہ عام طور پر الیکشن میں ڈیوٹی کا تجربہ نہیں رکھتے۔ ضلعی انتظامیہ نے خانہ پری کے طور پر ان کے لئے ایک روزہ تربیت کا بھی بندوبست کیا تھا لیکن بلدیاتی انتخابات کی دلدل کے لئے یہ ٹریننگ ناکافی تھی۔ میری یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے الیکشن سے ڈیوٹی سے معذرت کی جو پی ایچ ڈی ڈگری ہونے کے ساتھ ساتھ انیس گریڈ میں ملازم ہے، تو انہیں ڈی سی او کے کہنے پر پولیس تھانے لے گئی، جی یہ وہی پولیس ہے جسے عمران خان نے بااختیار بنایا ہے۔ اب ظاہر ہے 19 اور 20 گریڈ پروفیسروں پر ڈی سی او کی بدمعاشی چلے گی، تو وہاں لازمی طور پر تبدیلی آئے گی، خواہ وہ تبدیلی منفی ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے معلوم تھا کہ الیکشن کے دن لوگ ذلیل ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ اس قدر ذلیل ہوتے ہیں۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ الیکشن کے روز بطور پریزائڈنگ آفیسرمجھے کتنا خوار ہونا پڑے گا تو اس سے بچنے کے لئے میں خود کو پولیس کے حوالے کرتا۔ بہرحال قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔

الیکشن سے ایک روز پہلے مجھے ریٹرننگ افسر نے کال کرکے اپنے دفتر بلالیا۔ جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ میرے ساتھ 16 اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے اور مجھے مردان کا حساس ترین، خطرناک ترین اور بیکار ترین پولنگ سٹیشن دیا گیا ہے۔ ریٹرننگ افسر کے دفتر میں 5 گھنٹے تک اپنی سیکورٹی پر مامور پولیس والوں کا انتظار انتظار کرتے کرتے خوار ہونے کے بعد بالآخر میری انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ مجھے جو ایس ایچ او دیا گیا تھا اس کی شکل ہٹلر سے ملتی تھی تاہم پاکستان میں گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اس کی رنگت پر کافی اثر پڑا تھا۔ اگر جرمنی والا ہٹلر زندہ ہوتا تو شاید کوئی کولڈ کریم والی کمپنی دونوں کو اشتہار میں لے کر بہت پیسہ کمالیتی۔

خیر ہم الیکشن میٹرئیل لے کر متعلقہ اسکول پہنچے تو دیکھا کہ گوجر گڑھی ہائیر سیکنڈری اسکول میں نہ میز ہے اور نہ ہی کرسیاں۔ کلاس رومز کے دروازوں اور الماریوں کے کنڈے بھی ٹوٹے ہوئے تھے اور کئی کلاس رومز میں لائٹس بھی کام نہیں کررہی تھی۔ تقریباً اٹھارہ سال کے بعد سرکاری اسکول کے اندر کا ماحول دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود بہتری کو درکنار اُن کی حالت مزید ابتر ہوئی ہے۔ میں نے اسکول کے پرنسپل سے کہا کہ لائٹس کا بندوبست کرے تو اس نے کہا کسی امیدوار سے کہہ دو، وہ بندوبست کردے گا۔ میں نے کہا کہ آپ عجیب بات کرتے ہیں؟ اگر میں کسی امیدوار سے مدد لوں گا تو کل الیکشن کے دن وہ مجھ سے مدد مانگے گا۔ آپ مجھ سے دھاندلی کروانا چاہتے ہیں؟ اس کہا نہیں نہیں، لیکن حکومت ہمیں پوچھتی ہی نہیں تو ہم لائٹ کا انتظام کہاں سے کریں۔ میں نے علاقے کے متعلقہ ایم پی اے افتخار مشوانی کو کال کرکے شکایت کی اور انہیں بتایا کہ آپ کا لیڈر تو میڈیا پر بڑا تیس مار خان بنا پھرتا ہے کہ ہم نے صوبے میں تعلیمی انقلاب برپا کیا ہے جبکہ آپ کے اپنے حلقے کے اسکول میں لائٹ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا یہ اسکول ٹیچرز اس قدر نالائق اور بے ایمان ہوچکے ہیں کہ ان سے ایک اسکول کا انتظام بھی نہیں سنبھالا جاتا۔ پچھلے مہینے میں خود اس اسکول کو چار کروڑ روپے دے چکا ہوں۔ جب میں نے پرنسپل صاحب کی اس سے بات کرائی تو پرنسپل صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ اس کے بعد میں نے اپنے ریٹرننگ افسر کو فون کیا اور شکایت کی کہ آپ نے کس بھوت بنگلے میں میری ڈیوٹی لگائی ہے؟ اب دو لائٹس کا بندوبست کریں۔ انہوں نے کہا بس ابھی بھیجتا ہوں، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ لائٹس الیکشن ختم ہونے کے بعد بھی نہیں آئیں۔

اگلے دن جب الیکشن شروع ہونے سے پہلے میں نے بیلٹ پیپرز اور ووٹرلسٹوں کا تھیلا کھولا تو دیکھا کہ اس میں سات رنگوں کے بیلٹ پیپرز موجود تھے۔ ضلع کونسل کے لئے اورنج، تحصیل کونسل کے لئے گرے، نوجوانوں کی سیٹ کے لئے زرد، مزدور کسان کے لئے سبز، خواتین کے لئے گلابی، جبکہ جنرل کونسلرز کے لئے سفید رنگ کے ووٹ تھے۔ یہ سب دیکھ کر میرا دماغ چکرانے لگا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتنا پیچیدہ عمل ہے۔ میرے پولنگ اسٹیشن پر ووٹوں کی کل تعداد تقریباً گیارہ سو تھی۔ لیکن پورے دن میں تقریباً پچاس فیصد ووٹ بھی پول نہ ہو سکے۔ مسئلہ یہ تھا کہ عام انتخابات میں لوگوں کو صرف دو ووٹ پول کرنا تھے۔ ایک ایم این اے کے لئے اور دوسرا ایم پی اے کے لئے جبکہ اس الیکشن میں چھ اور جہاں اقلیتوں کے امیدوار تھے وہاں ساتھ ووٹ پول کرنا ہوتے تھے۔ اس لحاظ سے اگر پچھلے انتخابات میں ایک ووٹ ڈالنے کے لئے دو منٹ درکار ہوتے تھے تو ان انتخابات میں ایک ووٹ کے لئے چھ منٹ درکار ہوتے تھے۔ گویا انتخابی عملے کو تین گنا مستعدی دکھانا تھی اور پچھلے الیکشن کے مقابلے میں تین گنا وقت درکارتھا۔

تقریباً دو گھنٹے بعد جب میں نے اپنے اسسٹنٹ پریزائڈنگ سے پوچھا کہ کتنے ووٹ پول ہوئے تو اس نے کہا سر ابھی تک صرف 22 ووٹ ہی پول ہوئے ہیں۔ باہر لوگوں کی لمبی قطار دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ آج کا دن بہت بھاری گزرے گا۔ جوں جوں مشرق کا دیوتا اپنی آب و تاب دکھاتا رہا، پٹھانوں کے دماغ کا پارہ بھی چڑھتا رہا۔ پورا دن گالی گلوچ، بکواس، لعن طعن اور واہیات سننے اور سنانے کے بعد جب پانچ بجے تو میں نے اپنے ریٹرننگ افسر کو فون کرکے پوچھا کہ ٹائم تو ختم ہوگیا ہے۔ الیکشن روک دوں؟ اس نے پوچھا کہ کتنے لوگ باقی ہیں؟ میں نے کہا باہر تو لمبی قطار کھڑی ہے۔ لوگوں نے انتظار سے تنگ آکر میرے ایک پولنگ بوتھ کا دروازہ بھی توڑڈالا ہے اور ایک پولیس والے کو بھی مارا ہے۔ انہوں نے کہا ایسا کرو جب تک ہوسکے الیکشن جاری رکھو۔ میں نے ایک گھنٹہ ٹائم بڑھا دیا۔ لیکن جب اندازہ ہوا کہ اگر میں الیکشن جاری رکھوں تو شاید رات دو بجے تک بھی یہ قطار ختم نہ ہو۔ بڑی مشکل سے میں نے پولیس کے ذریعے دروازے بند کئے اور ووٹوں کی گنتی شروع کی۔ ابھی تھوڑے ہی ووٹ گنے تھے کہ واپڈا والوں نے اپنی اوقات دکھانی شروع کی اور بجلی چلی گئی۔ میں نے پولنگ ایجنٹس سے لائٹس کا بندبست کرنے کو کہا تو انہوں نے دو لائٹس کا بندوبست کیا۔ شام سات بجے سے تقریباً رات بارہ بجے تک گنتی کا عمل جاری رہا اور اس دوران بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ مجھ سمیت سارے اساتذہ اور پولنگ ایجنٹس حکومت وقت کو صلٰوتیں سناتے رہے۔

رات 2 بجے جب میں نے اساتذہ میں ان کی دیہاڑی تقسیم کی تو اپنی دیہاڑی کے سولہ سو روپے پولیس والوں کو شکرانے کے طور پر دے دئے کہ اللہ نے زندگی اور لاج دونوں رکھ لی ورنہ صوبائی حکومت، الیکشن کمیشن اور اِس انتخابی ڈرامے میں شامل سبھی کرداروں نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ اُس کے بعد رزلٹ اور ووٹوں کے تھیلے اٹھا کر ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچا۔ وہاں پہلے سے موجود اور میرے بعد آنے والے پریزائڈنگ آفیسرز بھی الیکشن کمیشن اور حکومت کو گالیاں دیتے پائے گئے۔ بہت ساری خواتین پریزائڈنگ افسران جن کے پاس بچے بھی تھے، ابھی تک گھروں سے باہر تھیں۔ میں جب صبح چار بچے کے قریب اپنے ساتھیوں سمیت ہاسٹل کے لئے باہر نکلا تو صبح کی آذان شروع ہوئی اور اسطرح ہماری براداشت اور ذلالت کا امتحان اپنے اختتام کو پہنچا اور نئی سحر اس بات کی نوید تھی کہ ہم اس دلدل سے زندہ اور صحت کے ساتھ باہر نکلنے میں کامیاب ہوچکے ہیں کیونکہ میرے بہت سارے دوستوں کو دھمکیاں ملیں، بعض نے مار کھائی، کوئی رونے لگا تو کسی نے گالیوں اور بددعاوں پر ہی اکتفاء کیا اور یوں بلدیاتی الیکشن کا یہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

الیکشن کے بعد پہلے ہی دن الیکشن کمیشن کے پاس 10 ہزار سے زائد شکایات درج ہوچکی ہیں۔ کئی پولنگ اسٹیشنز میں نتخابی عملے کو کالعدم قرارد یا گیا اور دوبارہ انتخابات کا اعلان ہوا۔ ابھی تک 11 لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں، جبکہ کہیں اے این پی کے رہنما میاں افتخار جیل کے اندر ہے تو کہیں کوئی پی ٹی آئی کا کارکن اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا ہے۔ کہیں صوبائی وزیر علی امین گنڈاپور نے بیلٹ باکس اٹھاکر گاڑی میں ہی موبائل پولنگ سٹیشن قائم کرنے کی کوشش کی ہے تو کہیں جماعت اسلامی نے اپنے ہی اتحادیوں پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے ہیں اور انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا ہے۔ الزام خان پھر سے الزام تراشی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور بدنظمی اور دھاندلی کی پوری ذمہ داری الیکشن کمیشن کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں دوسری جانب الیکشن کمیشن صوبائی حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔

جہاں تک ذمہ داری کی بات ہے کہ یہ سب ڈرامہ رچانے اور لوگوں کو ذلیل کرنے کی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے تو میرے خیال میں نا ہی صوبائی حکومت ذمہ دار ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن۔ اگر کوئی واقعی ذمہ دار ہے تو وہ عوام ہیں جو ہر بار ڈسنے کے باوجود ان سانپوں کو پالتی ہیں۔ بلوچستان میں کچھ روز پہلے 22 افراد کو بس سے اتار کر قتل کردیا گیا لیکن کسی بھی حکومتی اہلکار نے استعفیٰ نہیں دیا۔ اس سے قبل کراچی میں اسماعیلی برادری کے افراد کو قتل کردیا گیا وہاں بھی ہندوستانی ایجنسی 'را' کو مورد الزام ٹہرایا گیا۔ اب ظاہر ہے 'را' سے استعفیٰ لینا تو نریندر مودی کے بس کی بات نہیں تو پاکستان کا صدر، وزیراعظم، آرمی چیف اس میں کیا کرسکتے ہیں۔ پشاور میں دو سو سے زائد معصوموں کو خون میں نہلایا گیا۔ نہ کسی کور کمانڈر نے استعفیٰ دیا اور نہ ہی تبدیلی خان کی حکومت کے کسی عہدیدار نے۔ پاکستان میں سب چلتا ہے۔ شاعرِ مشرق، مفکرپاکستان علامہ اقبال نے جب مختلف سیاسی نظاموں کا تقابلی جائزہ لیا تھا تو اس میں جمہوریت کو تماشہ قرار دیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ باقی دنیا میں جمہوری تماشے ہوتے ہیں یا نہیں لیکن وطن عزیز میں وقتاً فوقتاً سرکس کے مداری عوام کو مصروف رکھنے کے لئے جمہوریت کی ڈگڈگی ضرور بجاتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کتنی مضبوط ہوئی ہے اس کا اندازہ تو تمام اراکین اسمبلی کے اثاثوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس تماشے میں بہرحال تماشہ بننے والا عام آدمی ہی ہوتا ہے۔

[poll id="460"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں