حیات کی ابتدا کا راز جاننے کیلئے ’’لارج ہیڈن کولائیڈر‘‘ تجربے کا دوبارہ کامیاب آغاز

سائنسدان سوئٹزرلینڈ اورفرانس کی سرحد پر100 میٹرگہری سرنگ میں کائنات کے رازوں کو سامنے لانے کیلئے تجربات کررہے ہیں

لارج ہیڈن کولائیڈر کو تجربہ گاہ میں پہلی کوشش کےمقابلےدوگنا زیادہ رفتارسےٹکرایا گیا جس کی رفتار13 ٹیرا الیکٹروواٹ تھی فوٹو فائل

انسانی حیات کی ابتدا کب ہوئی اور وہ کون سے عناصر تھے جو حیات کی ابتدا کا سبب بنے اس راز کو جاننے کے لے ماہرطبیعات کئی کوششیں کر چکے اور 2 سال قبل وجود میں آنے والا حیرت انگیز لارج ہیڈرون کولائیڈر' (ایل ایچ سی) اسی سلسلے کی کڑی تھی لیکن کچھ تکنیکی خرابی کی وجہ سے اسے بند کردیا گیا تھا تاہم اب 2 سال کے وقفے کے بعد اس کے ذریعے سائنسی تحقیق کا عمل دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے حیات کی ابتدا کے لیے تیار کردہ لارج ہیڈن کولائیڈر(ایل ایچ سی) کو تجربہ گاہ میں اس بار 2013 میں کی گئی پہلی کوشش کے مقابلے دوگنا زیادہ رفتار سے ٹکرایا گیا جس کی رفتار 13 ٹیرا الیکٹروواٹ تھی جب کہ پہلی کوشش میں ذرات کو 7 ٹیرا الیکٹرو واٹ سے ٹکرایا گیا تھا۔ اس کامیاب کوشش پریورپین آرگنائزیشن فار نیوکلیر ریسرچ (سرن) کے سائنسدانوں کو کہنا ہے کہ اس رفتار ٹکرانے سے یہ امید ہوچلی ہے کہ جلد حیات کے ابتدا کے بارے میں کئی رازوں سے پردہ اٹھ سکے گا جب کہ اب وہ ڈیٹا کی اس پہلی قسط کے منتظر ہیں جو انہیں اس سائنسی لیبارٹری میں بنے ہوئے متوازی پائپوں میں ذرات کے ٹکراؤ سے حاصل ہونے والا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امید ہے کہ اس سے انہیں اسٹینڈرز ماڈل سے ہٹ کر 'نئی طبیعیات' کی جھلک دکھائی دے گی۔

سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر 100 میٹر کی گہرائی میں بنائی گئی 27 کلومیٹر طویل سرنگ میں قائم لارج ہیڈرون کولائیڈر میں سائنسدان ابتدائے کائنات کے رازوں کو سامنے لانے کے لیے ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس عنصر کی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے تخلیق کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکےگا۔ گزشتہ روزہونے والے ٹکراؤ میں شعاعوں کی توانائی 13 کھرب الیکٹرو وولٹس تک بڑھائی گئی جب کہ ایل ایچ سی کے پہلے آپریشن میں یہ 8 کھرب الیکٹرو وولٹس تھی۔ تجربے کے دوران کولائیڈر میں اربوں پروٹونز کو روشنی کی رفتار سے مخالف سمت سفر کرنے دیا گیا یہاں تک کہ طاقتور مقناطیس نے اس میں موجود بیمز کو موڑ دیا اور وہ اس راستے کے دوران ایسے نقطے پر ٹکرا گئے یہاں موجود 4 لیبارٹریز نے ان کے ٹکراؤ کو ریکارڈ کرلیا جو تحقیق میں مدد گارہوں گے۔


کامیاب ابتدا پر ایل ایچ سی کے نگران ادارے سرن کے سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹر جنرل رالف دائتر ہیوئر نے انجینیئروں اور سائنسدانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا یہ ایک شاندار نتیجہ ہےتاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ اس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا صحیح نہیں ہوگا کیوں کہ بھر پور نتائج کے لے طویل انتظار کی ضرورت ہے۔ سرن میں تحقیق کے شعبے کے سربراہ سرجیو برتولوسی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین جہاز اور بہترین عملہ ہے اور ہم اب نئے سفر پر نکلنے کے لیے تیار ہیں جب کہ ہم اس سفر کے دوران ایک وسیع ان دیکھے علاقے میں جا رہے ہیں اور بہت سی دلچسپ اور حیران کین چیزیں ہماری منتظر ہو سکتی ہیں۔

اس سے قبل جولائی 2012 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں 'لارج ہیڈرون کولائیڈر' منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں نے ہگس بوسون یا 'گاڈ پارٹیكل' جیسے ذرے کی دریافت کا دعویٰ کیا تھا۔ ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا 'سب اٹامک' ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ سائنسدان گذشتہ 45 برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے اور اس دریافت کا اعلان جنیوا میں ایل ایچ سی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے کیا۔ ہگس بوسون کی تھیوری کے خالق نوبل انعام یافتہ پروفیسر پیٹر ہگس ہیں جنہوں نے 60 کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔

سرن کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں ایٹم کے تصوراتی سرحدوں یعنی نئی طبیعات پر تحقیق کی جائے گی جس میں اینٹی میٹر اور ڈارک میٹر شامل ہیں۔

 
Load Next Story