مداخلت کے ثبوت ہیں بھارت خبردار رہے

بلوچستان میں مستونگ سانحہ نے انسانی ہلاکتوں کے ایک اندوہ ناک زاویے اور رخ کی طرف قومی قائدین کی توجہ مبذول کرائی ہے


Editorial June 04, 2015
دہشت گردی کالی آندھی کی طرح ہے، آج پاکستان اس کی لپیٹ میں ہے ، کل دوسرا ملک اس کی زد میں آسکتا ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: ملک کو درپیش موجودہ چیلنجز میں دہشت گردی اور بلوچستان کی صورتحال اگرچہ سر فہرست ہے ، تاہم دنیا نے ان صبر آزما اور اعصاب شکن مرحلہ میں قوم کو جس ثابت قدمی سے سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا منظر دیکھا ہے وہ کسی سیاسی و تزویراتی نعمت سے کم نہیں۔ ان چیلنجز نے قوم کو ایک طرف نیا حوصلہ بخشا جب کہ دوسری جانب جمہوری عمل آزمائشوں ، تجربات اور تعمیری جمہوری کوششوں کے باعث منزل کی طرف سرگرم سفر ہے ۔

بادی النظر میں ان دو اہم ایشوز سے جڑے دیگر سماجی، معاشی اور خارجی امور ہیں جن پر حکومت سیاسی اتفاق رائے اور قومی یکجہتی کے حصول کو مد نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ بلوچستان کے حوالہ سے عالمی قوتوں کے عزائم اور بعض ملک دشمن عناصر کی بھارت سے گٹھ جوڑ کے گہرے ادراک کے بعد سیاسی سطح پر خطے میں قومی سلامتی کی جنگ ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔

بلوچستان میں مستونگ سانحہ نے انسانی ہلاکتوں کے ایک اندوہ ناک زاویے اور رخ کی طرف قومی قائدین کی توجہ مبذول کرائی ہے جس سے بد طینت عناصر فائدہ اٹھانے کی تاک میں لگے ہوئے ہیں ، ادھر بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' اور دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کی مداخلت کے شواہد اور زمینی حقائق نے سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک مضبوط اور مستحکم لڑی میں پرو دیا ہے اور اسی مشترکہ مقصد کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔

وزیراعظم نوازشریف نے مستونگ واقعے کو انتہائی المناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پوری قوم کو صدمہ پہنچا ہے، پاکستان کے دشمن ملکی ترقی سے خوش نہیں ہیں، وہ اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اقتصادی راہداری منصوبے پر بھارتی اعتراض پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرز عمل نے بھارت کے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے عزائم کو آشکار کردیا ہے۔

گورنر ہاؤس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان ترقی کی راہ پر چڑھتا ہے، رکاوٹیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اجلاس میں گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، وزیر مملکت برائے پٹرولیم جام کمال، محمود اچکزئی، صوبائی وزیر ثنا اللہ زہری، وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ، آئی جی بلوچستان، آئی جی ایف سی اور دیگر اعلیٰ سرکاری افسروں نے شرکت کی۔

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض سیاسی و نان اسٹیٹ بزرجمہر اس نکتہ پر اصرار کرتے ہیں کہ غیر ملکی ہاتھ کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی ہورہا ہے جب کہ حکومت کو اصل دشمنوں تک رسائی کے لیے حکمت عملی کو مزید موثر بنانا چاہیے تاکہ مستونگ واقعہ کے ملزمان قانون کے کٹہرے میں لائے جاسکیں۔

مسئلہ یوں نہیں بلکہ بلوچستان کی اس سے قبل کی شورشوں میں بھی بھارتی درپردہ مداخلت دہشتگردی و تخریب کاری کی شکل میں جاری تھی، 3 دسمبر2013 ء کو وکی لیکس کے ذریعے منکشف ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے اراکین پارلیمنٹ کو ایک بریفنگ میں بھارتی مداخلت سے آگاہ کیا، یہی رپورٹ سابق مشیر قومی سلامتی کونسل جنرل محمود علی اسد نے امریکی حکام سے شیئر کی تھی، سابق صدر پرویز مشرف نے ستمبر2007 ء کو امریکا سے کہا تھا کہ وہ کابل اور نئی دہلی کو بلوچستان کی صورتحال میں ملوث ہونے سے روکنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے ۔

پاکستان شرم الشیخ کانفرنس میں بھی سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن کو بلوچستان میں بھارتی رخنہ اندازی کے ثبوت دے چکا تھا، امریکی کانگریس اور سینیٹ کے اراکین کھل کر آزاد بلوچستان کاز کی حمایت کرتے ہیں، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گوادر پورٹ کو فنکشنل نہ ہوتے دیکھنے کی خواہش میں ہمارے ایک دوست ملک سمیت روس اور بھارت بلوچستان میں دہشت گردوں کی مدد کرتے رہے ہیں، گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی وزراء کے اقتصادی راہداری اور دیگر معاملات پر بیانات کو امن کے لیے خطرہ قراردیا، وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ فاٹا میں ''را'' کی مداخلت کے ثبوت موجود ہیں۔ آخر بھارتی حکمران حقائق اور سچ سے کب تک دامن چھڑاتے رہیں گے۔

اقتصادی راہداری خطے کے مفاد میں ہے، لیکن بھارت کا فرمان ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری قبول نہیں، یہ خطے میں بالادستی و طاقت کے گمراہ کن غرور اور پندار سیاست کی کج فہمی نہیں تو کیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے دوطرفہ تعلقات، دہشت گردوں سے مشترکہ طور پر نمٹنے اور پائیدار امن کے قیام کی خواہش کو اس کی کمزوری پر محمول کیا جائے۔ بھارتی حکومت کو اپنی توجہ پاک چین اقتصادی راہداری پر مرکوز کرنے کے بجائے خطے میں غربت کم کرنے پر دینی چاہیے، کلدیب نیئر نے اپنے حالیہ کالم میں ''مودی کا عدم اقتدار'' کے استعاراتی عنوان کے تحت لکھا ہے کہ عام آدمی اتنے نقصان میں کبھی نہیں تھا جتنا آج (مودی سرکار ) میں ہے۔

کوئٹہ میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت آل پارٹیز کانفرنس کے جاری کردہ اعلامیے میں سانحہ مستونگ کی مذمت واجب تھی، جس میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے درست پیغام دیا گیا کہ سیاسی اور عسکری قیادت ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہ صرف پرعزم بلکہ ایک پیج پر ہیں، دہشت گردی اور دہشت گردوں کے مکمل خاتمے پر مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔

قبل ازیں پاکستان نے اقتصادی راہداری پر بھارت کی مخالفت کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ پاک چین تعلقات میں مداخلت نہ کرے، منگل کو وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پورے خطے کے عوام کی خوشحالی کے لیے ہے۔

اس پر بھارت کی تنقید اور تحفظات ناقابل قبول اور حیران کن ہیں، پاکستان دوسرے ممالک کے باہمی تعلقات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے اور وہ دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں مداخلت نہیں کرینگے۔کوئٹہ اعلامیہ کے مطابق ملک دشمن قوتیں اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر بلوچستان کے حالات خراب کر رہی ہیں ۔ اقتصادی راہداری پاکستان دشمنوں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے اوروہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔

یہ وہ حقائق ہیں جن سے انکار حقیقت سے انکار کے مترادف ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو پاکستان کے داخلی معاملات خاص طور پر بلوچستان میں مداخلت سے گریز کرتے ہوئے جامع مذاکرات کی میز کی طرف آنا چاہیے۔ دہشت گردی کالی آندھی کی طرح ہے، آج پاکستان اس کی لپیٹ میں ہے ، کل دوسرا ملک اس کی زد میں آسکتا ہے۔بلاشبہ یہ ملکی قیادت کی صائب حکمت عملی تھی جس کے نتیجہ میں سانحہ مستونگ بلوچستان میں صدیوں سے مل جل کر رہنے والی برادر اقوام اور قبائل کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی سازش صوبے کے عوام نے باہمی اتحاد و اتفاق کے ذریعے ناکام بنا دی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔