خیبرپختونخوا میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات کا چیلنج
دھاندلی کو روکنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن امن وامان کو قائم رکھنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔
گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شدید بدنظمی، ہنگامہ آرائی اور دھاندلی کی شکایات کے سبب انتخابات کے نتائج مشکوک ہوگئے ہیں۔
بلاشبہ تحریک انصاف نے صوبہ میں واضح اکثریت حاصل کی ہے لیکن یہ پی ٹی آئی کی جماعت ہی تھی جو عام انتخابات 2013ء کے نتائج کو مسترد کرکے دھاندلی کا شور کرتی آئی ہے، اس تناظر میں مختلف حلقوں کا خیال ہے کہ شدید بدنظمی میں ہونے والے خیبر پختونخوا کے متنازع بلدیاتی انتخابات پی ٹی آئی کے گلے پڑ گئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔
عمران خان نے دھاندلی کے الزامات پر خیبرپختونخوا میں دوبارہ انتخابات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے، ہم جیتنے کے باوجود عدالت میں چیلنج نہیں کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات جتنا بڑا الیکشن پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا، کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں 84 ہزار امیدواروں نے حصہ لیا، 41 ہزار منتخب ہوئے، اس سے پہلے اتنی بڑی جمہوریت پاکستان میں نہیں آئی، بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کی خبریں سن کر افسوس ہوا، جماعت اسلامی نے ہماری اتحادی جماعت ہونے کے باوجود خیبر پختونخوا میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں، ہم بلدیاتی انتخابات میں جیتے ہیں، اس کے باوجود عدالت میں چیلنج نہیں کریں گے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو اس بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے، اگر دھاندلی ہوئی ہے تو دوبارہ الیکشن کی تیاری کا اعلان خوش آیند ہے، نئے پاکستان اور تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی ایک عرصہ سے عام انتخابات 2013ء کی شفافیت پر انگلی اٹھاتی آئی ہے اور مذکورہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پارٹی پر جو دھبہ لگا ہے اسے راست اقدامات سے دور کرنا ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں دھاندلی کی سب سے زیادہ شکایات جماعت اسلامی کو ہیں اور وہ پی ٹی آئی کی اتحادی بھی ہے۔ عمران خان کی یہ بات قابل دید ہے کہ وہ دوبارہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کے لیے تیار ہیں، لیکن اس سمت بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے فرسودہ نظام میں دھاندلی کے امکانات زیادہ ہیں، ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے انتخابی نظام کو اپنانا ہوگا۔ جب تک سسٹم نہیں بدلے گا، بائیو میٹرک سسٹم نہیں ہوگا دھاندلی کا شور مچتا رہے گا، آیندہ عام انتخابات سے قبل ہی اس سمت میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عین وقت پر وسائل اور وقت کی کمی کا رونا نہ رویا جائے۔ کے پی کے میں دوران انتخابات جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ نہایت افسوسناک ہے۔
دھاندلی کو روکنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن امن وامان کو قائم رکھنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ پی کے 95 دیر میں دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو بہت اچھی بات ہے کیونکہ وہاں پر خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیے گئے تھے، اس امر کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فرسودہ روایات کا سہارا لے کر خواتین کو ان کے حق رائے دہی سے محروم نہ کیا جائے۔
نیز سندھ اور پنجاب میں اب تک بلدیاتی انتخابات کا اعادہ نہیں کیا گیا ہے، بلدیاتی نظام عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے، تمام صوبوں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، سندھ و پنجاب بھی انتخابات سے قبل ضروری اقدامات کریں تاکہ کسی بھی قسم کی دھاندلی کی شکایات کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کیا جاسکے۔
بلاشبہ تحریک انصاف نے صوبہ میں واضح اکثریت حاصل کی ہے لیکن یہ پی ٹی آئی کی جماعت ہی تھی جو عام انتخابات 2013ء کے نتائج کو مسترد کرکے دھاندلی کا شور کرتی آئی ہے، اس تناظر میں مختلف حلقوں کا خیال ہے کہ شدید بدنظمی میں ہونے والے خیبر پختونخوا کے متنازع بلدیاتی انتخابات پی ٹی آئی کے گلے پڑ گئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔
عمران خان نے دھاندلی کے الزامات پر خیبرپختونخوا میں دوبارہ انتخابات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے، ہم جیتنے کے باوجود عدالت میں چیلنج نہیں کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات جتنا بڑا الیکشن پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا، کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں 84 ہزار امیدواروں نے حصہ لیا، 41 ہزار منتخب ہوئے، اس سے پہلے اتنی بڑی جمہوریت پاکستان میں نہیں آئی، بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کی خبریں سن کر افسوس ہوا، جماعت اسلامی نے ہماری اتحادی جماعت ہونے کے باوجود خیبر پختونخوا میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں، ہم بلدیاتی انتخابات میں جیتے ہیں، اس کے باوجود عدالت میں چیلنج نہیں کریں گے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو اس بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے، اگر دھاندلی ہوئی ہے تو دوبارہ الیکشن کی تیاری کا اعلان خوش آیند ہے، نئے پاکستان اور تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی ایک عرصہ سے عام انتخابات 2013ء کی شفافیت پر انگلی اٹھاتی آئی ہے اور مذکورہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پارٹی پر جو دھبہ لگا ہے اسے راست اقدامات سے دور کرنا ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں دھاندلی کی سب سے زیادہ شکایات جماعت اسلامی کو ہیں اور وہ پی ٹی آئی کی اتحادی بھی ہے۔ عمران خان کی یہ بات قابل دید ہے کہ وہ دوبارہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کے لیے تیار ہیں، لیکن اس سمت بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے فرسودہ نظام میں دھاندلی کے امکانات زیادہ ہیں، ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے انتخابی نظام کو اپنانا ہوگا۔ جب تک سسٹم نہیں بدلے گا، بائیو میٹرک سسٹم نہیں ہوگا دھاندلی کا شور مچتا رہے گا، آیندہ عام انتخابات سے قبل ہی اس سمت میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عین وقت پر وسائل اور وقت کی کمی کا رونا نہ رویا جائے۔ کے پی کے میں دوران انتخابات جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ نہایت افسوسناک ہے۔
دھاندلی کو روکنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن امن وامان کو قائم رکھنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ پی کے 95 دیر میں دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو بہت اچھی بات ہے کیونکہ وہاں پر خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیے گئے تھے، اس امر کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فرسودہ روایات کا سہارا لے کر خواتین کو ان کے حق رائے دہی سے محروم نہ کیا جائے۔
نیز سندھ اور پنجاب میں اب تک بلدیاتی انتخابات کا اعادہ نہیں کیا گیا ہے، بلدیاتی نظام عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے، تمام صوبوں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، سندھ و پنجاب بھی انتخابات سے قبل ضروری اقدامات کریں تاکہ کسی بھی قسم کی دھاندلی کی شکایات کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کیا جاسکے۔