انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان کیوں

سادہ لوح عوام کو فرقہ اور زبان کی بنیاد پر جذباتی کر کے ان سے عطیات وصول کیے جاتے ہیں،

jabbar01@gmail.com

آج سے دو سال پہلے کی بات ہے میں جس علاقے میں رہائش پذیر ہوں اس علاقے میں ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا، اس تنظیم کا تعلق ایک مسلکی گروہ سے تھا۔ میں عموماً جلسے جلوس کی سرگرمیوں سے دور رہتا ہوں، سیاست سے عدم دلچسپی کے باوجود نہ جانے کیوں میرے ذہن میں یہ خیال اور تجسس بیدار ہوا کہ اس جلسے میں شرکت کی جانی چاہیے تا کہ اس نوعیت کی تنظیموں کا نکتہ نظر سامنے آئے اور غلط یا درست ہونے کا تعین کیا جا سکے۔

اسی خیال سے جلسہ گاہ پہنچ گیا، میں نے دیکھا کہ نصف درجن سے زائد مقررین اسٹیج پر موجود تھے جو بھی مقرر تقریر کرنے آئے انھوں نے مسلک کے دفاع اور تحفظ کے حوالے سے تقاریر کیں اور مخالف مسلک اور ان کی سرگرمیوں کی مخالفت کی بلکہ انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایک مقرر تقریر کرنے آئے انھوں نے بڑے فخریہ انداز میں اپنی ذاتی جد وجہد کو عوام الناس کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا ''میرے دادا نے تحفظ مسلک کی خاطر جان دی اور اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ میرے والد نے مسلک کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ان کا خون کراچی کی فلاں سڑک پر بہایا گیا، اب انشاء اﷲ میں دفاع مسلک کی خاطر اپنی جان کی قربانی دوں گا، میرا خون بھی بہایا جائے گا، میرے بعد میرا بیٹا اپنے دادا اور باپ کا مشن پورا کرے گا اور اپنے خون کا نذرانہ پیش کرے گا۔

میں ان محترم مقرر کی تقریر سن رہا تھا نہ جانے کیوں میرا ذہن کراچی اور ملک کے دیگر شہروں کے اسپتالوں میں ان ہزاروں مریضوں کی جانب چلا گیا جو خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ غریب لوگ اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے ہر ایک سے خون کا عطیہ دینے کی اپیل کرتے ہیں لیکن انھیں خون کی ایک بوتل کا عطیہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔

سوچتا ہوں ہم کیسے لوگ ہیں جو خون کی ایک بوتل عطیہ نہیں کرتے لیکن فرقہ پرستی اور لسانیت کے تحفظ کے نام پر خون کے دریا اور نہریں بہانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں، کیوں؟ میرے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہے کہ ملک کی اکثریت بھوک، افلاس، غربت، جہالت اور بے روزگاری کا شکار ہے۔

ایسے حالات میں ہمیں اس جانب توجہ دینی چاہیے تا کہ زندگی کو خوشحال بنایا جا سکے لیکن ہم ایسا نہیں کرتے کیوں ہم زندگی سے پیار کرنے اور اسے خوبصورت بنانے کے بجائے موت سے پیار کرتے ہیں۔ ہم طبعی موت کے بجائے غیر طبعی موت مرنا چاہتے ہیں کیوں یہ وہ سوالات تھے جن کے جوابات کوشش کے باوجود مجھے نہ مل سکے میں آج بھی ان کے جوابات کی تلاش میں ہوں۔ اس ضمن میں عموماً ایک بات کی جاتی ہے کہ فرقہ پرستی اور لسانیت کا پرچار دراصل عطیات اور فنڈز کے حصول کی لڑائی ہے۔


سادہ لوح عوام کو فرقہ اور زبان کی بنیاد پر جذباتی کر کے ان سے عطیات وصول کیے جاتے ہیں، پس پردہ بیرونی قوتیں بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسی سرگرمیاں اختیار کرتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو اگر یہ بات درست ہے تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالمی سیاست مفادات کے تابع ہوتی ہے وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں ان کے معاملات پر اعتراض میری رائے میں بے معنی ہے، اس معاملے میں ہمیں اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے کہ ہم نے سازشی عناصر کے تدارک کے لیے کیا عملی اقدامات کیے اور سازش کو کس طرح ناکام بنایا۔

شہنشاہ اکبر کے زمانے میں بشریات Anthropology کا ایک انوکھا تجربہ کیا گیا کچھ شیر خوار بچوں کو ان کے والدین اور انسانی ماحول سے علیحدہ کر کے اس طرح پرورش کی گئی کہ وہ کوئی انسانی زبان یا بولی نہ سن سکیں اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ انسان کی فطری زبان یا بولی معلوم کی جائے۔ اس تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ بچوں نے انسانی زبان کی کوئی بھی بولی یا زبان بولنی شروع نہیں کی اس تجربے نے یہ بات ثابت کر دیا کہ انسان کی فطری زبان کوئی نہیں، انسان کی کوئی فطری زبان نہیں، عجیب بات ہے کہ اس کے باوجود بعض لوگ زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں بلکہ نسلی تصادم کی صورت میں ایک دوسرے کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

میری ذاتی رائے میں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سائنسی انداز فکر کے بجائے جذباتی انداز فکر سے سوچتے ہیں، سائنسی انداز فکر ہمیں بتاتا ہے کہ انسان جس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے اس ماحول سے متعلق مسلک، زبان، لباس اور کلچر کو اپنا لیتا ہے یہ ایک فطری عمل ہے اس میں فرد واحد کا کوئی کردار نہیں ہوتا اس لیے مسلک اور زبان کی بنیاد پر دوسروں سے نفرت کرنا نہ صرف بے معنی بلکہ فہم سے بالاتر ہے۔

اس طرز عمل سے گریز کرنا چاہیے، ہمیں ایک مفکر کا یہ قول ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہمارے جسم سے کھال ہٹا دی جائے تو ہم سب اندر سے ایک ہی ہیں، سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا خاتمہ کیسے کیا جائے، میرے ایک دوست ہیں جو سیکولر مزاج رکھتے ہیں۔

ان کے نزدیک فرقہ واریت اور لسانیت کے بت اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ وہ سائنس دان جنھوں نے ایٹم کو توڑنے کا مشکل ترین عمل کو انجام دے کر ناممکن کام کو ممکن بنا کر انسانی تاریخ میں عظیم کارنامہ سر انجام دیا تھا وہ بھی دنیا میں آ کر اگر فرقہ واریت اور لسانیت کے بتوں کو توڑنے کی کوشش کریں گے تو وہ ناکامی سے دوچار ہوں گے، میرے دوست کے نزدیک اس کا ایک حل ہے جو لوگ فرقہ پرستی اور لسانیت کے حوالے سے ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھانا چاہتے ہیں انھیں حکومتی سطح پر کسی جزیرے پر بھیج دیا جائے جہاں وہ اپنی خواہش کی تکمیل کر سکیں اس طرح عوام الناس پر امن اور پر مسرت زندگی گزار سکیں گے۔

میرے نزدیک سیکولر عناصر کی یہ سوچ بھی انتہا پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمیں اس انداز فکر سے گریز کرنا چاہیے، اور انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے جو اسباب ہیں ہمیں اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس کا سب سے بڑا سبب ہمارا نظام تعلیم ہے۔ جو کئی سمتوں میں تقسیم ہے جو مختلف طبقات کو جنم دے رہا ہے، ایک طرف جامع مذہبیت ہے اور دوسری طرف سیکولر اور لادینی عناصر جب ہم معاشرے میں متصادم ذہن کے افراد میدان عمل میں اتاریں گے تو وہاں نہ صرف فکری انتشار ہو گا بلکہ تصادم بھی ہو گا، اس سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کے بارے میں یکسو ہو جائیں اور قوم کی تعلیم و تربیت کا ایک ایسا نظام وضع کر لیں جو دین اور دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو بالخصوص دین کے حوالے سے اسلام کی ظاہری حالت کے بجائے اس کی اصل روح یعنی تقویٰ اور انسان دوستی کے آفاقی پیغام کو نصاب کا حصہ بنائیں اس سے نہ صرف انتہا پسندی کا خاتمہ ہو گا، رواداری و یکجہتی بڑھے گی، بلکہ ہمارے دیگر مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
Load Next Story