الزامات نہیں اقدامات کی ضرورت ہے
18ویں آئینی ترمیم کے بعد بلدیات یا مقامی حکومتی نظام صوبوں کا صوابدیدی اختیار بن گیا ہے
KARACHI:
بلوچستان کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوگئے۔ اس موقعے پر جہاں ایک طرف صوبہ دہشت گردی سے محفوظ رہا۔ وہیں دوسری طرف ان انتخابات میں وہی خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں نظر آئیں ، جو گزشتہ45برس سے پاکستان کے انتخابی عمل کا حصہ چلی آرہی ہیں۔ قتل و غارت گری، طاقت کا اندھا استعمال اور ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات بھی حسب سابق جاری رہے۔
اس لیے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 40برس سے زائد عرصہ گذر جانے کے باوجود ہم خرابیوں، خامیوں اور کمزوریوں سے پاک انتخابی نظام تشکیل دینے میں کیوں ناکام ہیں۔ دوسرے ان صفحات پر بار بار اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ملک میں ایک متوازن اور یکساں مقامی حکومتی نظام کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں الگ نظام کا متعارف کرایا جانا پاکستان جیسے معاشرے میں نئی سیاسی و سماجی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے اس موضوع پر بھی گفتگو کرنا ضروری ہوگئی ہے۔سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں ہونے والے انتخابات پر گفتگو کیے لیتے ہیں۔ اس پہلو پر کئی بار گفتگو ہوچکی ہے کہ انتخابات چاہے عام ہوں یا بلدیاتی، پورے ملک یا پورے صوبے میں ایک روز کروانے سے گریز کرنا چاہیے ۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی روز انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن اور پورا انتظامی ڈھانچہ پورے صوبے میں چہار سو مصروف رہتا ہے۔ جب کہ مرحلہ وار انتخابات کرانے کی صورت میں الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کا ایک بڑا حصہ پوری توجہ، یک سوئی اور مناسب قوت کے ساتھ پیدا ہونے والی کسی نزاعی یا ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مستعد ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ گورننس کے ایشوز پر کام کرنے والی مقامی اور عالمی تنظیمیں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی، انھیں مرحلہ وار کرایا جانا چاہیے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ2001 اور 2005 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات مرحلہ وار ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ان انتخابات میں شکایات کی وہ شرح نہیں تھی، جو عام طور پر ہمارے یہاں انتخابات کا وتیرہ بن چکی ہے۔
پختونخوا میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کے ایک دوسرے پر مختلف الزامات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور خرابیوں کا تمام تر الزام الیکشن کمیشن کے سر تھوپ دیا ہے جس میں امن و امان کی مخدوش صورتحال بھی شامل ہے جب کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے پورے صوبے میں ایک ہی روز انتخابات کرانے کا فیصلہ تحریک انصاف کے دباؤ پر کیا ہے۔
دوسرے اس کی ذمے داری انتخابات کا انعقاد ہے، جس میں رہ جانے والے نقائص اور خامیاں اس کی ذمے داری ہیں جب کہ امن و امان کو کنٹرول میں رکھنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ لہٰذا اس بات میں دو رائے نہیں کہ امن و امان کی صورتحال میں پیدا ہونے والے کسی بھی قسم کے بگاڑ کی ذمے داریوں سے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو کسی بھی طور استثنیٰ حاصل نہیںہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فریقین اپنی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے حصے کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو قبول کریں۔
جہاں تک انتخابات کے انعقاد کا تعلق ہے، تو اب یہ طے ہوجانا چاہیے کہ انتخابات عام ہوں یا بلدیاتی انھیں کسی صورت ایک روز میں نہیں کرایا جائے، بلکہ مرحلہ وار ہونا چاہئیں جہاں تک عام انتخابات کا تعلق ہے تو ہر صوبے میں الگ تاریخوں میں انعقاد ہو۔ اسی طرح بلدیاتی انتخابات جو کہ ہر صوبے میں الگ شیڈول کے تحت ہوتے ہیں، وہ بھی مرحلہ وار کرائے جائیں۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد بلدیات یا مقامی حکومتی نظام صوبوں کا صوابدیدی اختیار بن گیا ہے۔اس لیے ہر صوبہ اپنی پسند اور مرضی کا بلدیاتی نظام رائج کرنے میں آزاد ہو چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب تک دو صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے مراحل مکمل ہوئے ہیں۔ لیکن ان دونوں صوبوں میں الگ الگ نظام رائج کیے گئے ہیں۔
بلوچستان نے جنرل ضیاء الحق کا 1979 میں متعارف کردہ بلدیاتی نظام بغیر کسی ترمیم و اضافہ، دوبارہ رائج کردیا ہے۔ یہ نظام کسی طور پر بھی مقامی حکومتی نظام نہیں کہلایا جاسکتا۔ البتہ KPK میں جو نظام لایا گیا ہے، وہ خاصی حد تک NRBکے متعارف کردہ نظام سے ملتا جلتا ہے۔ ابھی سندھ اور پنجاب سے اس نظام کا خاکہ منظر عام پر آنا باقی ہے۔ لیکن اندازہ یہ ہورہا ہے کہ ان دونوں صوبوں میں بھی ایسا کوئی نظام متعارف ہونے نہیں جا رہا، جسے حقیقی معنی میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی(Devolution of Power)کہا جاسکے۔ سندھ میں ایک سے زیادہ بلدیاتی نظام متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔ مگر ہر فارمولہ اختیارات کی تقسیم کے سوال پر باہمی اختلافات کی نذر ہوگیا۔ پنجاب سے بھی بااختیار مقامی حکومتی نظام کے متعارف کرائے جانے کی توقع نہیں ہے۔
لہٰذا محسوس ہو رہا ہے کہ جس انداز اور بے دلی کے ساتھ مقامی حکومتی نظام کو متعارف کرایا جا رہا ہے، اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے۔ خدشہ ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے یہ نظام ان پر بوجھ بن جائیں گے اور شاید یہی ہماری مقتدر سیاسی جماعتوں کی خواہش بھی ہے۔ ویسے بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں غیر سیاسی کے علاوہ سیاسی اشرافیہ بھی تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خواہشمند ہو، ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے متعارف کرائے جانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایک ایسا ملک جہاں حکمرانی اور معاشرے کے جمہوریائے (Democratise) جانے میں ان گنت رکاوٹیں درپیش ہوں، اس قسم کے اقدامات وفاقیت کے تصور کو فروغ دینے کے بجائے نظم حکمرانی کو مزید انتشار کا شکار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
لیکن ان تمام تحفظات کے باوجود ہمارا مقصد کسی بھی طور ملک میں شروع ہونے والے مقامی یا بلدیاتی نظام کی راہ میں روڑے اٹکانا یا اسے سبوتاژ کرنا نہیں ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ جو عمل شروع ہوا ہے، وہ نہ صرف جاری رہے، بلکہ ہر صوبے میں قائم ہونے والی مقامی حکومتیں اپنی چار سالہ آئینی مدت مکمل بھی کریں۔ لیکن متوقع خدشات سے آگہی دینا بھی ایک تجزیہ نگار کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ہمیں محض گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ جس انداز اور بے دلی کے ساتھ ہر صوبے میں یہ نظام شروع کیا گیا ہے، اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے۔
اس لیے پیش بندی کے طورپر ابھی سے ایک متوازن، تمام صوبوں کے لیے یکساں اور بااختیار مقامی حکومتی نظام کا خاکہ(Blueprint)کی تیاری کوئی غلط اقدام نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ بات ریاستی منصوبہ سازوں کو ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان میں ایک ایسے مقامی حکومتی نظام کو رائج کرنے کی ضرورت ہے، جو بے شک 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کا صوابدیدی اختیار ہو۔ لیکن پورے ملک میں یکساں اور اپنی نوعیت میں با اختیارہو۔ با اختیاریت سے مراد سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیار ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ریاستی انتظامی ڈھانچے کو دو درجات(Two tier)کے بجائے تین درجاتی (Three tier) ڈھانچہ میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ جب تک یہ مقاصد پورے نہیں ہوتے مقامی حکومتی نظام کا تصور مکمل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ فیڈرل پبلک سروسز کمیشن اور صوبائی سروسز کمیشن کی طرز پر میونسپل سروسز کمیشن کی تشکیل بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ ایسے افسران اور اہلکار تیار کرنے کی بھی ضرورت ہے، جو مقامی سطح پر ترقیاتی سرگرمیوں کا ادراک کرتے ہوئے انھیں حل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔
اب ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نظر آنے والی خامیوں، خرابیوں اور کمزوریوں کی جانب آتے ہیں۔ یہ وہ دیکھنے میں آئی ہیں، جو گزشتہ40 برس سے وطن عزیز میں ہونے والے ہر انتخابی عمل میں دیکھنے میں آتی رہی ہیں۔ مگر انھیں کم یا ختم کرنے پر کبھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی جاسکی ہے۔ گزشتہ برس تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے کئی ماہ تک اسلام آباد میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف دھرنا بھی دیا۔ اس وقت ایک عدالتی کمیشن ان دھاندلیوں کی تحقیق و تفتیش میں مصروف ہے۔
یہ مسئلہ عدالتی کمیشنوں کی تشکیل اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے حل نہیں ہونے کا۔ بلکہ جب تک پارلیمان سیاسی ویژن اور عزم کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا نہیں اٹھاتی، اس کے حل ہونے کا کوئی خاص امکان نظر نہیں آتا۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ انتخابی عمل کو حقیقت پسندانہ انداز میں بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اس 31رکنی کمیشن کو فعال بنانے کی کوشش کی جائے جو گزشتہ برس انتخابی اصلاحات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور اس وقت تقریباً غیر فعال ہے۔
بلوچستان کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوگئے۔ اس موقعے پر جہاں ایک طرف صوبہ دہشت گردی سے محفوظ رہا۔ وہیں دوسری طرف ان انتخابات میں وہی خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں نظر آئیں ، جو گزشتہ45برس سے پاکستان کے انتخابی عمل کا حصہ چلی آرہی ہیں۔ قتل و غارت گری، طاقت کا اندھا استعمال اور ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات بھی حسب سابق جاری رہے۔
اس لیے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 40برس سے زائد عرصہ گذر جانے کے باوجود ہم خرابیوں، خامیوں اور کمزوریوں سے پاک انتخابی نظام تشکیل دینے میں کیوں ناکام ہیں۔ دوسرے ان صفحات پر بار بار اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ملک میں ایک متوازن اور یکساں مقامی حکومتی نظام کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں الگ نظام کا متعارف کرایا جانا پاکستان جیسے معاشرے میں نئی سیاسی و سماجی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے اس موضوع پر بھی گفتگو کرنا ضروری ہوگئی ہے۔سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں ہونے والے انتخابات پر گفتگو کیے لیتے ہیں۔ اس پہلو پر کئی بار گفتگو ہوچکی ہے کہ انتخابات چاہے عام ہوں یا بلدیاتی، پورے ملک یا پورے صوبے میں ایک روز کروانے سے گریز کرنا چاہیے ۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی روز انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن اور پورا انتظامی ڈھانچہ پورے صوبے میں چہار سو مصروف رہتا ہے۔ جب کہ مرحلہ وار انتخابات کرانے کی صورت میں الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کا ایک بڑا حصہ پوری توجہ، یک سوئی اور مناسب قوت کے ساتھ پیدا ہونے والی کسی نزاعی یا ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مستعد ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ گورننس کے ایشوز پر کام کرنے والی مقامی اور عالمی تنظیمیں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی، انھیں مرحلہ وار کرایا جانا چاہیے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ2001 اور 2005 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات مرحلہ وار ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ان انتخابات میں شکایات کی وہ شرح نہیں تھی، جو عام طور پر ہمارے یہاں انتخابات کا وتیرہ بن چکی ہے۔
پختونخوا میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کے ایک دوسرے پر مختلف الزامات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور خرابیوں کا تمام تر الزام الیکشن کمیشن کے سر تھوپ دیا ہے جس میں امن و امان کی مخدوش صورتحال بھی شامل ہے جب کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے پورے صوبے میں ایک ہی روز انتخابات کرانے کا فیصلہ تحریک انصاف کے دباؤ پر کیا ہے۔
دوسرے اس کی ذمے داری انتخابات کا انعقاد ہے، جس میں رہ جانے والے نقائص اور خامیاں اس کی ذمے داری ہیں جب کہ امن و امان کو کنٹرول میں رکھنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ لہٰذا اس بات میں دو رائے نہیں کہ امن و امان کی صورتحال میں پیدا ہونے والے کسی بھی قسم کے بگاڑ کی ذمے داریوں سے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو کسی بھی طور استثنیٰ حاصل نہیںہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فریقین اپنی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے حصے کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو قبول کریں۔
جہاں تک انتخابات کے انعقاد کا تعلق ہے، تو اب یہ طے ہوجانا چاہیے کہ انتخابات عام ہوں یا بلدیاتی انھیں کسی صورت ایک روز میں نہیں کرایا جائے، بلکہ مرحلہ وار ہونا چاہئیں جہاں تک عام انتخابات کا تعلق ہے تو ہر صوبے میں الگ تاریخوں میں انعقاد ہو۔ اسی طرح بلدیاتی انتخابات جو کہ ہر صوبے میں الگ شیڈول کے تحت ہوتے ہیں، وہ بھی مرحلہ وار کرائے جائیں۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد بلدیات یا مقامی حکومتی نظام صوبوں کا صوابدیدی اختیار بن گیا ہے۔اس لیے ہر صوبہ اپنی پسند اور مرضی کا بلدیاتی نظام رائج کرنے میں آزاد ہو چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب تک دو صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے مراحل مکمل ہوئے ہیں۔ لیکن ان دونوں صوبوں میں الگ الگ نظام رائج کیے گئے ہیں۔
بلوچستان نے جنرل ضیاء الحق کا 1979 میں متعارف کردہ بلدیاتی نظام بغیر کسی ترمیم و اضافہ، دوبارہ رائج کردیا ہے۔ یہ نظام کسی طور پر بھی مقامی حکومتی نظام نہیں کہلایا جاسکتا۔ البتہ KPK میں جو نظام لایا گیا ہے، وہ خاصی حد تک NRBکے متعارف کردہ نظام سے ملتا جلتا ہے۔ ابھی سندھ اور پنجاب سے اس نظام کا خاکہ منظر عام پر آنا باقی ہے۔ لیکن اندازہ یہ ہورہا ہے کہ ان دونوں صوبوں میں بھی ایسا کوئی نظام متعارف ہونے نہیں جا رہا، جسے حقیقی معنی میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی(Devolution of Power)کہا جاسکے۔ سندھ میں ایک سے زیادہ بلدیاتی نظام متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔ مگر ہر فارمولہ اختیارات کی تقسیم کے سوال پر باہمی اختلافات کی نذر ہوگیا۔ پنجاب سے بھی بااختیار مقامی حکومتی نظام کے متعارف کرائے جانے کی توقع نہیں ہے۔
لہٰذا محسوس ہو رہا ہے کہ جس انداز اور بے دلی کے ساتھ مقامی حکومتی نظام کو متعارف کرایا جا رہا ہے، اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے۔ خدشہ ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے یہ نظام ان پر بوجھ بن جائیں گے اور شاید یہی ہماری مقتدر سیاسی جماعتوں کی خواہش بھی ہے۔ ویسے بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں غیر سیاسی کے علاوہ سیاسی اشرافیہ بھی تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خواہشمند ہو، ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے متعارف کرائے جانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایک ایسا ملک جہاں حکمرانی اور معاشرے کے جمہوریائے (Democratise) جانے میں ان گنت رکاوٹیں درپیش ہوں، اس قسم کے اقدامات وفاقیت کے تصور کو فروغ دینے کے بجائے نظم حکمرانی کو مزید انتشار کا شکار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
لیکن ان تمام تحفظات کے باوجود ہمارا مقصد کسی بھی طور ملک میں شروع ہونے والے مقامی یا بلدیاتی نظام کی راہ میں روڑے اٹکانا یا اسے سبوتاژ کرنا نہیں ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ جو عمل شروع ہوا ہے، وہ نہ صرف جاری رہے، بلکہ ہر صوبے میں قائم ہونے والی مقامی حکومتیں اپنی چار سالہ آئینی مدت مکمل بھی کریں۔ لیکن متوقع خدشات سے آگہی دینا بھی ایک تجزیہ نگار کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ہمیں محض گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ جس انداز اور بے دلی کے ساتھ ہر صوبے میں یہ نظام شروع کیا گیا ہے، اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے۔
اس لیے پیش بندی کے طورپر ابھی سے ایک متوازن، تمام صوبوں کے لیے یکساں اور بااختیار مقامی حکومتی نظام کا خاکہ(Blueprint)کی تیاری کوئی غلط اقدام نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ بات ریاستی منصوبہ سازوں کو ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان میں ایک ایسے مقامی حکومتی نظام کو رائج کرنے کی ضرورت ہے، جو بے شک 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کا صوابدیدی اختیار ہو۔ لیکن پورے ملک میں یکساں اور اپنی نوعیت میں با اختیارہو۔ با اختیاریت سے مراد سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیار ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ریاستی انتظامی ڈھانچے کو دو درجات(Two tier)کے بجائے تین درجاتی (Three tier) ڈھانچہ میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ جب تک یہ مقاصد پورے نہیں ہوتے مقامی حکومتی نظام کا تصور مکمل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ فیڈرل پبلک سروسز کمیشن اور صوبائی سروسز کمیشن کی طرز پر میونسپل سروسز کمیشن کی تشکیل بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ ایسے افسران اور اہلکار تیار کرنے کی بھی ضرورت ہے، جو مقامی سطح پر ترقیاتی سرگرمیوں کا ادراک کرتے ہوئے انھیں حل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔
اب ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نظر آنے والی خامیوں، خرابیوں اور کمزوریوں کی جانب آتے ہیں۔ یہ وہ دیکھنے میں آئی ہیں، جو گزشتہ40 برس سے وطن عزیز میں ہونے والے ہر انتخابی عمل میں دیکھنے میں آتی رہی ہیں۔ مگر انھیں کم یا ختم کرنے پر کبھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی جاسکی ہے۔ گزشتہ برس تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے کئی ماہ تک اسلام آباد میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف دھرنا بھی دیا۔ اس وقت ایک عدالتی کمیشن ان دھاندلیوں کی تحقیق و تفتیش میں مصروف ہے۔
یہ مسئلہ عدالتی کمیشنوں کی تشکیل اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے حل نہیں ہونے کا۔ بلکہ جب تک پارلیمان سیاسی ویژن اور عزم کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا نہیں اٹھاتی، اس کے حل ہونے کا کوئی خاص امکان نظر نہیں آتا۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ انتخابی عمل کو حقیقت پسندانہ انداز میں بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اس 31رکنی کمیشن کو فعال بنانے کی کوشش کی جائے جو گزشتہ برس انتخابی اصلاحات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا اور اس وقت تقریباً غیر فعال ہے۔