جعلی کاروبار
کیا قانون کے احترام کے حوالے سے ان ملکوں کے ڈگری خریداروں کو یہ علم نہیں تھا کہ جعلی ڈگریاں خریدنا سنگین جرم ہے۔
HYDERABAD:
پچھلے دو تین ہفتوں سے ہمارے میڈیا کا مرکزی موضوع ایگزیکٹ اسکینڈل رہا ہے، ویسے تو ہماری تاریخ اسکینڈلوں سے بھری ہوئی ہے لیکن جو ''شہرت'' ایگزیکٹ اسکینڈل کو حاصل ہوئی، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
اس اسکینڈل کو اس قدر شہرت ملنے کی ایک وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ جعلی ڈگریوں کا کام اس قدر بڑے اور وسیع پیمانے پر ہوا کہ پاکستان کی نہ صرف قومی سطح پر بدنامی ہوئی بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ اسکینڈل پاکستان کی رسوائی کا سبب بنا۔ امریکا کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز نے اس حوالے سے کہا ہے کہ یہ تسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا کہ برسوں پر پھیلے ہوئے اس عالمی سطح کے اسکینڈل سے حکومت پاکستان لاعلم رہی ہو؟ یہ سوال بلاشبہ منطقی ہے لیکن جس ملک میں اسامہ بن لادن جیسا عالمی دہشت گرد ایبٹ آباد جیسے بڑے شہر کے ایک وسیع مکان میں بمعہ فیملی کے برسوں رہائش پذیر رہا اور حکومت اس سے بے خبر رہی اس ملک میں ایگزیکٹ اسکینڈل سے بے خبری حیرت انگیز نہیں ہوسکتی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے جعلساز بھی کوئی جعلسازی کرتے ہیں تو ہر ممکن احتیاط برتتے ہیں ایگزیکٹ نے جس قدر بڑے پیمانے پر یہ جعل سازی کا کام انجام دیا، اس نے اس قدر بے احتیاطی کا مظاہرہ کیوں کیا۔
اس ادارے میں ماہانہ کروڑوں کے معاوضے اور دوسری مہنگی ترین مراعات یہ کوئی سیکریٹ بات نہ تھی بلکہ اس میں شامل ہونے والوں کے علم میں تھا کہ جو معاوضے جو مراعات ان کو ایگزیکٹ فراہم کر رہا ہے وہ قدرے مشتبہ تھے جس پر انھیں اور متعلقہ ایجنسیوں کو ہائی الرٹ ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ یہ کام انتہائی اطمینان کے ساتھ جاری رہا اور ہم اس وقت بیدار ہوئے جب ایک غیر ملکی اخبار نے اس اسکینڈل کی تفصیلات شایع کیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ اس ادارے نے جعلی ڈگریاں چھاپنے کے لیے اپنا پریس قائم کیا اور اس پریس میں ایگزیکٹ کے مالکان نے چھپائی کا کام انجام نہیں دیا بلکہ عام پریس ورکرز یہ کام کرتے رہے تلاشی کے دوران لاکھوں جعلی ڈگریاں دستیاب ہوئیں اور مغربی ملکوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نام اس جعلی کام میں استعمال کیے گئے، کہا جا رہا ہے کہ امریکا کے وزیر خارجہ کا نام بھی اس جعلی کام میں استعمال ہوا۔ کیا اتنا بڑا کام کسی طاقتور بڑے کی پشت پناہی کے بغیر انجام دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس امکان کا جائزہ لیا جا رہا ہے؟
اس قسم کے بڑے کاموں کے عموماً دو مقصد ہوتے ہیں دولت اور شہرت اس اسکینڈل میں متعلقہ اداروں کے سرپرستوں کو یہ دونوں چیزیں حاصل ہوئیں۔ حصول دولت خواہ وہ کتنے ہی بڑے ناجائز طریقے سے ہو سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ایسا ناگزیر حصہ ہے جو اس نظام کی شریانوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے ،اگر اس حوالے سے اس اسکینڈل پر نظر ڈالی جائے تو نیچے سے اوپر تک حصول دولت کے ایسے ایسے کئی اسکینڈل ہمارے سامنے آتے ہیں جو ہمارے میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں۔ افراد کے علاوہ ہمارے بے شمار قومی ادارے اربوں کی کرپشن کرتے رہے ہیں اور میڈیا میں ان کی تشہیر بھی ہوتی رہی ان کرپٹ اداروں کے سربراہوں کا احتساب ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال بلکہ ایسا اوپن سیکریٹ ہے جس سے ہماری قوم واقف ہے۔
ایگزیکٹ کے مالک یا مالکان نے جس دھڑلے سے جعلی ڈگریوں کا کاروبار کیا اس کے خریداروں میں صرف ہمارے ہم قوم ہی نہیں بلکہ بہت سارے غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ کیا قانون کے احترام کے حوالے سے ان ملکوں کے ڈگری خریداروں کو یہ علم نہیں تھا کہ جعلی ڈگریاں خریدنا سنگین جرم ہے۔ ہماری یہ اجتماعی نفسیات ہے کہ خرابیوں کو ہم فرد یا افراد یا اداروں ہی میں ڈھونڈتے ہیں ہماری نظر اس نظام پر جاتی ہی نہیں جو اس قسم کی خرابیاں اور بدعنوانیاں پیدا کرتا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سامنے کوئی بہتر اور ایسا آئیڈیل متبادل نظام ہی نہیں جو ان خرابیوں سے آزاد ہو۔ 1917 میں ایک بہتر متبادل پیش کیا گیا اور دنیا کے 1/3 حصے نے اس کو قبول بھی کیا لیکن اس انتہائی کرپٹ نظام کے سرپرستوں نے اس نظام کو اس لیے چلنے نہیں دیا کہ اس سے ان کی لوٹ مار ختم ہوجاتی تھی۔
بہرحال اس اسکینڈل کی تحقیقات ہو رہی ہے اور اگر ہماری روایتی آسمانی سلطانی بیچ میں حائل نہ ہو تو اس اسکینڈل کے کردار اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں حصول دولت کے لیے عوام کو براہ راست نقصان پہنچانے والی ایسی بدعنوانیاں ہو رہی ہیں جو منظر عام پر آنے کے باوجود دھڑلے سے جاری ہیں، مثال کے طور پر گدھے اور کتے کے گوشت کی کھلے عام فروخت اور ملاوٹ کی بے شمار وارداتیں۔ کیا ان پر توجہ دینے کی زحمت کی جا رہی ہے؟
اس اسکینڈل کا ایک اور اہم پہلو یا حصہ بول چینل ہے اس چینل کو فنکشنل کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اس سے ایسے سیکڑوں ''عام صحافی'' اور کارکن منسلک تھے جن کا واحد مقصد حصول روزگار تھا ۔المیہ یہ ہے کہ چند اعلیٰ پائے کے صحافی جو اس ادارے سے کروڑوں میں معاوضہ اور بے شمار مراعات حاصل کر رہے تھے وہ ان سیکڑوں صحافیوں اور پریس سے وابستہ کارکنوں کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بول سے وابستہ سیکڑوں بے گناہ کارکن غیر یقینیت کا شکار ہیں۔ غالباً ان کی اسی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے صحافیوں کی انجمن پی ایف یو جے نے اپنی ایک ہنگامی میٹنگ میں جہاں چند موقع پرست صحافیوں کی مذمت کی ہے وہیں اس نے ان سیکڑوں کارکنوں کے حق روزگار کی حمایت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایگزیکٹ اور بول کے معاملات کو الگ الگ رکھے اور بول میں کام کرنے والے میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
الیکٹرانک میڈیا میں مقابلے کی ایک سخت فضا قائم ہے اور ایک چینل کسی ایسے دوسرے چینل کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جو اس کی مقبولیت یا کاروبار کے لیے خطرہ بن رہا ہو۔ ایگزیکٹ نے بول چینل کے آغاز کی تیاری بہت بڑے سرمائے سے کی تھی کہا جا رہا ہے کہ بول کو ایسا جدید ترین ٹی وی چینل بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی جس کا کوئی مقابل نہ ہو۔
اس ٹرینڈ اور تیاری کی اگر پیشہ ورانہ رقابت موجود تھی تو یہ کوئی انہونی نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس چینل سے جو میڈیا ورکرز نادانستگی میں منسلک ہوگئے تھے ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بول ایگزیکٹ ہی کا ایک حصہ ہے لیکن ایگزیکٹ کے ''مخصوص کاروبار'' سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہیں اور بول کے ملازمین کسی لالچ کے تحت بول سے وابستہ نہیں تھے بلکہ ان کی وابستگی کا مقصد حصول روزگار تھا۔ اس پس منظر میں منطقی بات یہی ہے کہ پی ایف یو جے کے مطابق ایگزیکٹ اور بول کو الگ الگ رکھا جائے اور کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ بول ایگزیکٹ سے آزاد ہوکر اپنے کام کا آغاز کرے اور ان سیکڑوں میڈیا کے ورکرز کا روزگار بچ جائے جو اس چینل سے وابستہ ہوگئے ہیں۔