جنے لاہور نہیں ویکھیا او جمیا ہی نہیں آخری حصہ

گانوں کی ریکارڈنگ میں خاص طور پر اور دوسرا اہم سین فلماتے ہوئے انڈور میں اہم لوگوں تک کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔

اب فلم اسٹوڈیوز میرے لیے ایک گھر جیسے بن گئے تھے ۔ میں اداکاری کرنے کے شوق کو بھلا بیٹھا تھا اور اسٹوڈیوز کی زندگی اور رونقوں میں کھو گیا تھا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ جو بڑے اداکار یا اداکارائیں تھیں ان کی عزت زیادہ تھی، ڈائریکٹر سمیت سارے انھیں سر کہہ کر مخاطب ہوتے تھے اور اداکاراؤں کو میڈم۔ اسٹوڈیو میں جب میں اندر گیا اور وہاں پر دیواروں پر کاغذ اور لکڑی کے سیٹ دیکھ کر حیران ہوگیا کیونکہ وہ کیمرے میں جب آتے تھے تو بڑے خوبصورت لگتے تھے۔

جو کیمرے استعمال ہوتے تھے ان میں سے کھٹ کھٹ کی آواز آتی تھی اور اگر ری ٹیک زیادہ ہوجاتے تو چھوٹے اداکاروں کی شامت آجاتی تھی اور کئی مرتبہ تو ہدایتکار جوتا اتار کے گالیاں دیتا ہوا ایکٹر کے پیچھا بھاگتا تھا۔ یہ سین میں نے پنجابی فلم ''ہتھکڑی''کی شوٹنگ میں دیکھا۔

گانوں کی ریکارڈنگ میں خاص طور پر اور دوسرا اہم سین فلماتے ہوئے انڈور میں اہم لوگوں تک کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو ایک سین پر پورا پورا دن اور رات لگ جاتی۔ جب اسٹوڈیو سے باہر شوٹنگ ہوتی تھی تو ایک بارات کی طرح کام کرنے والے ہوتے تھے جو زیادہ تر اسٹوڈیو کے قریب ہی رہتے تھے۔

ایک چیز جو مجھے دیکھ کر افسوس ہوا کہ نوجوان نسل، فلموں میں کام کرنے کے بارے میں اتنی کریزی تھی کہ وہ حسین اور نوجوان ہونے کے باوجود گھنٹوں چھتری لے کر اداکاراؤں کے ساتھ کھڑے رہتے تھے یا پھر ان کے ڈریسز استری کروانا، چائے بنانا، کھانا لے آنا ان کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی انھیں چانس نہیں ملتا تھا۔ خوبصورت لڑکیاں فلموں کے شوق میں گھر سے بھاگ کر آتی تھیں اور اپنے ساتھ نقدی اور زیور بھی لے آتی تھیں مگر وہاں پر چوکیدار سے لے کر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تک ان کو لوٹتے تھے اور پھر وہ اس قابل نہیں ہوتی تھیں کہ گھر واپس جا سکیں۔

میں نے اپنی آنکھوں سے اداکار علاؤ الدین اور طالش کو کئی ہدایتکاروں کے پیچھے پیسے مانگتے اور دوڑتے دیکھا اور جب وہ باہر نکلتے تھے تو ہوٹل والا کیبن والا کہتا تھا کہ کافی دن ہو گئے ہیں پیسے تو دے دیں۔

اسٹوڈیوز میں بڑے طاقتور چوہدری نظر آتے تھے اور ان کا جو دل چاہتا کرتے تھے کیونکہ وہاں پر طاقت اور پیسے کا راج تھا اور پھر ہیروئینیں اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے کسی کا سہارا لیتی تھیں۔ راتیں پر رونقیں ہوتی تھیں فلمی کلچر جوبن پر ہوتا تھا، کیونکہ دو شفٹیں چلتی تھیں۔ اداکار یوسف کا ان دنوں بڑا ڈنکا بج رہا تھا اور اس کے بعد الیاس کاشمیری اور بہت سارے تھے۔ اداکار محمد علی وہاں پر کافی مقبول تھے، سب ان کو 'علی بھائی' کہتے تھے اور وہ سندھ سے آنے والوں کی بڑی مدد کرتے تھے۔


وہاں پر ایک کہاوت تھی کہ لاہور کا مطلب ہے کہ لا۔ہور یعنی اور لاؤ۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ اداکار سلطان راہی ایک کھلی جیپ میں آ رہے تھے جس پر لاڑکانہ کا نمبر لکھا تھا تو میں نے پوچھا لاڑکانہ کی نمبر پلیٹ آپ استعمال کر رہے ہیں ، تو انھوں نے بتایا کہ لاڑکانہ میں سنگر دیدار اسران میرا دوست ہے جسے انھوں نے یہ جیپ دی تھی اور کہا تھا کہ جب بھی دل اس سے بھر جائے تو وہ اسے واپس کر دے اور اب یہ جیپ انھیں واپس ملی ہے۔

فلمی ماحول دیکھ کر میرا دل اداکار بننے سے بالکل اچاٹ ہو گیا اور اس زمانے میں کھائی ہوئی قسم اب بھی چل رہی ہے حالانکہ پی ٹی وی پر مجھے کافی رول آفر ہوئے۔ وہاں پر میری ملاقات لاڑکانہ کے شاہ جی سے ہوئی جنھوں نے فلم ان داتا میں کار اور موٹرسائیکل پر کرتب دکھائے تھے۔ وہ شاہنواز اسٹوڈیو کے شفٹ انچارج تھے جنھوں نے میری بڑی رہنمائی کی اور اس کے علاوہ ایک اور بندہ سانگھی تھا ۔

جس نے لاہور میں شادی کی تھی اور فلموں میں اداکاری کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک جنگجو ٹائپ فلم کی شوٹنگ تھی جس میں رائفل اور پولیس کی وردی کا استعمال تھا۔ اب میں جب شاہ جی کے ساتھ اسٹور میں گیا تو وہاں کئی رائفلیں پڑی تھیں جس میں لکڑی کے لاک لگے ہوئے تھے اور وردیوں میں اتنی مٹی چڑھی ہوئی تھی۔ پینٹ میں بیلٹ کے بجائے ازار بند تھے۔ فلم میں کام کرنے والے شوقین ایک کو بلاؤ تو دس آجاتے تھے، جنھیں کھانے میں پانی جیسا شوربا اور ایک بوٹی ملتی تھی۔

مجھ پر اداکاری کا جو بھوت سوار تھا وہ اب وہ اتر چکا تھا، اس لیے اب میں نے فلم اسٹوڈیو جانا کم کردیا تھا اور لاہور شہر کو دیکھنے نکل جاتا ۔ اس زمانے میں دو سواریاں زیادہ نظر آتی تھیں ، ایک سائیکل اور دوسری ٹانگے۔ میں نے پورا لاہور سائیکل پر سوار ہوکر دیکھا۔ جب پہلی مرتبہ میں ایک سینما گھر میں فلم دیکھنے کے لیے گیا تو ٹکٹ کھلنے سے دو گھنٹے پہلے ٹکٹ کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہوگیا مگر جیسے ٹکٹ کھلنے کا وقت آیا تو میں نے خود کو لائن میں آخری حصے میں پایا۔ وہاں جب کوئی فلم ریلیز ہوتی تھی تو پولیس کی دو سے تین گاڑیاں کھڑی رہتی تھیں کیونکہ ٹکٹ لینے پر بڑے جھگڑے ہوتے تھے۔اس زمانے میں چاقو کا استعمال بہت ہوتا تھا اور لڑتے ہوئے کہتے تھے۔ 'اوئے بکری نس جا ایتھوں ' لاہور میں لکشمی چوک فلمی دفاترکا اڈا تھا جہاں اتنی رونق ہوتی تھی کہ میلہ نظر آتا تھا۔

میری یادوں میں کچھ باتیں اہم ہیں جس میں ایک تو ملکہ نور جہاں کے مقبرے پر اس وقت میں نے گدھوں اور کتوں کو گھومتے دیکھا اور مزار کی حالت بڑی خراب تھی۔ بہت تکلیف ہوئی، میں اکثر اردو بازار جاتا جہاں سے انگریزی کی کتابیں خریدتا تھا۔ انارکلی گھومتے گھومتے نہ تو دل بھرتا تھا اور نہ ہی تھکاوٹ ہوتی تھی۔ بھاٹی گیٹ پر پھجے کے پائے اور اس کے برابر لسی والے کی لسی کبھی نہیں بھول سکتا ہوں۔ جب بھی دل اداس ہوتا تو داتا دربار چلا جاتا اور قوالیاں سنتا تھا۔ میرا ایک عجیب تجربہ یہ رہا کہ جب میں بادشاہی مسجد گھومنے گیا تو وہاں پر ایک جگہ ایسی تھی جہاں راتیں جاگتی ہیں یہ سن کر وہاں سے تیز قدموں کے ساتھ گزر گیا کیونکہ سنا ہے وہ جادونگری ہے جہاں جو بھی جاتا ہے اس پر سحر طاری ہوجاتا ہے اور کئی لوگ تو اس ایریا کو پرستان کہتے ہیں۔

فلمیں دیکھنے کا بڑا رجحان تھا، میں نے دیکھا ندیم کی فلم پہچان اور اناڑی دو برابر کے سینماؤں میں نمائش کے لیے پیش ہوئیں اور دونوں پر بے حد رش تھا۔ وہاں جب نئی فلم کی نمائش ہوتی تو فلم کے ہیرو، ہیروئن، ہدایتکار فلم دیکھنے آتے تھے۔

1977ء میں جب بھٹو کے خلاف مارچ کے مہینے میں agitations چل رہی تھی اس زمانے میں فلم آئینہ میں جس میں ندیم اور شبنم تھے ریلیز ہوئی تھی اور پھر بھی کامیاب ہوئی۔ میں نے اکثر یہ محاورہ لاہور میں سنا کہ لاہور لاہور ہے، جنے ویکھیا نہیں او جمیا ہی نہیں۔ واقعی صحیح ہے کیونکہ وہاں پر میں نے اچھی اچھی یونیورسٹیاں، کالجز، کتاب گھر، پبلشرز اور ادبی کیفے دیکھے جہاں ہر روز شام کو ادیبوں کی محفلیں سجتی تھیں۔ لاہور میں مجھے ذاتی طور پر کتاب گھر پسند آئے جہاں سستی اور ہر مضمون پر کتابیں مل رہی تھیں جس سے لاہور کی تاریخ، ادب، کلچر اور شہر کی اہمیت کا اندازہ ہو رہا تھا۔
Load Next Story