مسلم لیگی جماعتوں کا مجوزہ اتحاد
حیرت کی بات ہے جنہوں نے مسلم لیگ کی ٹکرے کیے وہی آج اُس کے اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں۔
پچھلے دنوں مسلم لیگ (ق) اور فنکشنل لیگ کے کچھ لوگوں نے کراچی میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے در پہ حاضری دیتے ہوئے تمام مسلم لیگی گروپوں کو یکجا کرنے کی اپنی خواہشوں اور ارادوں کا اظہار کیا۔
حیرت کی بات ہے جنہوں نے مسلم لیگ کی ٹکرے کیے وہی آج اُس کے اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ مسلم لیگ (ق) کو بنانے والے اور اُسے اِس حال میں پہنچانے والے کون تھے۔
وہی جو آج اُسے ایک بار پھر متحد کرنے کی اپنی خواہش کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں دراڑیں ڈال کر مسلم لیگ (ق) تشکیل دینے والے جنرل پرویز مشرف کو ایک علیحدہ پارٹی پاکستان مسلم لیگ کیوں بنانی پڑی۔ اگر وہ آج اُسی (ق) لیگ کے ساتھ دوبارہ متحد ہونے کے خواہاں ہیں تو پھر بلاوجہ ایک الگ دھڑا کیوں بنا ڈالا۔ اِسی طرح اگر شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کو بھی دیکھا جائے تو وہ مشرف دور میں سارا وقت مسلم لیگ (ق) کے ساتھ جڑے رہے اور پھر اچانک ایک ایسی جماعت تشکیل دے ڈالی جس میں اُنہیں اپنے علاوہ کوئی دوسرا ممبر بھی نہ مل سکا۔
آج کل وہ عمران خان کی تحریکِ انصاف کو اپنی حسرتوں اور اُمیدوں کا محور بنائے ہوئے ہیں اِس لیے فی الحال جنرل مشرف کی قربت حاصل کرنے سے معذور ہیں۔ دراصل اپنے اپنے مفادات کی خاطر مسلم لیگ کو توڑنے والے ہی جب ناکام و نامراد ہو جاتے ہیں تو پھر اُنہیں اُسے متحد کرنے کا خیال ستانے لگتا ہے۔ مگر یہ خیال صرف وقتی ہوتا ہے۔ کوئی اپنی اہمیت کم کرنے اور پارٹی کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا اِس لیے ہر بار یہ معاملہ یونہی ہواؤں میں تحلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
مسلم لیگ کے خیر خواہوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر ڈکیٹیٹر کی اُمیدوں کو آرزؤں کو مرکز پاکستان کی تما م سیاسی جماعتوں میں سے صرف ایک ہی جماعت مسلم لیگ ہی کیوں ہوا کرتی ہے۔ جس طرح اقتدار پر غیر قانونی طریقوں سے قابض ہونے والے ہر طالع آزما کو اپنے اِس غیر جمہوری اقدام کو جائز اور قانونی بنانے کے لیے سب سے پہلے عدلیہ کی حمایت کا حصول اُس کی مجبوری ہوتا ہے، اِسی طرح اُسے دنیا کے سامنے خود کو جمہوری ظاہر کرنے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اور اُن کے اِس مقصد میں مسلم لیگ ہی اُن کی سب سے بڑی دوست اور مددگار ثابت ہوتی رہی ہے۔ مسلم لیگ کے علاوہ پاکستان کی کوئی اور سیاسی پارٹی اُنہیں یہ پلیٹ فارم فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک یہی ایک سیاسی پارٹی آمروں کو اُن کے مشکل دور میں مدد اور کمک فراہم کرتی رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے قانونی ماہر اور غیر جمہوری حکمرانوں کے قانونی ناخدا شریف الدین پیر زادہ اِس کام میں بڑی مہارت کے حامل رہے ہیں۔ وہ ہر ڈکٹیٹر کے بڑے گہرے دوست اور ہمدرد کی حیثیت سے جانے پہچانے جانتے ہیں۔
تاریخ میں اُن کا نام اگر کسی تناظر میں لیا جاتا ہے تو بس وہ یہی ہے کہ وہ ہر ڈکٹیٹر کو بہت عزیز اور محبوب رہے ہیں۔ اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک ہی فارمولے سے اِن غیر جمہوری سپہ سالاروں کے لیے عدلیہ کو زیر کرنے اور اپنے حق میں فیصلے لکھوانے کے ساتھ ساتھ کمزور ہمت والے اور آسانی سے اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے سیاست دانوں کو قابو میں کرنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ نظریہ ضرورت کے خالق اور موجد بھی یہی صاحب ہیں۔ پاکستان کے عوام اُن کا نام اُنہی دنوں میں بڑے زور و شور اور شد و مد کے ساتھ اخباروں اور خبروں میں سنتے رہے ہیں جب کوئی آمر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد کے بڑے بڑے ایوانوں میں اُن کی آمد و رفت اور اُن کی آو بھگت انھی دنوں میں اچانک بڑھ جاتی ہے جب کسی ڈکٹیٹر کو اپنے اقتدار کے بچاؤ کے لیے ماہرانہ مشوروں کی حاجت ہونے لگتی ہے۔
جنرل ایوب کے قانونی مشیر بھی یہی تھے اور پھر جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کو بھی دس دس سالہ اقتدار کے گر سکھانے والے دور اندیش صاحب فکر و دانش یہی فردِ واحد تھے۔ عدلیہ سے معاملات طے ہونے کے بعد نچلی سطح پر جمہوریت کا راگ الاپ کر وہ اِن ڈکٹیٹروں کے اقتدار کو دوام بخشتے رہے ہیں۔ کبھی بنیادی جمہوریت، کبھی غیر جماعتی الیکشن اور کبھی ضلع کے سطح پر انتخابات اُن کا سب سے بڑا کامیاب اور آزمودہ طریقہ کار رہا ہے۔ اِس کے بعد بھی اگر اُنہیں ملکی سیاستدانوں کی کھیپ میں سے چند ایسے سیاستدانوں کی ضرورت ہو جو مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا باآسانی کر گزریں تو پھر اُنہیں پاکستان کے سیاسی اُفق پر صرف مسلم لیگ ہی دکھائی دیتی ہے۔
کبھی کنونشن مسلم لیگ کا دھڑا بنا دیا جاتا ہے تو کبھی (ق) لیگ بنا کر پارلیمنٹ سے فوجی وردی میں صدر منتخب ہوا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اُسی ایک شخص کو دس دس بار وردی میں منتخب کرنے کی باتیں بھی بڑی بے شرمی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کی جاتی رہی ہیں۔ اب جب مسلم لیگ کے یہ چھوٹے چھوٹے دھڑے اپنی تمام ناکامیوں اور نامرادیوں کے سبب عوام کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو اُنہیں متحد و یکجا کرنے کی سعیِ لاحاصل کی جانے لگی ہے۔ مسلم لیگ کے حصّے بخیے کرنے والے ہی اُسے متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی الگ الگ شناخت چھوڑنے کو تیار بھی نہیں ہوتے۔
ہماری سیاسی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کبھی کسی غیر جمہوری حکمراں کو دوبارہ اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ وہ جس طریقے سے حکمرانی حاصل کرتے ہیں وہی طریقہ اُنہیں دوبارہ اقتدار دلا سکتا ہے جو وردی اُتارنے کے بعد ناممکن ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح جب وہ ایک بار وردی اُتار دیتے ہیں تو پھر اقتدار کے ریت اُن کی مٹھی سے پھسلنے لگتی ہے۔ یہی کچھ جنرل ایوب خان کے ساتھ اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی ہوا۔
جب تک تو وہ زبردستی وردی پہنے رہے، اختیارات کی گرفت اُنکے ہاتھوں میں رہی اور جیسے ہی اُنہوں نے وردی اُتارنے کے اپنے اعلان پر عمل کیا وہ بے یار و مددگار دھڑام سے زمین پر آ گرے۔ پھر دس دس بار وردی میں منتخب کروانے کا دعویٰ کرنے والے بھی اُن کی مدد کو نہ آئے۔ جن کے لیے این آر او بھی بنایا تھا وہ بھی موقعہ پاتے ہی دھوکا دے گئے۔ پارلیمنٹ میں مواخذے کی خفت سے بچنے کے لیے وہ طوعاً و کرہاً از خود مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔ آج اُن کے آستانے پر پھر اُنہی سیاسی یتیموں کا اجتماع منعقد ہوا جنھیں عوام ایک سے زائد مرتبہ ٹھکرا چکے ہیں۔
مسلم لیگ کے اِن چھوٹے چھوٹے دھڑوں کے اتحاد سے بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کی فی الحال کوئی آثار باقی نہیں رہے۔ ملک کا سیاسی منظر نامہ پہلے ہی یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ عمران خان کی تحریکِ انصاف لے چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) نسبتاً اپنی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فی الحال مقبولیت کی اپنے 2013ء والی سطح پر قائم اور جمی ہوئی ہے۔
اِس لیے آیندہ انتخابات میں اگر کوئی مقابلہ ہونا ہے تو اِن دو ہی پارٹیوں کے بیچ ہونا ہے۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں اگر اپنا کوئی وجود باقی رکھنا چاہتی ہیں تو وہ اِن ہی دو سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنا تعلق اور رشتہ استوار کرنے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر وہ صرف سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں ہی اپنے فعال ہونے کا بھرم رکھ سکتی ہیں۔ پاکستان کے عوام اب سیاسی ناموں اور نعروں کی بجائے کارکردگی پر اپنا فیصلہ صادر کیا کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی مختصر اور سکڑ کر رہ گئی ہیں۔
یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ مسلم لیگ کا اتحاد مسلم لیگ (ن) کے بغیر بے وقعت اور بے معنی ہے اور جب تک تمام چھوٹی چھوٹی مسلم لیگی جماعتیں مجوزہ اتحاد میں اپنی حیثیت اور اپنی وقعت سے زیادہ حصے کی طلب گار رہیں گی یہ اتحاد و اتفاق ناممکن ہے۔ ایسی ہر سعی اور کوشش فضول اور مشقِ رائیگاں ہی رہے گی جس میں زمینی حقائق سے چشم پوشی کی جائے گی۔
حیرت کی بات ہے جنہوں نے مسلم لیگ کی ٹکرے کیے وہی آج اُس کے اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ مسلم لیگ (ق) کو بنانے والے اور اُسے اِس حال میں پہنچانے والے کون تھے۔
وہی جو آج اُسے ایک بار پھر متحد کرنے کی اپنی خواہش کو حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں دراڑیں ڈال کر مسلم لیگ (ق) تشکیل دینے والے جنرل پرویز مشرف کو ایک علیحدہ پارٹی پاکستان مسلم لیگ کیوں بنانی پڑی۔ اگر وہ آج اُسی (ق) لیگ کے ساتھ دوبارہ متحد ہونے کے خواہاں ہیں تو پھر بلاوجہ ایک الگ دھڑا کیوں بنا ڈالا۔ اِسی طرح اگر شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کو بھی دیکھا جائے تو وہ مشرف دور میں سارا وقت مسلم لیگ (ق) کے ساتھ جڑے رہے اور پھر اچانک ایک ایسی جماعت تشکیل دے ڈالی جس میں اُنہیں اپنے علاوہ کوئی دوسرا ممبر بھی نہ مل سکا۔
آج کل وہ عمران خان کی تحریکِ انصاف کو اپنی حسرتوں اور اُمیدوں کا محور بنائے ہوئے ہیں اِس لیے فی الحال جنرل مشرف کی قربت حاصل کرنے سے معذور ہیں۔ دراصل اپنے اپنے مفادات کی خاطر مسلم لیگ کو توڑنے والے ہی جب ناکام و نامراد ہو جاتے ہیں تو پھر اُنہیں اُسے متحد کرنے کا خیال ستانے لگتا ہے۔ مگر یہ خیال صرف وقتی ہوتا ہے۔ کوئی اپنی اہمیت کم کرنے اور پارٹی کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا اِس لیے ہر بار یہ معاملہ یونہی ہواؤں میں تحلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
مسلم لیگ کے خیر خواہوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر ڈکیٹیٹر کی اُمیدوں کو آرزؤں کو مرکز پاکستان کی تما م سیاسی جماعتوں میں سے صرف ایک ہی جماعت مسلم لیگ ہی کیوں ہوا کرتی ہے۔ جس طرح اقتدار پر غیر قانونی طریقوں سے قابض ہونے والے ہر طالع آزما کو اپنے اِس غیر جمہوری اقدام کو جائز اور قانونی بنانے کے لیے سب سے پہلے عدلیہ کی حمایت کا حصول اُس کی مجبوری ہوتا ہے، اِسی طرح اُسے دنیا کے سامنے خود کو جمہوری ظاہر کرنے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اور اُن کے اِس مقصد میں مسلم لیگ ہی اُن کی سب سے بڑی دوست اور مددگار ثابت ہوتی رہی ہے۔ مسلم لیگ کے علاوہ پاکستان کی کوئی اور سیاسی پارٹی اُنہیں یہ پلیٹ فارم فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک یہی ایک سیاسی پارٹی آمروں کو اُن کے مشکل دور میں مدد اور کمک فراہم کرتی رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے قانونی ماہر اور غیر جمہوری حکمرانوں کے قانونی ناخدا شریف الدین پیر زادہ اِس کام میں بڑی مہارت کے حامل رہے ہیں۔ وہ ہر ڈکٹیٹر کے بڑے گہرے دوست اور ہمدرد کی حیثیت سے جانے پہچانے جانتے ہیں۔
تاریخ میں اُن کا نام اگر کسی تناظر میں لیا جاتا ہے تو بس وہ یہی ہے کہ وہ ہر ڈکٹیٹر کو بہت عزیز اور محبوب رہے ہیں۔ اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک ہی فارمولے سے اِن غیر جمہوری سپہ سالاروں کے لیے عدلیہ کو زیر کرنے اور اپنے حق میں فیصلے لکھوانے کے ساتھ ساتھ کمزور ہمت والے اور آسانی سے اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے سیاست دانوں کو قابو میں کرنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ نظریہ ضرورت کے خالق اور موجد بھی یہی صاحب ہیں۔ پاکستان کے عوام اُن کا نام اُنہی دنوں میں بڑے زور و شور اور شد و مد کے ساتھ اخباروں اور خبروں میں سنتے رہے ہیں جب کوئی آمر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد کے بڑے بڑے ایوانوں میں اُن کی آمد و رفت اور اُن کی آو بھگت انھی دنوں میں اچانک بڑھ جاتی ہے جب کسی ڈکٹیٹر کو اپنے اقتدار کے بچاؤ کے لیے ماہرانہ مشوروں کی حاجت ہونے لگتی ہے۔
جنرل ایوب کے قانونی مشیر بھی یہی تھے اور پھر جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کو بھی دس دس سالہ اقتدار کے گر سکھانے والے دور اندیش صاحب فکر و دانش یہی فردِ واحد تھے۔ عدلیہ سے معاملات طے ہونے کے بعد نچلی سطح پر جمہوریت کا راگ الاپ کر وہ اِن ڈکٹیٹروں کے اقتدار کو دوام بخشتے رہے ہیں۔ کبھی بنیادی جمہوریت، کبھی غیر جماعتی الیکشن اور کبھی ضلع کے سطح پر انتخابات اُن کا سب سے بڑا کامیاب اور آزمودہ طریقہ کار رہا ہے۔ اِس کے بعد بھی اگر اُنہیں ملکی سیاستدانوں کی کھیپ میں سے چند ایسے سیاستدانوں کی ضرورت ہو جو مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا باآسانی کر گزریں تو پھر اُنہیں پاکستان کے سیاسی اُفق پر صرف مسلم لیگ ہی دکھائی دیتی ہے۔
کبھی کنونشن مسلم لیگ کا دھڑا بنا دیا جاتا ہے تو کبھی (ق) لیگ بنا کر پارلیمنٹ سے فوجی وردی میں صدر منتخب ہوا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اُسی ایک شخص کو دس دس بار وردی میں منتخب کرنے کی باتیں بھی بڑی بے شرمی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کی جاتی رہی ہیں۔ اب جب مسلم لیگ کے یہ چھوٹے چھوٹے دھڑے اپنی تمام ناکامیوں اور نامرادیوں کے سبب عوام کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو اُنہیں متحد و یکجا کرنے کی سعیِ لاحاصل کی جانے لگی ہے۔ مسلم لیگ کے حصّے بخیے کرنے والے ہی اُسے متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی الگ الگ شناخت چھوڑنے کو تیار بھی نہیں ہوتے۔
ہماری سیاسی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کبھی کسی غیر جمہوری حکمراں کو دوبارہ اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ وہ جس طریقے سے حکمرانی حاصل کرتے ہیں وہی طریقہ اُنہیں دوبارہ اقتدار دلا سکتا ہے جو وردی اُتارنے کے بعد ناممکن ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح جب وہ ایک بار وردی اُتار دیتے ہیں تو پھر اقتدار کے ریت اُن کی مٹھی سے پھسلنے لگتی ہے۔ یہی کچھ جنرل ایوب خان کے ساتھ اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی ہوا۔
جب تک تو وہ زبردستی وردی پہنے رہے، اختیارات کی گرفت اُنکے ہاتھوں میں رہی اور جیسے ہی اُنہوں نے وردی اُتارنے کے اپنے اعلان پر عمل کیا وہ بے یار و مددگار دھڑام سے زمین پر آ گرے۔ پھر دس دس بار وردی میں منتخب کروانے کا دعویٰ کرنے والے بھی اُن کی مدد کو نہ آئے۔ جن کے لیے این آر او بھی بنایا تھا وہ بھی موقعہ پاتے ہی دھوکا دے گئے۔ پارلیمنٹ میں مواخذے کی خفت سے بچنے کے لیے وہ طوعاً و کرہاً از خود مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔ آج اُن کے آستانے پر پھر اُنہی سیاسی یتیموں کا اجتماع منعقد ہوا جنھیں عوام ایک سے زائد مرتبہ ٹھکرا چکے ہیں۔
مسلم لیگ کے اِن چھوٹے چھوٹے دھڑوں کے اتحاد سے بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کی فی الحال کوئی آثار باقی نہیں رہے۔ ملک کا سیاسی منظر نامہ پہلے ہی یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ عمران خان کی تحریکِ انصاف لے چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) نسبتاً اپنی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فی الحال مقبولیت کی اپنے 2013ء والی سطح پر قائم اور جمی ہوئی ہے۔
اِس لیے آیندہ انتخابات میں اگر کوئی مقابلہ ہونا ہے تو اِن دو ہی پارٹیوں کے بیچ ہونا ہے۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں اگر اپنا کوئی وجود باقی رکھنا چاہتی ہیں تو وہ اِن ہی دو سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنا تعلق اور رشتہ استوار کرنے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر وہ صرف سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں ہی اپنے فعال ہونے کا بھرم رکھ سکتی ہیں۔ پاکستان کے عوام اب سیاسی ناموں اور نعروں کی بجائے کارکردگی پر اپنا فیصلہ صادر کیا کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی مختصر اور سکڑ کر رہ گئی ہیں۔
یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ مسلم لیگ کا اتحاد مسلم لیگ (ن) کے بغیر بے وقعت اور بے معنی ہے اور جب تک تمام چھوٹی چھوٹی مسلم لیگی جماعتیں مجوزہ اتحاد میں اپنی حیثیت اور اپنی وقعت سے زیادہ حصے کی طلب گار رہیں گی یہ اتحاد و اتفاق ناممکن ہے۔ ایسی ہر سعی اور کوشش فضول اور مشقِ رائیگاں ہی رہے گی جس میں زمینی حقائق سے چشم پوشی کی جائے گی۔