کرکٹ کی بہتری کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے

کپتان کے غلط فیصلے ٹیم کو لے ڈوبے

لوگ تو ٹرافی کی امید لگائے بیٹھے تھے مگر ٹیم جس انداز سے ہاری اس نے تمام خواب چکنا چور کر دیے. فوٹو : فائل

ٹوئنٹی 20ورلڈکپ کا سیمی فائنل ہارے کئی روز گذر چکے مگر شائقین تاحال صدمے سے باہر نہیں آ سکے ہیں۔

لوگ تو ٹرافی کی امید لگائے بیٹھے تھے مگر ٹیم جس انداز سے ہاری اس نے تمام خواب چکنا چور کر دیے،ہر بڑے ایونٹ کی طرح اس بار بھی ناکامی کے بعد ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑ کی باتیں ہو رہی ہیں،اگرناقدین کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو پھر موجودہ اسکواڈ میں سے آدھے سے زیادہ پلیئرز باہر ہو جائیں گے، اس کے بعد جو حشر ہوگا اس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کارکردگی میں عدم تسلسل ہی نظر آیا۔ محمد حفیظ کی قیادت بھی غیرمعمولی نہیں رہی، انھیں اتنا پروفیسر کہا جاتا ہے کہ اب وہ خود کو ایسا ہی سمجھنے لگے ہیں۔

ایونٹ سے قبل ہی ان کی حد سے زیادہ خود اعتمادی مجھے کسی خطرے کا احساس دلا رہی تھی اور یہی ہوا، کپتان کے غلط فیصلے ٹیم کو لے ڈوبے،بعض بڑے ناموں نے بھی بیحد مایوس کیا،چند ماہ قبل جب میں نے انہی سطور میں تحریر کیا تھا کہ اس ٹیم سے ورلڈکپ میں کسی بڑے کارنامے کی توقع نہیں کرنی چاہیے تو اس پر بعض قارئین نے خاصا بُرا منایا تھا ،اب حقیقت ان کے سامنے آ چکی ہے۔ ''ہم ہیں پاکستان ہم تو جیتیں گے'' یہ گانا سننے میں اچھا لگتا ہے مگر حقیقتاً ایسا ممکن نہیں، صرف پاکستانی ہونے کی بنا پر ٹرافی نہیں مل سکتی اس کے لیے فیلڈ میں اچھا پرفارم کرنا ضروری ہوتا ہے، بدقسمتی سے ہماری ٹیم ایسا نہیں کر رہی، ایک میچ جیت کر اگلے میں شکست کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن آسٹریلیا جیسی ٹیم کو یو اے ای میں مسلسل دو میچز ہرانے کے بعد تیسرے میں 74رنز پر ڈھیر ہونا انتہائی تشویشناک ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ٹیم میں کئی خامیاں موجود ہیں، افسوس ورلڈکپ کیلیے اس اہم پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا، ہر جانب یہ بات ہو رہی تھی کہ کینگروز کو سیریز میں زیر کر لیا لہذا ٹرافی بھی جیت لیں گے، تیسرے میچ کی ہارکو اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ مسائل کا آغاز اوپننگ سے ہوا، ناصر جمشید نے جب آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے میچز میں بطور اوپنر حفیظ کے ساتھ شاندار کھیل پیش کیا تو انھیں اس پوزیشن سے ہٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ ون ڈے میچز میں دونوں نے23،66 اور 129 رنز کی پارٹنر شپس کی تھیں، عمران نذیر کئی برسوں سے کرکٹ کھیل رہے ہیں، سب ہی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ڈومیسٹک مقابلوں کے ہیرو اور انٹرنیشنل میں زیرو ہیں، کمزور ٹیمیں ملیں تو ان کا بیٹ رکتا ہی نہیں اور اچھے بولنگ اٹیک کے سامنے چند گیندوں تک وکٹ پر قیام بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

کینگروز سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں وہ اور حفیظ 30،13اور7 کی شراکتیں ہی بنا پائے، ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سے سبق سیکھا جاتا مگر ورلڈکپ میں بھی حفیظ نے عمران کو ہی پارٹنر بنانا بہتر سمجھا، اس کے پیچھے کیا وجہ تھی یہ تو وہی جانتے ہوں گے مگر اس کا ٹیم کو اہم میچز میں نقصان اٹھانا پڑا، کیویز کیخلاف عمران نذیر نے25 رنز بنائے اور پھر اگلے میچ میں بنگلہ دیش کے کمزور بولنگ اٹیک پر پل پڑے، خوش قسمتی سے ایک رن پر کیچ بھی ڈراپ ہو گیا، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ 72 رنز کی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے،ٹیم کو 124 رنز کا آغاز ملا تو حفیظ بھی فیصلے پر نازاں نظر آئے مگر پھر جنوبی افریقہ کے خلاف 24، بھارت 17،آسٹریلیا5 اور سری لنکا کے سامنے31 رنز کا ہی آغاز مل سکا، حیران کن بات یہ ہے کہ اس دوران کسی نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ اوپننگ پیئر میں تبدیلی کر دینی چاہیے۔

حفیظ نے گوکہ ایونٹ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ 164 رنز بنائے مگر اس دوران ایک بھی نصف سنچری اسکور نہ کر سکے، کئی بار دوران بیٹنگ وہ یہ بھی بھول جاتے تھے کہ یہ ٹوئنٹی 20 میچ ہے، ان کی سست بیٹنگ سے دیگر بیٹسمینوں پر دبائو بڑھ جاتا، عمران نذیر کے بارے میں کئی برس سے ہر ناکامی کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ اس کا کیریئر ختم ہو گیا، مگر پھر اچانک ٹیم میں واپسی ہو جاتی ہے، حالیہ ایونٹ میں انھوں نے 153 رنز بنائے، بنگلہ دیش کیخلاف 72 کی اننگز نکال دی جائے تو انھوں نے 5 میچز میں محض81 رنز ہی اسکور کیے، اگر حفیظ سمجھتے ہیں کہ عمران بہت اچھے اوپنر ہیں تو خود اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہوئے ناصر کو چانس دے سکتے تھے۔کامران اکمل کو سلیکٹرز نے بیٹنگ کی خصوصیت کی وجہ سے موقع دیا مگر وہ چوتھے نمبر پر کھیلتے ہوئے متواتر ناکام رہے۔

جبکہ کیچز اور اسٹمپنگ چھوڑنے کی عادت سے بھی پیچھا نہ چھوٹ سکا، کم بیک کے بعدآسٹریلیا سے ون ڈے میچز میں کامران کو دو اننگز میں ڈبل فیگر میں بھی رسائی کا موقع نہ مل پایا تھا، مگر پھر ابتدائی دو ٹی ٹوئنٹی میں ان کی بہتر بیٹنگ نے سلیکٹرز کو احساس دلایا کہ انھیں منتخب کرنے کا جوا کامیاب رہ سکتا ہے، البتہ تیسرے میچ میں صفر کے بعد وہ پھر ناکامیوں کے بھنور میں پھنس گئے، بھارت کیخلاف وارم اپ میچ میں میچ وننگ اننگز کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی، میگا ایونٹ میں وہ6 میں سے صرف 2 اننگز میں ہی دہرے ہندسوں میں داخل ہوئے، یوں عمران نذیر کی طرح کامران کو بھی ٹیم میں واپس لانے کا فیصلہ بیک فائر ہو گیا، سلیکٹرز کو اب نیا وکٹ کیپر تلاش کرنا ہوگا۔ قومی ٹیم کا ایک اور کمزور پہلو شاہدآفریدی ثابت ہوئے۔

ماضی کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بیٹنگ نہیں تو بولنگ سے ہی کارنامے انجام دینے والے آل رائونڈر اس بار بجھے بجھے دکھائی دیے، وہ مجموعی طور پر صرف30 رنز ہی بنا سکے، بولنگ میں بھی 4 ہی وکٹیں ہاتھ آئیں،آفریدی آسٹریلیا کیخلاف سیریز میں بھی اچھا پرفارم نہیں کر سکے تھے، ورلڈکپ میں بھی فارم واپس نہ آ سکی، ایسے میں انھیں آرام کا موقع دے کر عبدالرزاق یا اسد شفیق کو موقع دیا جا سکتا تھا تاہم ٹیم مینجمنٹ نے یہ مناسب نہ سمجھا۔ ایک کے بعد ایک ناکامی آفریدی پر دبائو بڑھاتی گئی، اب ان کا اعتماد خاصا کم ہو چکا اور ایسے میں کچھ آرام کی ضرورت ہے،یہ کہنا کہ آفریدی کی کرکٹ ختم ہو چکی درست نہیں، وہ اب بھی چند برس ٹیم کے کام آ سکتے ہیں۔ انھیں ریسٹ کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لینا چاہیے، وہاں اچھی پرفارمنس سے اعتماد بحال ہو گا اور وہ دوبارہ سے ملک کے لیے خدمات انجام دے سکیں گے۔

آفریدی نے پاکستان کو کئی میچز جتوائے اور کرکٹ میں ان کے بے تحاشا کارنامے ہیں،اگر مایوس ہو کر وہ اس وقت کرکٹ چھوڑدیتے ہیں تو یہی یاد رکھا جائے گا کہ ورلڈکپ میں بُری طرح ناکام رہے تھے، انھیں دوبارہ شاندار کم بیک کے بعد عروج پر کرکٹ چھوڑنی چاہیے۔ وہ پاکستان کے سپراسٹار اور عوام کے سب سے زیادہ پسندیدہ کرکٹر ہیں، جس سے لوگ زیادہ محبت اور توقعات وابستہ کریں۔ اس کی ناکامی پر غصہ بھی سب سے زیادہ آتا ہے۔ آفریدی بھی اسی وجہ سے شائقین کے زیرعتاب ہیں،وہ ایک فائٹر ہیں اور آسانی سے ہمت ہارنے والے نہیں،یقینا ایک بار پھر اچھا کھیل پیش کریں گے۔

حالیہ میگا ایونٹ میں عبدالرزاق کے ساتھ ٹیم مینجمنٹ نے خاصا بُرا سلوک کیا۔ یہ درست ہے کہ ان کی بولنگ اب ماضی جیسی نہیں رہی اس کے باوجود کئی موجودہ بولرز سے کافی بہتر ہیں، بیٹنگ میں بھی وہ ٹیم کے خاصے کام آ سکتے ہیں۔ ایک ایسے کھلاڑی کو نظرانداز کرنا کسی صورت مناسب نہیں تھا، جہاں پاکستان کا مفاد آئے وہاں ذاتی باتوں کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ حفیظ کو عبدالرزاق پسند نہیں مگر وہ کھلاڑی تو اچھے ہیں، انھیں اگر میگا ایونٹ میں متواتر مواقع دیے جاتے تو شائد آج ٹرافی ہماری ہوتی، صرف ایک میچ میں کھلا کر نہ صرف عبدالرزاق بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی ناانصافی کی گئی ، ایسے میں اگر انھوں نے وطن واپسی پر کپتان کا بھانڈا پھوڑ دیا تو اس پر بُرا نہیں ماننا چاہیے۔


میں عبدالرزاق کو14،15برس سے اچھی طرح جانتا ہوں گوکہ آج کل وہ میری بعض تحریروں کی وجہ سے ناراض ہیں، مگر ان کے بارے میں ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان کے ساتھ100فیصد کمیٹڈ ہیں، جب بھی میدان میں اتریں ٹیم کی بھلائی کے لیے جان لڑا دیتے ہیں، عبدالرزاق نے اگر وطن واپسی پر حفیظ کے خلاف اظہار ناراضی کیا تو اس کی وجہ صرف انفرادی نہیں تھی بلکہ انھیں غصہ اس بات پر تھا کہ ٹیم ہار گئی اگر وہ کھیل رہے ہوتے تو ایسا نتیجہ نہ سامنے آتا۔ اب عبدالرزاق کو شوکاز نوٹس تو جاری ہو چکا مگر جرمانہ یا پابندی عائد کرنا درست نہیں ہو گا، نوٹس تو ان لوگوں کو دینا چاہیے جنھوں نے اتنے اچھے کھلاڑی کو باہر بٹھا کر ٹیم کے ساتھ غلط کیا۔

پاکستان کو ناصر جمشید کی صورت میں ایک اچھا بیٹسمین مل گیا مگر بعض اوقات وہ حد سے زیادہ خوداعتمادی کے سبب وکٹ گنوا دیتے ہیں، ورلڈکپ کے دوران کئی بار ایسا ہوا، انھیں اگر طویل عرصے کرکٹ کھیلنی ہے تو قدم زمین پر ہی رکھنے ہوں گے، زیادہ اونچا اڑنے والے یکایک گر پڑتے ہیں۔اسی طرح عمراکمل بہترین بیٹسمین ہیں، میری رائے کے مطابق ٹیلنٹ میں ان کا مقابلہ جاوید میانداد سے کیا جا سکتا ہے مگر وہ اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھاتے، جس دن عمر نے عقل سے کھیلنا شروع کیا، ویرت کوہلی وغیرہ سب کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

میگا ایونٹ میں شعیب ملک بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، ان پر سفارشی کا ٹھپا لگا ہوا ہے جسے دور کرنے کے لیے چند اچھی پرفارمنسز کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے وہ ایسا نہیں کر پا رہے، بولنگ میں کپتان کو ان پر اعتماد نہیں اور بیٹنگ اچھی ہو نہیں رہی، ایسے میں شائد ایک بار پھر انھیں ٹیم سے باہر ہونا پڑے۔

پاکستان ماضی میں فاسٹ بولرز کے بل بوتے پر میچز جیتا کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا، عمر گل مین بولر ہیں مگر6 میچز میں3 ہی وکٹیں لے سکے،یاسر عرفات کیلیے انگلینڈ میں کائونٹی کرکٹ کھیلنا ہی بہتر ہے، ان کے سفارشیوں کو بھی اب کچھ ملک کا سوچنا چاہیے، سہیل تنویر کی کرکٹ سے زیادہ دیگر کاموں میں دلچسپی ہے، ان کو مزید مواقع دینا فضول ہی ہو گا، پاکستان کو سنجیدگی سے نئے فاسٹ بولرز کی تلاش شروع کرنی چاہیے بصورت دیگر مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسپنرز کب تک میچز جتواتے رہیں گے، سعید اجمل نے گوکہ ورلڈکپ میں9 وکٹیں لیں لیکن ان میں سے 4 ایک ہی میچ کیویز کے خلاف ملیں، دیگر 5 میچز میں انھوں نے اتنے ہی پلیئرز کو آئوٹ کیا، وہ ہر میچ نہیں جتوا سکتے دیگر بولرز کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا، نوجوان رضا حسن کو اسپن اٹیک میں اچھا اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے، وہ اور محمد حفیظ رنز روکنے میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔

ٹوئنٹی20ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے میں قسمت کا اہم کردار رہا، عمرگل نے اپنی بولنگ سے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں ناقابل یقین فتح دلائی، اگر مگر سے بچتے ہوتے ٹیم فائنل فور میں پہنچی جہاں سری لنکا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، اب اس شکست کا ملبہ خراب پچ پر ڈالنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر بہتری کی کوششیں کرنا ہوں گی، اس وقت ہر جانب یہی باتیں ہو رہی ہیں کہ سینئرز کو ٹیم سے باہر کر دیا جائے تاہم بھارت کیخلاف اہم سیریز سے قبل کیا یہ خطرہ مول لیا جا سکتا ہے؟ پڑوسی ملک میں کئی برس بعد ہونے والی سیریز خاصے دبائو کی حامل ہو گی، اس سے پہلے کوئی اور میچز بھی نہیں جہاں نئے پلیئرز کو آزما کر اعتماد حاصل کرنے کا موقع دیا جائے، پاک بھارت کرکٹ تعلقات طویل عرصے بعد بحال ہو رہے ہیں۔

لہٰذا دنیا بھر کی نگاہیں اس سیریز پر مرکوز ہوں گی، زیادہ نوجوان پلیئرز کو چانس دینا پانچوں میچز میں ناکامی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ البتہ ایک،دو نئے کھلاڑیوں کو آزمانا غلط نہیں ہو گا، آئوٹ آف فارم سینئرز کو ڈومیسٹک کرکٹ کے ہر میچ میں حصہ لینے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ سیریز سے قبل تربیتی کیمپ لگا کر بھی ان کی تکنیکی خامیاں دور کرائی جا سکتی ہیں، اس کے لیے ظہیر عباس، جاوید میانداد اور وسیم اکرم جیسے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کرنا مناسب رہے گا۔

میانداد کئی برس سے پی سی بی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں مگر زیادہ تر غیرفعال ہی رہے، اب جب وہ فعال ہوئے تو دیگر کئی ٹاپ آفیشلز کو غیرفعال کر دیا، ماضی میں انتخاب عالم کو ایک ساتھ کئی ذمہ داریاں دے کر سنگین غلطی کی گئی جس کا بورڈ کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا اب میانداد کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے،وہ کھلاڑیوں سے ملاقات کے لیے سری لنکا گئے اور ٹپس دے کر کوچ ڈیوواٹمور کو ناراض کیا، سابق قائد ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات بھی دیکھ رہے اور انتظامی امور میں بھی سرگرم ہیں، وہ عظیم بیٹسمین رہے ہیں اور ان سے کرکٹنگ کام ہی لینے چاہئیں۔ پی سی بی میں سبحان احمد جیسے محنتی افسران بھی موجود ہیں۔

جنھوں نے پس پردہ رہتے ہوئے کھیل کے فروغ کے لیے دل جمعی سے کام کیا، وہ ترقی کی سیٹرھیاں چڑھ کر چیف آپریٹنگ آفیسر بنے، انتظامی نوعیت کے کام ایسے افراد کو ہی کرنے دینے چاہئیں، چیئرمین ذکا اشرف کے دور میں کافی مثبت چیزیں دیکھنے کو ملی ہیں، دیگر بورڈز اورآئی سی سی میں ان کی اچھی ساکھ بن چکی، پاک بھارت کرکٹ کی بحالی بھی انہی کا کارنامہ ہے، انھیں بس اپنی ٹیم ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اس سے مزید بہتری دیکھنے میں آئے گی۔

ان دنوں کرکٹ میں ایک بار پھر فکسنگ تنازع کا شور ہے مگر اس بار امپائرز لپیٹ میں آئے ہیں، واضح طور پر یہ بھارتی میڈیا کی سازش لگتی ہے جنھوں نے اپنے آفیشلز کو تو بچا لیا مگر پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے امپائرز کو کرپٹ قرار دے دیا، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ معاملے میں الجھے ہوئے تمام افراد دودھ کے دھلے ہیں یقینا انھوں نے اتنی بڑھکیں ماریں کہ مشکلات میں پھنس گئے، اب تحقیقات سے ہی حقائق کا علم ہو گا تاہم اگر الزام ثابت ہو گیا تو پاکستان کی مزید بدنامی ہو گی، ویسے ہی سلمان بٹ، محمد عامر،آصف اور دانش کنیریا نے ملکی کرکٹ کو بدنامی کی کھائی میں دھکیل رکھا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ انھیں کوئی پچھتائوا بھی نہیں ہے، گذشتہ دنوں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر سلمان بٹ ہیرو بن کر تبصرے کرتے دکھائی دیے، ایسا محسوس ہوا جیسے وہ جیل میں قید کاٹ کر نہیں بلکہ ملک کے لیے کوئی کارنامہ انجام دے کر وطن واپس آئے ہوں۔ بجائے یہ کہ وہ اپنی غلطی مان لیں اب بھی بے گناہی پر اصرار کر رہے ہیں، انھیں کچھ تو شرم کرنی چاہیے، اگر وہ بے قصور تھے تو جیل کیوں ہوئی اور کیوں وہ خاموش رہے۔ سلمان جتنا لو پروفائل میں رہیں گے اچھا ہے، ورنہ نہ صرف ان کا بلکہ ملک کا بھی مذاق بنتا رہے گا۔

 
Load Next Story