ناقص وکٹوں پر بے جان کھیل… ٹوئنٹی 20 کرکٹ کا حسن داغدار
سپر 8 مرحلے میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کا میچ دونوں ٹیموں کی بیٹنگ لائن کے لئے امتحان تھا
فلک بوس چھکے، برق رفتار چوکے، غیر روایتی سٹروکس، ٹوئنٹی 20 کرکٹ کی جان ہیں۔
سپورٹنگ پچ پر اچھی گیندیں بیٹسمین کا امتحان لیتی ہیں تو دوسری طرف رنز سکور کرنے کے مواقع بھی ملتے ہیں، سری لنکا میں ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل ہی شائقین کو اندازہ تھا کہ اس بار جنوبی افریقہ یا انگلینڈ میں کھیلے گئے میگا ایونٹس جیسی صورتحال نہیں ہو گی لیکن کئی پچوں پر میچوں میں ٹیسٹ کرکٹ جیسا ماحول نظر آنے کی توقع بھی نہیں تھی۔
ہوم گرائونڈ اور کرائوڈ کا فائدہ میزبان ٹیم کو ہوتا ہے، سری لنکا کو بھی یہ حق حاصل تھا مگر ہمبنٹوٹا اور پالے کیلی کے برعکس کولمبو میں دوسری ٹیموں کی مہم کمزور کرنے کے لئے خاص طور پر جو ''اہتمام'' کیا گیا اس نے ٹوئنٹی 20 کرکٹ کا حسن داغدار کیا۔ سپر 8 مرحلے میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کا میچ دونوں ٹیموں کی بیٹنگ لائن کے لئے امتحان تھا، پروٹیز نے 6وکٹوں پر صرف 133 رنز بنائے، عمر گل نے عمر اکمل کی معاونت سے مقابلہ دلچسپ بناتے ہوئے حیران کن انداز میں ہدف حاصل کر لیا ورنہ شائقین دونوں گرین شرٹس ٹیموں کی بیٹنگ میں ناقص کارکردگی کے ساتھ ساتھ کیوریٹرز اور منتظمین کی پرفارمنس پر بھی برہم نظر آ رہے تھے۔
بعد ازاں بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف لاکھ جتن کرنے کے باوجود 140 تک محدود رہی جبکہ پروٹیز بھی کینگروز کے خلاف 146 سے آگے نہ بڑھ پائے۔ دونوں میچ آسٹریلوی ٹیم نے اپنے زور آور بیٹسمینوں کے بل بوتے پر جیتے جن کا دن اچھا ہو تو کسی بھی پچ پر حریف کے چھکے چھڑا دیتے ہیں۔ پاکستان ٹیم بھارت کے خلاف میچ میں 128رنز کا مجموعہ ہی تشکیل دے پائی، ویرات کوہلی اور گرین شرٹس فیلڈرز نے روایتی حریف کے لئے فتح آسان بنا دی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف غیر متوقع کامیابی کے بعد پاکستان کو آسٹریلیا کو لازمی طور پر زیر کرنا تھا جس کے لئے 149 کا مجموعہ بھی کافی ثابت ہوا۔
کینگروز نے سٹروک میکرز کی ناکامی کے بعد وکٹ اور پاکستانی بولرز کے تیور دیکھتے ہوئے ہدف کا تعاقب ترک کر کے صرف سیمی فائنل تک رسائی کے لئے درکار 111 رنز جوڑنے پر ہی توجہ مرکوز کر دی، مائیک ہسی مرد بحران بن کر سمجھ داری کا مظاہرہ نہ کرتے تو ایک موقع پر ٹورنامنٹ سے باہر ہو جانے کے خطرات سر پر منڈلاتے نظر آ رہے تھے، بعد ازاں بھارتی ٹیم 152 رنز بنا کر جنوبی افریقہ کے خلاف فتح یاب تو ہوئی مگر بد قسمتی سے حریف کو اتنے کم سکور پر آئوٹ نہ کرپائی کہ فائنل فور میں شامل ہو کر پاکستان کو باہر جانے کاراستہ دکھاسکتی۔
دھواں اڑاتی لو اور سلو وکٹوں پر سب سے بڑا سکور 196 انگلینڈ کا افغانستان کے خلاف تھا، دوسرا بڑا مجموعہ ویسٹ انڈیز کا آسٹریلیا سے میچ میں 191 رہا جبکہ تیسرا بھارت کا افغانستان کے مقابل 159 تھا۔ جے وردھنے کے لئے یہ بڑی آئیڈیل صورتحال تھی، سیمی فائنل میں پاکستان کو ایسی پچ پر کھلانے کا فیصلہ کیا گیا جہاں ویمنز میچ کے 40اوورز کرائے جا چکے تھے، سری لنکا نے اپنی وکٹوں پر ریورس سٹروک، ریورس سویپ ، ریورس پیڈلز، ریورس پلز کے ذریعے سکور بورڈ متحرک رکھنے والے کپتان کی مہارت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے گرتے پڑتے 4وکٹوں پر 139رنز بنا لئے تو پر اعتماد تھے کہ گرین شرٹس ان کے پھیلائے جال سے نکلنے میں ناکام رہیں گے۔
دلشان جیسا بیٹسمین 43 گیندوں پر 35 رنز سکور کرے اور آئی لینڈرز کی پوری اننگز میں ایک بھی چھکا نہ ہو تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جے وردھنے کے چہرے پر اطمینان کیوں تھا، رہی سہی کسر پاکستانی بیٹسمینوں کی غیر ذمہ داری نے پوری کر دی جو جے وردھنے کی اننگز سے کچھ سیکھنے اور اپنی ٹیم کی نیا پار لگانے میں ناکام رہے، ایک مشکل وکٹ پر کہیں جوش تو کہیں ہوش کی کمی نظر آئی اور 16 رنز سے شکست نے میزبان ٹیم کا ''ماسٹر پلان'' کامیاب بنا دیا جبکہ پاکستانی شائقین مایوسی کے سمندر میں غرق نظر آئے۔ پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور شائقین نے صدائے احتجاج بلند کی تو آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ رچرڈ سن نے بھی اعتراف کر لیا کہ سیمی فائنل کے لئے پچ ناقص اور ٹوئنٹی 20 کرکٹ کے لئے آئیڈیل نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں اننگز میں ٹرف کی حالت ایک جیسی رہنا چاہیے۔ پاکستان کو ایک ایسی پچ پر ہدف کا تعاقب کرنے کا چیلنج در پیش تھا جس پر 60اوورز پہلے ہی کھیلے جا چکے تھے، ایسی صورت میں حالت بہتر رہنے کی توقع ہی کیسے کی جا سکتی، خوش قسمتی سے ویسٹ انڈیز کو بہتر ٹرف پر پہلے بیٹنگ اور آسٹریلیا کی دھنائی کا موقع مل گیا اور ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا مجموعہ 205 سکور بورڈ کی زینت بنا جس کا حریف ٹیم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دوسری طرف سری لنکن گڑھا کھود کر پاکستان کے بعد فائنل میں ویسٹ انڈیز کو بھی گرانے کے لئے گھات لگائے بیٹھے تھے مگر خود ہی اسی میں گر پڑے، کیریبیئن کی بیٹنگ کے ابتدائی 10اوورز میں 2وکٹوں پر 32رنز بنے، میزبان ٹیم اور شائقین کے دل چمپئن چمپئن کا راگ الاپنے لگے ہوں گے۔
مگر مارلن سیموئلز نے 4کٹیںلینے والے اجنتھا مینڈس کے بعد کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 56گیندوں پر 6 چھکوں سمیت 78 رنز بنا کر ٹیم کو 137 کا قابل قدر ٹوٹل حاصل کرنے میں مدد دی۔ لیستھ مالنگا کو 4اوورز میں پڑنے والے 54 رنز لو اور سلو وکٹ بنانے کی ایسی سزا تھی جو زندگی بھر کی درجنوں کامیابیوں پر بھاری رہے گی۔ آئی لینڈرز کی اننگز میں 3 اوور، ایک میڈن، 2رنز اور دلشان کی وکٹ کے فیگرز دیکھ کر ہی نظر آنے لگا تھا کہ دوسروں کو مشکل میں ڈالنے والے آج خود امتحان میں پڑ گئے ہیں، وہ بھی ایک ایسے میچ میں جو گزشتہ 3 میگا فائنلز ہارنے کی تلافی کر سکتا تھا، 60 رنز تک کے سفر میں ہی سنگا کارا، میتھیوز اور جے وردھنے کی رخصتی نے راستہ دشوار کیا، بعد ازاں کولاسیکرا کی ریسکیو مہم بھی سری لنکا کو شکست کے گڑھے سے نکالنے میں ناکام رہی۔
سری لنکا خاص طور پر کولمبو میں غیر موزوں وکٹوں پر اٹھنے والی آوازوں میں آئی سی سی کی ہمنوائی حوصلہ افزائی تھی مگر بعد ازاں اس ضمن میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں آئی، نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ ٹوئنٹی 20 فارمیٹ اب غیر سنجیدہ کرکٹ کا لیبل اتار کر مہارت، ذہانت اور بر وقت فیصلوں کا تقاضا کرنے والا کھیل بن چکا جس میں کروڑوں شائقین کشش محسوس کرتے ہیں، آئی سی سی کو جلد از جلد پچوں کے حوالے سے پالیسی وضع کر لینا چاہیے تاکہ کسی ٹیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے نا کوئی ایسا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو کہ کھیل کا اصل حسن ہی تباہ ہو جائے، ٹرف غیر موزوں رہے تو ٹوئنٹی 20 کرکٹ میں شائقین کی دلچسپی بتدریج کم ہوتی جائے گی۔
سپورٹنگ پچ پر اچھی گیندیں بیٹسمین کا امتحان لیتی ہیں تو دوسری طرف رنز سکور کرنے کے مواقع بھی ملتے ہیں، سری لنکا میں ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل ہی شائقین کو اندازہ تھا کہ اس بار جنوبی افریقہ یا انگلینڈ میں کھیلے گئے میگا ایونٹس جیسی صورتحال نہیں ہو گی لیکن کئی پچوں پر میچوں میں ٹیسٹ کرکٹ جیسا ماحول نظر آنے کی توقع بھی نہیں تھی۔
ہوم گرائونڈ اور کرائوڈ کا فائدہ میزبان ٹیم کو ہوتا ہے، سری لنکا کو بھی یہ حق حاصل تھا مگر ہمبنٹوٹا اور پالے کیلی کے برعکس کولمبو میں دوسری ٹیموں کی مہم کمزور کرنے کے لئے خاص طور پر جو ''اہتمام'' کیا گیا اس نے ٹوئنٹی 20 کرکٹ کا حسن داغدار کیا۔ سپر 8 مرحلے میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کا میچ دونوں ٹیموں کی بیٹنگ لائن کے لئے امتحان تھا، پروٹیز نے 6وکٹوں پر صرف 133 رنز بنائے، عمر گل نے عمر اکمل کی معاونت سے مقابلہ دلچسپ بناتے ہوئے حیران کن انداز میں ہدف حاصل کر لیا ورنہ شائقین دونوں گرین شرٹس ٹیموں کی بیٹنگ میں ناقص کارکردگی کے ساتھ ساتھ کیوریٹرز اور منتظمین کی پرفارمنس پر بھی برہم نظر آ رہے تھے۔
بعد ازاں بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف لاکھ جتن کرنے کے باوجود 140 تک محدود رہی جبکہ پروٹیز بھی کینگروز کے خلاف 146 سے آگے نہ بڑھ پائے۔ دونوں میچ آسٹریلوی ٹیم نے اپنے زور آور بیٹسمینوں کے بل بوتے پر جیتے جن کا دن اچھا ہو تو کسی بھی پچ پر حریف کے چھکے چھڑا دیتے ہیں۔ پاکستان ٹیم بھارت کے خلاف میچ میں 128رنز کا مجموعہ ہی تشکیل دے پائی، ویرات کوہلی اور گرین شرٹس فیلڈرز نے روایتی حریف کے لئے فتح آسان بنا دی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف غیر متوقع کامیابی کے بعد پاکستان کو آسٹریلیا کو لازمی طور پر زیر کرنا تھا جس کے لئے 149 کا مجموعہ بھی کافی ثابت ہوا۔
کینگروز نے سٹروک میکرز کی ناکامی کے بعد وکٹ اور پاکستانی بولرز کے تیور دیکھتے ہوئے ہدف کا تعاقب ترک کر کے صرف سیمی فائنل تک رسائی کے لئے درکار 111 رنز جوڑنے پر ہی توجہ مرکوز کر دی، مائیک ہسی مرد بحران بن کر سمجھ داری کا مظاہرہ نہ کرتے تو ایک موقع پر ٹورنامنٹ سے باہر ہو جانے کے خطرات سر پر منڈلاتے نظر آ رہے تھے، بعد ازاں بھارتی ٹیم 152 رنز بنا کر جنوبی افریقہ کے خلاف فتح یاب تو ہوئی مگر بد قسمتی سے حریف کو اتنے کم سکور پر آئوٹ نہ کرپائی کہ فائنل فور میں شامل ہو کر پاکستان کو باہر جانے کاراستہ دکھاسکتی۔
دھواں اڑاتی لو اور سلو وکٹوں پر سب سے بڑا سکور 196 انگلینڈ کا افغانستان کے خلاف تھا، دوسرا بڑا مجموعہ ویسٹ انڈیز کا آسٹریلیا سے میچ میں 191 رہا جبکہ تیسرا بھارت کا افغانستان کے مقابل 159 تھا۔ جے وردھنے کے لئے یہ بڑی آئیڈیل صورتحال تھی، سیمی فائنل میں پاکستان کو ایسی پچ پر کھلانے کا فیصلہ کیا گیا جہاں ویمنز میچ کے 40اوورز کرائے جا چکے تھے، سری لنکا نے اپنی وکٹوں پر ریورس سٹروک، ریورس سویپ ، ریورس پیڈلز، ریورس پلز کے ذریعے سکور بورڈ متحرک رکھنے والے کپتان کی مہارت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے گرتے پڑتے 4وکٹوں پر 139رنز بنا لئے تو پر اعتماد تھے کہ گرین شرٹس ان کے پھیلائے جال سے نکلنے میں ناکام رہیں گے۔
دلشان جیسا بیٹسمین 43 گیندوں پر 35 رنز سکور کرے اور آئی لینڈرز کی پوری اننگز میں ایک بھی چھکا نہ ہو تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جے وردھنے کے چہرے پر اطمینان کیوں تھا، رہی سہی کسر پاکستانی بیٹسمینوں کی غیر ذمہ داری نے پوری کر دی جو جے وردھنے کی اننگز سے کچھ سیکھنے اور اپنی ٹیم کی نیا پار لگانے میں ناکام رہے، ایک مشکل وکٹ پر کہیں جوش تو کہیں ہوش کی کمی نظر آئی اور 16 رنز سے شکست نے میزبان ٹیم کا ''ماسٹر پلان'' کامیاب بنا دیا جبکہ پاکستانی شائقین مایوسی کے سمندر میں غرق نظر آئے۔ پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور شائقین نے صدائے احتجاج بلند کی تو آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ رچرڈ سن نے بھی اعتراف کر لیا کہ سیمی فائنل کے لئے پچ ناقص اور ٹوئنٹی 20 کرکٹ کے لئے آئیڈیل نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں اننگز میں ٹرف کی حالت ایک جیسی رہنا چاہیے۔ پاکستان کو ایک ایسی پچ پر ہدف کا تعاقب کرنے کا چیلنج در پیش تھا جس پر 60اوورز پہلے ہی کھیلے جا چکے تھے، ایسی صورت میں حالت بہتر رہنے کی توقع ہی کیسے کی جا سکتی، خوش قسمتی سے ویسٹ انڈیز کو بہتر ٹرف پر پہلے بیٹنگ اور آسٹریلیا کی دھنائی کا موقع مل گیا اور ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا مجموعہ 205 سکور بورڈ کی زینت بنا جس کا حریف ٹیم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دوسری طرف سری لنکن گڑھا کھود کر پاکستان کے بعد فائنل میں ویسٹ انڈیز کو بھی گرانے کے لئے گھات لگائے بیٹھے تھے مگر خود ہی اسی میں گر پڑے، کیریبیئن کی بیٹنگ کے ابتدائی 10اوورز میں 2وکٹوں پر 32رنز بنے، میزبان ٹیم اور شائقین کے دل چمپئن چمپئن کا راگ الاپنے لگے ہوں گے۔
مگر مارلن سیموئلز نے 4کٹیںلینے والے اجنتھا مینڈس کے بعد کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 56گیندوں پر 6 چھکوں سمیت 78 رنز بنا کر ٹیم کو 137 کا قابل قدر ٹوٹل حاصل کرنے میں مدد دی۔ لیستھ مالنگا کو 4اوورز میں پڑنے والے 54 رنز لو اور سلو وکٹ بنانے کی ایسی سزا تھی جو زندگی بھر کی درجنوں کامیابیوں پر بھاری رہے گی۔ آئی لینڈرز کی اننگز میں 3 اوور، ایک میڈن، 2رنز اور دلشان کی وکٹ کے فیگرز دیکھ کر ہی نظر آنے لگا تھا کہ دوسروں کو مشکل میں ڈالنے والے آج خود امتحان میں پڑ گئے ہیں، وہ بھی ایک ایسے میچ میں جو گزشتہ 3 میگا فائنلز ہارنے کی تلافی کر سکتا تھا، 60 رنز تک کے سفر میں ہی سنگا کارا، میتھیوز اور جے وردھنے کی رخصتی نے راستہ دشوار کیا، بعد ازاں کولاسیکرا کی ریسکیو مہم بھی سری لنکا کو شکست کے گڑھے سے نکالنے میں ناکام رہی۔
سری لنکا خاص طور پر کولمبو میں غیر موزوں وکٹوں پر اٹھنے والی آوازوں میں آئی سی سی کی ہمنوائی حوصلہ افزائی تھی مگر بعد ازاں اس ضمن میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں آئی، نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ ٹوئنٹی 20 فارمیٹ اب غیر سنجیدہ کرکٹ کا لیبل اتار کر مہارت، ذہانت اور بر وقت فیصلوں کا تقاضا کرنے والا کھیل بن چکا جس میں کروڑوں شائقین کشش محسوس کرتے ہیں، آئی سی سی کو جلد از جلد پچوں کے حوالے سے پالیسی وضع کر لینا چاہیے تاکہ کسی ٹیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے نا کوئی ایسا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو کہ کھیل کا اصل حسن ہی تباہ ہو جائے، ٹرف غیر موزوں رہے تو ٹوئنٹی 20 کرکٹ میں شائقین کی دلچسپی بتدریج کم ہوتی جائے گی۔