بلوچستان پر عدالت عظمیٰ کا عبوری حکم

لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے مقدمات کی تحقیقات سی آئی ڈی سے کرائی جائے

بلوچستان حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے‘ صوبے میں خفیہ ایجنسیوں کی بھی مداخلت ہے. فوٹو: فائل

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکن بنچ نے جمعے کو بلوچستان امن و امان کیس میں عبوری حکم جاری کر دیا ہے۔

فاضل عدالت نے اپنے عبوری حکم میں قرار دیا ہے کہ بلوچستان حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے' صوبے میں خفیہ ایجنسیوں کی بھی مداخلت ہے لہٰذا صوبائی حکومت حکمرانی کا جواز کھو چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ یہ وفاق کی ذمے داری ہے کہ وہ بلوچستان میں اندرونی گڑبڑ کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔ صوبائی حکومت کو خاموش تماشائی نہیں بننے دیا جائے گا۔ اس لیے وفاقی حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے موثر اقدام کرے اور تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے مقدمات کی تحقیقات سی آئی ڈی سے کرائی جائے۔

عدالت نے تسلیم کیا کہ صوبے میں ایف سی کے 43 اہلکار و افسران مارے گئے جب کہ ہر لاپتہ شخص کو لاپتہ کرنے کا الزام بھی ایف سی پر لگایا جاتا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے اسلحہ و گاڑیوں کی راہداری جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہیے جب کہ سرکاری وسائل کے استعمال کو بھی چیک کیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ڈیرہ بگٹی اور دیگر علاقوں سے ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور وہاں سول ایڈمنسٹریشن کو بحال کر کے تمام اسکول اور اسپتال کھولے جائیں۔

آیندہ کسی بھی اسمگل شدہ اور نان کسٹم پیڈ گاڑی کو چلنے نہ دیا جائے اور موبائل فون سمز کو ریگولیٹ کیا جائے۔ ادھر بلوچستان کے بارے میں قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی ایک قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صوبے میں وسیع البنیاد اور موثر سیاسی مفاہمت کا عمل بروئے کار لانے کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل آل پارٹیز کمیشن تشکیل دیا جائے جو لاتعلقی اختیار کیے ہوئے تمام سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو سیاسی دھارے میں واپس لانے کے لیے اپنی سفارشات ایوان کو پیش کرے۔ پارلیمنٹ میں نمایندگی نہ رکھنے والی جماعتوں کو بھی اس کمیشن میں شامل کیا جائے اور اس کمیشن کا مینڈیٹ لاتعلقی اختیار کیے ہوئے تمام سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو قومی سیاسی دھارے میں واپس لانا ہو گا۔


سپریم کورٹ آف پاکستان کا عبوری حکم بہت سی جہتیں لیے ہوئے ہے' سب سے پہلا اور اہم ترین نکتہ تو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کے بارے میں یہ واضح کیا ہے کہ غالباً وہ اپنی حکمرانی کا جواز کھو رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم نامے میں ماضی کے ایک مقدمہ (وطن پارٹی بنام وفاق پاکستان پی ایل ڈی 2011ء ایس سی 997) کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ''منتخب نمایندوں پر آئین کے تحت اور اگر وہ محسوس کریں تو اپنے سیاسی فرائض کے تحت یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اگر وہ قانون اور امن عامہ کی موجودہ صورت حال کو برقرار رہنے دیتے ہیں تو اس کے ذمے دار وہ خود ہوں گے۔

بصورت دیگر قانون اور آئین کے تحت وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت' حقوق کے تحفظ اور نقل و حرکت کی آزادی وغیرہ کو یقینی بنانے کے پابند ہیں اور اگر اس میں وہ ناکام ہوئے تو آئینی طور پر ایسی حکومت حکمرانی کا جواز کھو بیٹھتی ہے۔'' ماضی میں 1988ء' 1990ء اور 1996ء کے دوران صدر کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے احکامات کو بھی سپریم کورٹ نے حکم نامے کا حصہ بنایا ہے۔ بہرحال عدالت عظمیٰ کے عبوری حکم نامے پر صوبائی حکومت اور وفاق کا کیا مؤقف ہے اور وہ اس فیصلے کی روشنی میں کیا اقدامات کرتی ہیں' اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وفاق پاکستان کے پاس عدالت عظمیٰ کے حکم کی روشنی میں کیا آپشنز ہیں' اس پر ارباب اختیار یقیناً سوچ بچار کر رہے ہوں گے۔ اس ساری آئینی اور قانونی بحث سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان ایک پسماندہ اور غریب صوبہ ہے۔

اس کی غربت اور پسماندگی کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ یہاں طویل المدتی ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کیے گئے اور صرف لسبیلہ ضلع کے چند حصوں کے سوا صوبے بھر میں کوئی صنعت فعال نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبائی وزراء اور ایم پی ایز کو ترقیاتی سکمیں شروع کرنے کے لیے حکومت نے کروڑوں روپے کے فنڈز منظور کر رکھے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ منصوبے نظر نہیں آتے۔ یہ رقوم کہاں خرچ ہو رہی ہیں، اس کے بارے میں بھی کوئی پتہ نہیں۔ بلوچستان میں گڑبڑ' پسماندگی اور احساس محرومی کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہاں ترقیاتی منصوبے اول تو شروع ہی نہیں ہو سکے اور جو شروع ہوتے ہیں وہ بھی زیادہ تر کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ یوں صوبے میں غیر ہنر مند اور تربیت یافتہ دونوں قسم کے محنت کشوں کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورے صوبے میں صرف کوئٹہ کسی حد تک شہری کلچر کا حامل ہے۔

صوبے کا صدیوں پرانا قبائلی نظام بھی جوں کا توں ہے اور یہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صوبے میں سماجی اور معاشی تبدیلی کا عمل شروع ہی نہیں ہو سکا۔ صوبے کی انتظامی تقسیم بھی گڑبڑ اور بدامنی کی بنیادی وجہ ہے۔ صوبے کی موجودہ صوبائی حکومت عام انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی ہے لیکن وہ یہاں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اب سپریم کورٹ کے حکم میں اس حکومت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ناکام ہو گئی ہے لہذا اس پر اب مزید کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبے کے حالات بہتر بنانے کے لیے وفاق پاکستان کیا اقدامات کرے گا؟ ماضی میں صوبوں میں گورنر راج کے نفاذ کی مثالیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود حالات بہتر نہیں ہو سکے تھے۔ اب موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت بھی پوری ہونے والی ہے۔

کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ عام انتخابات تک انتظار کر لیا جائے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کی قرارداد کو بھی وزن دیا جانا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل کمیشن قائم کیا جائے جو ناراض بلوچ قیادت کو عام انتخابات میں شرکت پر آمادہ کرے۔ اگر فروری 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی عام انتخابات میں حصہ لیں تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں جو صوبائی حکومت قائم ہو گی' وہ وفاق کے بھرپور تعاون سے بلوچستان کے حالات کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
Load Next Story