ایران پر امریکا کا نیا الزام
ایران پر ناروا پابندیاں لگانے والوں کو خود اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی، ایرانی وزیر خزانہ شمس الدین حسینی
ایران نے کہا ہے کہ مغربی دنیا نے ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے بہانے سے جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کا خمیازہ خود مغربی ممالک کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
ایرانی وزیر خزانہ شمس الدین حسینی نے جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک ایران پر اقتصادی پابندیوں میں دن بدن جو اضافہ کر رہے ہیں،اس سے ایرانی تیل کی برآمدات میں کمی واقع ہو گئی ہے لیکن اس کے منفی اثرات خود مغربی ممالک کی کرنسیوں پر مرتب ہو رہے ہیں اور ان ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایرانی وزیر نے کہا کہ مغربی دنیا نے ایران کے خلاف اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے تا کہ ایران کی معیشت کو تباہ کیا جا سکے مگر ایران اب دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت شروع کر دے گا جس سے تمام خسارہ مغربی کمپنیوں کو ہو گا۔ ایرانی وزیر خزانہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجلاس میں شرکت کے لیے ٹوکیو پہنچے ہیں۔
جہاں ایک پریس بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے اطلاق کا زیادہ نقصان خود مغربی ممالک کی کمپنیوں کو ہو رہا ہے، اور جرمنی کے بجائے اب ترکی ہمارا اہم تجارتی پارٹنر بن گیا ہے جب کہ جاپان کے قبضے میں جو مارکیٹ تھی وہ اب چین ہتھیا لے گا۔ شمس الدین حسینی نے خبردار کیا کہ ایران پر ناروا پابندیاں لگانے والوں کو خود اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران پر پابندیوں کے باعث اس کی کرنسی کی قدر میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم دو تہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ادھر واشنگٹن میں امریکی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ خلیج عرب کی تیل اور گیس کمپنیوں پر جو حالیہ سائبر حملے کیے گئے ہیں، ان کے ذمے دار ایرانی ہیکرز ہیں جنھیں مبینہ طور پر تہران حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
امریکی حکام کے مطابق یہ سائبر حملے ایران پر مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کے ردعمل میں کیے گئے ہیں۔ مغربی ممالک کی تیل کمپنیوں کے خلاف ایرانی ہیکروں کے سائبر حملوں کا امریکا میں اس قدر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے دو روز قبل نیویارک میں ایک اجلاس سے خطاب میں سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سائبر حملے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ پنیٹا نے ان سائبر حملوں کے حوالے سے براہ راست ایران کا نام تو نہیں لیا تاہم یہ دعویٰ ضرور کیا ہے کہ امریکا نے ایسی ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے جس سے سائبر حملہ کرنے والوں کا سراغ لگا لیا جا ئے گا۔
جس کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ادھر امریکی ذرایع ابلاغ ایک امریکی افسر کے حوالے سے یہ دعویٰ کررہے ہیںکہ صدر اوباما کو پتہ چل گیا ہے کہ خلیجی کمپنیوں پر سائبر حملے کس نے کیے ہیں اور اس میں ایک حکومت بھی ملوث ہے، چنانچہ امریکی حکومت خلیجی تیل کمپنیوں کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات میں ان کی پوری مدد کر رہی ہے۔ امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سازش میں ایک ریاست بھی شامل ہے۔ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ سائبر حملہ کرنے والے جانتے ہیں کہ امریکا ان کا سراغ لگا لے گا۔
جس کا ثبوت ایران میں سرکاری سطح پر کیے جانے والے بعض اقدامات سے بھی ملتا ہے۔ دیگر متعلقہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پنیٹا کی تقریر کے بعد اب سائبر حملہ کرنے والے بے حد محتاط ہو جائیں گے اور شاید ان کو دوبارہ ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ بعض مبصرین نے خلیجی تیل کمپنیوں کے ریکارڈ پر سائبر حملے کے جواب میں امریکا کی طرف سے ضرورت سے زیادہ شدید ردعمل پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے ڈرون حملے جن کے نتیجے میں آئے دن درجنوں کے حساب سے غیر متعلقہ لوگ ہلاکت کا شکار ہو رہے ہیں وہ بھی سائبر وار کی ذیل میں آتے ہیں مگر امریکا کے لیے انسانوں کی ہلاکت کوئی اہم معاملہ نہیں' تیل کمپنیوں کا ریکارڈ زیادہ اہم ہے۔ اس سے یہ بھی نظر آتاہے کہ امریکا سائبر حملوں کی آڑ میں ایران کی حکومت کو اس میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔یہ صورتحال یقینا تشویش ناک ہے۔
ایرانی وزیر خزانہ شمس الدین حسینی نے جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک ایران پر اقتصادی پابندیوں میں دن بدن جو اضافہ کر رہے ہیں،اس سے ایرانی تیل کی برآمدات میں کمی واقع ہو گئی ہے لیکن اس کے منفی اثرات خود مغربی ممالک کی کرنسیوں پر مرتب ہو رہے ہیں اور ان ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایرانی وزیر نے کہا کہ مغربی دنیا نے ایران کے خلاف اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے تا کہ ایران کی معیشت کو تباہ کیا جا سکے مگر ایران اب دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت شروع کر دے گا جس سے تمام خسارہ مغربی کمپنیوں کو ہو گا۔ ایرانی وزیر خزانہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجلاس میں شرکت کے لیے ٹوکیو پہنچے ہیں۔
جہاں ایک پریس بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے اطلاق کا زیادہ نقصان خود مغربی ممالک کی کمپنیوں کو ہو رہا ہے، اور جرمنی کے بجائے اب ترکی ہمارا اہم تجارتی پارٹنر بن گیا ہے جب کہ جاپان کے قبضے میں جو مارکیٹ تھی وہ اب چین ہتھیا لے گا۔ شمس الدین حسینی نے خبردار کیا کہ ایران پر ناروا پابندیاں لگانے والوں کو خود اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران پر پابندیوں کے باعث اس کی کرنسی کی قدر میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم دو تہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ادھر واشنگٹن میں امریکی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ خلیج عرب کی تیل اور گیس کمپنیوں پر جو حالیہ سائبر حملے کیے گئے ہیں، ان کے ذمے دار ایرانی ہیکرز ہیں جنھیں مبینہ طور پر تہران حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
امریکی حکام کے مطابق یہ سائبر حملے ایران پر مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کے ردعمل میں کیے گئے ہیں۔ مغربی ممالک کی تیل کمپنیوں کے خلاف ایرانی ہیکروں کے سائبر حملوں کا امریکا میں اس قدر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے دو روز قبل نیویارک میں ایک اجلاس سے خطاب میں سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سائبر حملے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ پنیٹا نے ان سائبر حملوں کے حوالے سے براہ راست ایران کا نام تو نہیں لیا تاہم یہ دعویٰ ضرور کیا ہے کہ امریکا نے ایسی ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے جس سے سائبر حملہ کرنے والوں کا سراغ لگا لیا جا ئے گا۔
جس کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ادھر امریکی ذرایع ابلاغ ایک امریکی افسر کے حوالے سے یہ دعویٰ کررہے ہیںکہ صدر اوباما کو پتہ چل گیا ہے کہ خلیجی کمپنیوں پر سائبر حملے کس نے کیے ہیں اور اس میں ایک حکومت بھی ملوث ہے، چنانچہ امریکی حکومت خلیجی تیل کمپنیوں کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات میں ان کی پوری مدد کر رہی ہے۔ امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سازش میں ایک ریاست بھی شامل ہے۔ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ سائبر حملہ کرنے والے جانتے ہیں کہ امریکا ان کا سراغ لگا لے گا۔
جس کا ثبوت ایران میں سرکاری سطح پر کیے جانے والے بعض اقدامات سے بھی ملتا ہے۔ دیگر متعلقہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پنیٹا کی تقریر کے بعد اب سائبر حملہ کرنے والے بے حد محتاط ہو جائیں گے اور شاید ان کو دوبارہ ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ بعض مبصرین نے خلیجی تیل کمپنیوں کے ریکارڈ پر سائبر حملے کے جواب میں امریکا کی طرف سے ضرورت سے زیادہ شدید ردعمل پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے ڈرون حملے جن کے نتیجے میں آئے دن درجنوں کے حساب سے غیر متعلقہ لوگ ہلاکت کا شکار ہو رہے ہیں وہ بھی سائبر وار کی ذیل میں آتے ہیں مگر امریکا کے لیے انسانوں کی ہلاکت کوئی اہم معاملہ نہیں' تیل کمپنیوں کا ریکارڈ زیادہ اہم ہے۔ اس سے یہ بھی نظر آتاہے کہ امریکا سائبر حملوں کی آڑ میں ایران کی حکومت کو اس میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔یہ صورتحال یقینا تشویش ناک ہے۔