کمانڈو اور ایکٹریس کی کہانی
جنرل صاحب کو اپنے دور میں دہشتگردی کی جنگ کے طوفان کا سامنا رہا ہے جس کا مقابلہ انھوں نے امریکی ڈالروں سے خوب کیا
اداکارہ مسرت شاہین نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی ''آل پاکستان مسلم لیگ'' جوائن کر لی ہے۔
مسمات مسرت شاہین، شیخ رشید سکنہ لال حویلی والے کی طرح ایک عدد پارٹی جس کا نام ''تحریک مساوات'' ہے کی سولو مالک بھی ہیں۔ ظاہر ہے مسرت شاہین جب جنرل مشرف کی مسلم لیگ میں شامل ہو گئی ہیں تو ان کی تحریک مساوات بھی اس میں ضم ہو جائے گی۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ اب جنرل صاحب کی مسلم لیگ دو آتشہ ہو جائے گی۔ جنرل مشرف اور مسرت شاہین کی سیاسی سنگت کے منافع بخش ہونے کی مترنم گارنٹی احمد فراز اور شہنشاہ غزل مہدی حسن کی مشترکہ کاوش سے لی جا سکتی ہے۔ جو کچھ یوں ہے کہ
غمِ دنیا بھی غم ِ یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
مسرت شاہین بمع تحریک انصاف جنرل مشرف کی ''آل پاکستان مسلم لیگ'' سے الائنس کرنے کا اسٹیک ہولڈرز اور وطن عزیز کی سیاست کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ اس ضمن میں ''ایکس فیکٹر'' کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مذکورہ الائنس میں ایک ایکس کمانڈو ہیں اور دوسری ایکس ایکٹریس ہیں۔ سید پرویز مشرف 1964ء میں فوج سے وابستہ ہوئے جب کہ مسر ت شاہین 1975ء میں فلم انڈسٹری میں وارد ہوئیں۔ مسرت شاہین کی پہلی فلم ہی دھماکا خیز ثابت ہوئی جس کا نام ''دلہن ایک رات کی'' تھا۔ جنرل مشرف کو مسرت شاہین جیسا ''دھماکا'' کرنے میں35 سال لگے۔
جنرل مشرف نے گیارہ اکتوبر 1999ء کو منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا جسے میرے عزیز آصف عنایت بٹ نے ''بارہ اکتوبری'' کا نام دے رکھا ہے۔ بات ہو رہی تھی مسرت شاہین کی DEBUT (پہلی فلم) دلہن ایک رات کی، کی، جو میرے بچپن میں ریلیز ہوئی تھی۔ میرے شہر گوجرانوالہ میں مذکورہ فلم نون لیگ کے رہنما غلام دستگیر خان کے سنیما کشمیر محل میں نمائش کی گئی تھی۔ 37 سال بعد مجھے آج بھی یاد ہے مسرت شاہین نے اس فلم میں کلب ڈانسر کا کردار ادا کیا تھا۔
جنرل مشرف کے فوجی اور سیاسی کیرئیر میں 10 کا ہندسہ کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ آپ ہمارے دسویں صدر تھے۔ اپنی کتاب ''ان دی لائن آف فائر'' کے دسویں باب ''چیف سے چیف ایگزیکٹیو تک '' میں کہتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے لیے لامحدود اختیارات کے جنون میں صدر، آرمی چیف اور سپریم کورٹ کو ''فتح'' کرنے کے بعد مجھے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ اس کے بعد مجھے (جنرل مشرف) اس وقت آرمی چیف کے عہدے سے برخاست کیا جب میں کولمبو سے پاکستان ایئر لائن کی پرواز 805 سے پاکستان آ رہا تھا۔
جنرل صاحب الزام لگاتے ہیں کہ نواز شریف نے اقتدار کے نشے میں مجھ سمیت 198 بے قصور مسافروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا جس کے بعد فوج نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل مشرف سمیت ان کے تمام تر پیش رو جب، جب مورچوں اور محاذ سے اقتدار کے ایوانوں تک آتے رہے تو ان کا تھیسئس یہی رہا کہ سیاستدان غیر محب وطن، نااہل اور کرپٹ ہوتے ہیں۔ لیکن تاریخی عمل دیکھئے کہ تمام فوجی حکمران اپنے، اپنے زمانہ میں قومی سلامتی کی کوکھ سے بھانت، بھانت کی مسلم لیگیں جننے میں مصروف رہے۔
جنرل صاحب کی مذکورہ لیگ بھی حب الوطنی کی اسی زچہ بچہ وارڈ کی پیدائش ہے۔ یوں تو جنرل مشرف اور مسرت شاہین دونوں کے میدان اور محاذ مختلف رہے مگر دونوں نے اپنے، اپنے شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ جنرل مشرف نے اپنی زندگی کا 40 سال سے زائد عرصہ پاک فوج کو دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ملک کے لیے دو جنگیں لڑیں، دہشت گردی کی جنگ میں بھی انھوں نے دانشمندی سے جراتمندانہ اور بہادارانہ کردار ادا کیا۔
ادھر مسرت شاہین سیکڑوں فلموں میں کام کرتے ہوئے سیلولائیڈ پر اپنے انداز سے ''انقلاب'' کا باعث ثابت ہوئیں۔ ان کی ایک فلم کا نام بھی ''انقلاب'' تھا۔ فلم انقلاب میں نے دیکھی ہے اسے تو درجہ دوم قسم کا کوئی ثقافتی انقلاب بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ مسرت شاہین نے اپنے کیریئر میں جن فلموں میں کام کیا ہے ان کی وجہ تسمیہ کمانڈو جنرل مشرف کی زندگی کے سیاسی اور غیر سیاسی کارناموں سے مشابہت رکھتی ہے۔
1986 ء میں مسرت شاہین کی ایک فلم ''طوفان اور زندگی'' کی نمائش ہوئی تھی۔ جنرل صاحب کو اپنے دور میں عالمی دہشتگردی کی جنگ کے طوفان کا سامنا رہا ہے جس کا مقابلہ انھوں نے امریکی ڈالروں سے خوب کیا، وہ خود تو اس وقت لندن کی ٹھنڈی فضاوں میں ایک پر تعیش ریٹائرڈ لائف انجوائے کر رہے ہیں لیکن ہمیں آج بھی ایسے دشمن کا سامنا ہے جو ہماری 14 سالہ بچی ملالہ کو قتل کرنے کی کوشش کو عین ثواب سمجھے ہوئے ہے۔ مسرت شاہین کے دوسرے فلمی کارناموں میں ''بلیک کیٹ'' ''اندھا قاتل عرف چیخ'' ''سنگین جرم'' ''دوستی تے دشمنی'' اور ''سرکاری آرڈر'' اہم رہی ہیں۔
جنرل مشرف ہمارے ایسے چیف ایگزیکٹیو ہوئے ہیں جنھیں مارشل لاء پر مارشل لاء لگانے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ اپنے مذکورہ سرکاری آڈر کو جنرل صاحب نے ''ایمرجنسی پلس'' کا نام دیا تھا۔ صوتی اعتبار سے ایمر جنسی پلس وٹامن اے بی سی اور ڈی سے بھرپور کوئی میڈیسن معلوم ہوتی ہے مگر ہم سبھی جانتے ہیں کہ جنرل صاحب کے اس (جاتی بہار کے نسخہ) نے قوم کو ایک بہت بڑے بحران کی طرف دھکیل دیا تھا۔ مسرت شاہین کی فلمو گرافی میں ''آخری نکاح'' کے عنوان سے بھی ایک فلم شامل ہے۔
ذاتی طور پر میں نے ''آخری نکاح'' نہیں دیکھی لیکن آنکھیں بند کر کے کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ فلم کی کہانی اور سکرین پلے جنرل مشرف کی ذاتی زندگی سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی ہو گی۔ اس ضمن میں مخالف کیمپ میں پائے جانے والے اطوار معروف ہیں۔ اس کے علاوہ مسرت شاہین کی دیگر مشہور فلموں میں ''کفر و اسلام'' ''حسینہ ایٹم بم'' ''لیڈی باس'' ''جرمانہ'' ''مداری'' ''شریف بدمعاش'' ''خوبصورت دلہن'' ''موت کے سوداگر'' ''جا ن کے دشمن'' ''ہنڈرڈ رائفلز'' اور ''آب حیات'' سمیت دیگر شامل رہیں۔ مسرت شاہین کی فلم ''آب حیات'' کی طرح ہمارے ہاں آمروں نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ اقتدار پر قبضہ کر کے انھوں نے آب ِحیات پی لیا ہے۔
اب دوام ان کا مقدر ہے۔ دنیا میں آب حیات جیسے محلول کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی کو زندہ رہنے کی اس قدر آرزو ہے تو اسے خلقِ خدا کی مسیحائی کرنا ہو گی۔ منتخب وزیر اعظم کو طیارہ ہائی جیکر ثابت کرنے اور ان کی تیار کردہ ''مبینہ سازش'' کو کاونٹر کرنے کے بعد لگ بھگ 10سال تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے ایڈونچر کو مسرت شاہین برینڈ ''آب حیات'' ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایکس کمانڈو کو ایکس ایکٹریس کا ساتھ مبارک ہو...