ملالہ تم تنہا نہیں ہو
یہی وقت ہے کہ ہم بربریت پر مبنی ذہنیت کا پرچار کرنے والوں کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں
دو دن پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے کچھ بچیاں زمین پر اپنی گڑیاں رکھ کر احتجاج کررہی ہیں۔
وہ کہہ رہی ہیں میرابچپن مت چرائو، مجھے 9 اور 10 برس کی عمر میں نہ بیاہ دو۔ مجھے کھیلنے اور پڑھنے کا حق دو۔
شمال مغربی علاقوں اور پنجاب کے دور دراز علاقوں سے آنے والی ان لڑکیوں میں سے اکثر نہیں جانتیں کہ ان سے چند میل کے فاصلے پر پنڈی کے ایک فوجی اسپتال میں 14 برس کی ایک بچی ملالہ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ہے۔ اسے اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے اپنے علاقے میں امن چین کی خواہش کی تھی۔ 2009 میں اسے اپنے علاقے سے جانا پڑا تھا کیونکہ وہاں طالبان کی حکمرانی تھی۔ وہ پڑھنا چاہتی تھی اور اپنی ہم عمر لڑکیوں کے بھی پڑھے لکھے ہونے کی خواہش رکھتی تھی۔ اس نے اپنی ٹیڑھی میڑھی تحریر میںایک ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔
'گل مکئی' کے نام سے لکھی جانے والی اس ڈائری کی شہرت کو پر لگ گئے۔ صحافی یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ انتہا پسند جن کے نام سے اچھے اچھوں کے چہرے زرد پڑ جاتے ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھانے والی یہ کون لڑکی ہے اور کس طرح وہ یہ باتیں لکھ رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ گمان بھی گزرا کہ شاید امن، تعلیم اور سب کے لیے خوشحالی کی آرزو کسی کم عمر لڑکی کے نام سے یہ کام کوئی اور کررہا ہے لیکن آہستہ آہستہ سب ہی جان گئے کہ 'گل مکئی' دراصل سوات کی 'ملالہ' ہے۔ مقامی صحافیوں نے بی بی سی کے لیے اس کے انٹرویو کیے۔
بلاگ پر اس کی ڈائری کے جملے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسے علاقے میں امن کا اور بچوں کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی جہاں ہر طرف دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے۔ وہ ملک میں اور ملک سے باہر مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی۔ اسے مختلف اعزازات دیے گئے اور جب سوات کے حالات بہتر ہوئے اور سواتیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوئی تو ملالہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کو آئی اور اس نے علاقے کی لڑکیوں کو حوصلہ دیا ۔
اسکول پھر سے آباد ہوئے۔ بچیوں کی چہکار سے علاقہ گونج اٹھا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھی جو سوات سے لے کر سرگودھا تک اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ملالہ کو دھمکیاں دیں لیکن جب وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹی تو اسے اور اس کی ساتھی لڑکیوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔
اس وقت کچھ لوگوں کو چھوڑ کر پاکستان کے طول و عرض میں اسلام کے نام پر اس شرم ناک حملے کے خلاف شدید احتجاج ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، بارک اوباما، ہلیری کلنٹن اور ان گنت لوگوں کے مذمتی بیانات چلے آرہے ہیں۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے سوال اٹھایا ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کوئی کسی بچی کو نشانہ کیسے بنا سکتا ہے؟ تاہم، ہمارے یہاں بہت سے سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کی یہ روش ہے کہ وہ ان لوگوں سے مکالمے پر اصرار کرتے ہیں جن کا ایجنڈا ہی وسیع المشربی کا خاتمہ ہے۔ چند دن پہلے ٹانک سے پلٹنے والے اس وقت بھی اس کے دعویدار ہیں کہ ہمارے یہاں جو بھی انتہا پسندی ہے، دہشت گردی ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف امریکی ڈرون حملے ہیں، آج ڈرون حملے بند ہوجائیں تو کل ہر طرف امن ہوجائے گا۔
پاکستانی سماج کے لیے اپنا امرت دھارا پیش کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ طالبان ڈرون حملوں کے خلاف امریکی مفادات اور تنصیبات کو نشانہ کیوں نہیں بناتے؟ ان کی زد پر پشاور کا مینا بازار اور دوسرے شہروں کے غریب یا متوسط علاقے کیوں رہتے ہیں۔ جن کا نہ امریکا سے تعلق ہے اور نہ جنہوںنے کبھی مغربی مفادات کے لیے کام کیا ہے۔ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ لڑکیوں کے سیکڑوں اسکول کو بارود سے اڑا کر پاکستان اور اسلام کی کیا خدمت کی گئی ہے اور کیا یہ بھی امریکی ڈرون حملوں پر طیش کا اظہار ہے؟ اگر شمالی علاقوں میں بچوں اور بچیوں کو پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے کرنا اور متعدد علاقوں میں والدین کو ان قطروں کے پلانے پر جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا اور بہت سے بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور ہونے کی سزا دینا، اسلام کی خدمت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ بھی امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کا ایک طریقہ ہے؟ تو پھر اجتماعی خود کشی کسے کہتے ہیں؟
ملالہ پر دن دہاڑے قاتلانہ حملہ ہوا اور سارا ملک سراپا احتجاج ہوگیا لیکن کیا یہ سوال خفیہ ایجنسیوں کے ذمے داروں سے نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ علاقہ جہاں وہ رہتی تھی، پڑھتی تھی، بلاخوف و خطر آتی جاتی تھی، وہاں ہماری ان ایجنسیوں کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ انتہا پسندوں کی نقل و حرکت اور موبائل یا لینڈ لائن کے ذریعے ان کی بات چیت ان کے علم میں رہتی ہے، یہ انتہا پسند ملالہ کو کئی مہینوں سے دھمکیاں دے رہے تھے، یہ بات بھی متعلقہ لوگوں کے علم میں تھی پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ اس پر دن دہاڑے گولیاں برسادی جائیں اور اس پر حملہ آور ہونے والے قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کی گرفت میں آئے بغیر ٹہلتے ہوئے اپنے محفوظ ٹھکانے کی طرف نکل جائیں۔ ملالہ اور اس کے ساتھ سفر کرنے اور زخمی ہونے والی لڑکیوں کی خبر چشم زدن میں ہرطرف پھیلی تو اس کے ساتھ ہی طالبان کا یہ فاخرانہ بیان بھی سامنے آگیا کہ یہ حملہ ہم نے کیا ہے اور اگر ملالہ اس قاتلانہ حملے سے بچ جاتی ہے تو ہم دوبارہ حملے کرکے اسے جان سے مار دیں گے کیونکہ وہ شریعت کے خلاف زندگی گزار رہی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو اس دین کا پیرو کار کہلاتے ہیں جس کی بنیاد میں 'اقراء' (پڑھ) اور 'علم حاصل کرنا ہوتو چین کو جائو' جیسے کلمات ہیں۔ تو کیا یہ لوگ اس بنیاد کو منہدم کرنا چاہتے ہیں؟ یا انھیں طیش اور نفرت لڑکیوں کی تعلیم سے ہے؟ ان سے مکالمہ کس طرح آغاز کیا جائے، اس نکتے سے تو ہمارے سونامی خان ہی واقف ہوں گے جو ملالہ پر کیے جانے والے حملے کی مذمت بھی کررہے تھے اور اسی سانس میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جانے یہ طالبان ہیں بھی یا کچھ اور عناصر ہیں جو انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کا نام استعمال کررہے ہیں۔ اسی بیان میں انھوں نے 'اچھے' اور 'برے' طالبان کا بھی ذکر کیا۔
دوسری طرف ''مغربی'' جمہوریت کے صدقے قومی اسمبلی میں فروکش ہونے والے مولانا عطاء الرحمان جو مولانا فضل الرحمان کے بھائی ہیں۔ انھوں نے قومی اسمبلی میں اس المناک واقعے پر ہونے والی بحث میں یہ فرمایا کہ اس واقعے کے اصل ذمے دار ڈرون حملے ہیں اور ملالہ کا نام لیے بغیر انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ غیر ملکی نقطہ نظر یا اشاروں کی پیروی نہ کریں۔ ہمارے ایک شعلہ بیان سیاستدان، صحافی اور قومی اسمبلی کے رکن جناب ایاز امیر نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ ان بیانات سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا نہ کیے جائیں۔
سابق امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد نے یہ کمال جملہ کہا کہ 'ملالہ کو استعمال کرنے والے اور بچی کو 'علم کی علامت' قراردینے والے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں'' سادہ لفظوں میں قاضی صاحب نے یہ فرمایا کہ اس بچی کو 'علم کی علامت' قراردینے والے اور اس پر قاتلانہ حملہ کرنے والے برابر کے مجرم ہیں۔ یہ ایک ایسی منطق ہے جو اس ملک کے ان کروڑوں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی جو پانچ وقت کے نمازی ہیں، 'اقرا'پر یقین رکھتے ہیں اوراپنی بچیوں کو جاہل نہیں رکھنا چاہتے۔ ایسے ہی لوگ اور ان کے بچے سڑکوں پر نکل کر اس بزدلانہ ظالمانہ فعل کی مذمت اور مخالفت کررہے ہیں اورخود کو پختہ ایمان رکھنے والا مسلمان سمجھتے ہیں۔
ملک کے متعدد حلقے بار بار یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو 'اثاثہ' سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔ یہ لوگ آخر کار پاکستان کے لیے ہی خطرہ بنیں گے اور عسکری قوت کو ان سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔ اس بات کا ثبوت بھی ملتا رہا۔ جی ایچ کیو، کامرہ اور مہران نیول بیس پر ان عناصر کے حملے اور ان کو اندر سے حاصل ہونے والی امداد یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔
ملالہ پر ہونے والے حملے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کا اس کی عیادت کے لیے اسپتال جانا اور یہ کہنا خوش آیند ہے کہ ہم دہشتگردوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے، یہی وقت ہے کہ ہم بربریت پر مبنی ذہنیت کا پرچار کرنے والوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
ملالہ ان سطروں کے لکھے جانے تک موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ ہم اس کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ملالہ تم تنہا نہیں ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔
وہ کہہ رہی ہیں میرابچپن مت چرائو، مجھے 9 اور 10 برس کی عمر میں نہ بیاہ دو۔ مجھے کھیلنے اور پڑھنے کا حق دو۔
شمال مغربی علاقوں اور پنجاب کے دور دراز علاقوں سے آنے والی ان لڑکیوں میں سے اکثر نہیں جانتیں کہ ان سے چند میل کے فاصلے پر پنڈی کے ایک فوجی اسپتال میں 14 برس کی ایک بچی ملالہ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ہے۔ اسے اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے اپنے علاقے میں امن چین کی خواہش کی تھی۔ 2009 میں اسے اپنے علاقے سے جانا پڑا تھا کیونکہ وہاں طالبان کی حکمرانی تھی۔ وہ پڑھنا چاہتی تھی اور اپنی ہم عمر لڑکیوں کے بھی پڑھے لکھے ہونے کی خواہش رکھتی تھی۔ اس نے اپنی ٹیڑھی میڑھی تحریر میںایک ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔
'گل مکئی' کے نام سے لکھی جانے والی اس ڈائری کی شہرت کو پر لگ گئے۔ صحافی یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ انتہا پسند جن کے نام سے اچھے اچھوں کے چہرے زرد پڑ جاتے ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھانے والی یہ کون لڑکی ہے اور کس طرح وہ یہ باتیں لکھ رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ گمان بھی گزرا کہ شاید امن، تعلیم اور سب کے لیے خوشحالی کی آرزو کسی کم عمر لڑکی کے نام سے یہ کام کوئی اور کررہا ہے لیکن آہستہ آہستہ سب ہی جان گئے کہ 'گل مکئی' دراصل سوات کی 'ملالہ' ہے۔ مقامی صحافیوں نے بی بی سی کے لیے اس کے انٹرویو کیے۔
بلاگ پر اس کی ڈائری کے جملے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسے علاقے میں امن کا اور بچوں کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی جہاں ہر طرف دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے۔ وہ ملک میں اور ملک سے باہر مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی۔ اسے مختلف اعزازات دیے گئے اور جب سوات کے حالات بہتر ہوئے اور سواتیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوئی تو ملالہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کو آئی اور اس نے علاقے کی لڑکیوں کو حوصلہ دیا ۔
اسکول پھر سے آباد ہوئے۔ بچیوں کی چہکار سے علاقہ گونج اٹھا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھی جو سوات سے لے کر سرگودھا تک اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ملالہ کو دھمکیاں دیں لیکن جب وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹی تو اسے اور اس کی ساتھی لڑکیوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔
اس وقت کچھ لوگوں کو چھوڑ کر پاکستان کے طول و عرض میں اسلام کے نام پر اس شرم ناک حملے کے خلاف شدید احتجاج ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، بارک اوباما، ہلیری کلنٹن اور ان گنت لوگوں کے مذمتی بیانات چلے آرہے ہیں۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے سوال اٹھایا ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کوئی کسی بچی کو نشانہ کیسے بنا سکتا ہے؟ تاہم، ہمارے یہاں بہت سے سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کی یہ روش ہے کہ وہ ان لوگوں سے مکالمے پر اصرار کرتے ہیں جن کا ایجنڈا ہی وسیع المشربی کا خاتمہ ہے۔ چند دن پہلے ٹانک سے پلٹنے والے اس وقت بھی اس کے دعویدار ہیں کہ ہمارے یہاں جو بھی انتہا پسندی ہے، دہشت گردی ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف امریکی ڈرون حملے ہیں، آج ڈرون حملے بند ہوجائیں تو کل ہر طرف امن ہوجائے گا۔
پاکستانی سماج کے لیے اپنا امرت دھارا پیش کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ طالبان ڈرون حملوں کے خلاف امریکی مفادات اور تنصیبات کو نشانہ کیوں نہیں بناتے؟ ان کی زد پر پشاور کا مینا بازار اور دوسرے شہروں کے غریب یا متوسط علاقے کیوں رہتے ہیں۔ جن کا نہ امریکا سے تعلق ہے اور نہ جنہوںنے کبھی مغربی مفادات کے لیے کام کیا ہے۔ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ لڑکیوں کے سیکڑوں اسکول کو بارود سے اڑا کر پاکستان اور اسلام کی کیا خدمت کی گئی ہے اور کیا یہ بھی امریکی ڈرون حملوں پر طیش کا اظہار ہے؟ اگر شمالی علاقوں میں بچوں اور بچیوں کو پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے کرنا اور متعدد علاقوں میں والدین کو ان قطروں کے پلانے پر جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا اور بہت سے بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور ہونے کی سزا دینا، اسلام کی خدمت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ بھی امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کا ایک طریقہ ہے؟ تو پھر اجتماعی خود کشی کسے کہتے ہیں؟
ملالہ پر دن دہاڑے قاتلانہ حملہ ہوا اور سارا ملک سراپا احتجاج ہوگیا لیکن کیا یہ سوال خفیہ ایجنسیوں کے ذمے داروں سے نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ علاقہ جہاں وہ رہتی تھی، پڑھتی تھی، بلاخوف و خطر آتی جاتی تھی، وہاں ہماری ان ایجنسیوں کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ انتہا پسندوں کی نقل و حرکت اور موبائل یا لینڈ لائن کے ذریعے ان کی بات چیت ان کے علم میں رہتی ہے، یہ انتہا پسند ملالہ کو کئی مہینوں سے دھمکیاں دے رہے تھے، یہ بات بھی متعلقہ لوگوں کے علم میں تھی پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ اس پر دن دہاڑے گولیاں برسادی جائیں اور اس پر حملہ آور ہونے والے قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کی گرفت میں آئے بغیر ٹہلتے ہوئے اپنے محفوظ ٹھکانے کی طرف نکل جائیں۔ ملالہ اور اس کے ساتھ سفر کرنے اور زخمی ہونے والی لڑکیوں کی خبر چشم زدن میں ہرطرف پھیلی تو اس کے ساتھ ہی طالبان کا یہ فاخرانہ بیان بھی سامنے آگیا کہ یہ حملہ ہم نے کیا ہے اور اگر ملالہ اس قاتلانہ حملے سے بچ جاتی ہے تو ہم دوبارہ حملے کرکے اسے جان سے مار دیں گے کیونکہ وہ شریعت کے خلاف زندگی گزار رہی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو اس دین کا پیرو کار کہلاتے ہیں جس کی بنیاد میں 'اقراء' (پڑھ) اور 'علم حاصل کرنا ہوتو چین کو جائو' جیسے کلمات ہیں۔ تو کیا یہ لوگ اس بنیاد کو منہدم کرنا چاہتے ہیں؟ یا انھیں طیش اور نفرت لڑکیوں کی تعلیم سے ہے؟ ان سے مکالمہ کس طرح آغاز کیا جائے، اس نکتے سے تو ہمارے سونامی خان ہی واقف ہوں گے جو ملالہ پر کیے جانے والے حملے کی مذمت بھی کررہے تھے اور اسی سانس میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جانے یہ طالبان ہیں بھی یا کچھ اور عناصر ہیں جو انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کا نام استعمال کررہے ہیں۔ اسی بیان میں انھوں نے 'اچھے' اور 'برے' طالبان کا بھی ذکر کیا۔
دوسری طرف ''مغربی'' جمہوریت کے صدقے قومی اسمبلی میں فروکش ہونے والے مولانا عطاء الرحمان جو مولانا فضل الرحمان کے بھائی ہیں۔ انھوں نے قومی اسمبلی میں اس المناک واقعے پر ہونے والی بحث میں یہ فرمایا کہ اس واقعے کے اصل ذمے دار ڈرون حملے ہیں اور ملالہ کا نام لیے بغیر انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ غیر ملکی نقطہ نظر یا اشاروں کی پیروی نہ کریں۔ ہمارے ایک شعلہ بیان سیاستدان، صحافی اور قومی اسمبلی کے رکن جناب ایاز امیر نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ ان بیانات سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا نہ کیے جائیں۔
سابق امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد نے یہ کمال جملہ کہا کہ 'ملالہ کو استعمال کرنے والے اور بچی کو 'علم کی علامت' قراردینے والے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں'' سادہ لفظوں میں قاضی صاحب نے یہ فرمایا کہ اس بچی کو 'علم کی علامت' قراردینے والے اور اس پر قاتلانہ حملہ کرنے والے برابر کے مجرم ہیں۔ یہ ایک ایسی منطق ہے جو اس ملک کے ان کروڑوں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی جو پانچ وقت کے نمازی ہیں، 'اقرا'پر یقین رکھتے ہیں اوراپنی بچیوں کو جاہل نہیں رکھنا چاہتے۔ ایسے ہی لوگ اور ان کے بچے سڑکوں پر نکل کر اس بزدلانہ ظالمانہ فعل کی مذمت اور مخالفت کررہے ہیں اورخود کو پختہ ایمان رکھنے والا مسلمان سمجھتے ہیں۔
ملک کے متعدد حلقے بار بار یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو 'اثاثہ' سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔ یہ لوگ آخر کار پاکستان کے لیے ہی خطرہ بنیں گے اور عسکری قوت کو ان سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔ اس بات کا ثبوت بھی ملتا رہا۔ جی ایچ کیو، کامرہ اور مہران نیول بیس پر ان عناصر کے حملے اور ان کو اندر سے حاصل ہونے والی امداد یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔
ملالہ پر ہونے والے حملے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کا اس کی عیادت کے لیے اسپتال جانا اور یہ کہنا خوش آیند ہے کہ ہم دہشتگردوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے، یہی وقت ہے کہ ہم بربریت پر مبنی ذہنیت کا پرچار کرنے والوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
ملالہ ان سطروں کے لکھے جانے تک موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ ہم اس کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ملالہ تم تنہا نہیں ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔