راہداری پر بھارت کا اعتراض
چونکہ چین میں انڈسٹری کا جو جال بچھا ہے وہ مغربی یورپ کی مصنوعات بنانے کی وجہ سے ہے۔
چینی صدر آئے اور چلے بھی گئے، جن معاہدوں پر دستخط ہونے تھے وہ ہو بھی گئے اور بڑی آسانی سے یہ آبی رہگزر چین کی دسترس میں آ گئی، ایک وقت ایسا تھا جب سابق سوویت یونین کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ بلوچستان کی گرم آبی گزرگاہ تک رسائی چاہتا تھا۔1974ء میں صوبہ بلوچستان میں اور کے پی کے میں ان دونوں صوبوں میں نیشنل عوامی پارٹی روس نواز کی حکومت تھی۔
مگر سیاسی طور پر امریکا نے انقلاب ثور کو ناکام بنا دیا، نور محمد تراکئی کی حکومت گئی، ڈاکٹر نجیب اﷲ کا حشر تمام عالم نے دیکھا یہ وہی بد امنی ہے جو امریکی مداخلت اور سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پیدا ہوئی، آج تک وہ جنگ جاری ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اہداف بدلتے گئے، آپ خود سوچیں کہ سوویت یونین کے فکری اور نظری اثرات کس قدر بلوچستان میں موجود تھے کہ شیر محمد مری خود کو جنرل شیروف کہلوانا پسند کرتے تھے، مگر سوویت یونین اپنے نظری اور فکری اثاثوں کے باوجود پسپا ہوا اور سوویت یونین جو دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست تھی اپنی نظریاتی اساس کھو بیٹھی۔یہ حکومت جو امریکا کی حریف تھی اب کسی حد تک حلیف اور بعض مقامات پر مخالف، اب مفادات اور سرمائے کی رقابت ہے۔
بلوچستان جو ایک طویل عرصے سے نظریاتی عالمی دنگل میں پھنسا ہوا ہے راہداری کی رسی سے ایک بار پھر معاملات کو نمایاں کر دیا، پہلے کبھی سوویت یونین سر فہرست تھا اب مگر بھارت نمایاں نظر آ رہا ہے۔ 31 جون کو سشما سوراج بھارتی وزیر خارجہ نے عملی طور پر چینی صدر کو ان کے سفیر سے احتجاج کر کے اپنی ناراضی پہنچا دی نہ صرف ناراضی پر اکتفا کیا بلکہ پاکستان اور چین کے اس اشتراک کو بے عمل کرنے کا عندیہ دیا۔ اگر آپ 1970-71ء میں بھارت کے بیانات پر غور کریں تو اس قسم کے بیانات آنجہانی اندرا گاندھی دیا کرتی تھیں جن میں دھمکی پوشیدہ ہوتی تھی مگر ماضی میں جو بھی پاک بھارت جنگیں ہوئیں وہ روایتی اسلحے سے ہوتی تھیں مگر کیا کہیں کہ بد قسمتی سے اب جو جنگیں ہوں گی۔
ان کو ایٹمی جنگ سے خارج از امکان نہیں کیا جا سکتا اور دنیا اس جنگ کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے تگ و دو نہیں کرنے کی۔ اتفاق سے پاکستان اور بھارت میں دونوں جانب انتہا پسند قوتیں ہیں۔ پاکستان میں تو انتہا پسند نظریات والی حکومت موجود نہیں، مگر بھارت میں تو ان کی مرکز میں باقاعدہ حکومت موجود ہے۔ لہٰذا انتہا پسندانہ اقدامات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے پاکستان کو کافی سرعت سے رفع شر کے لیے اقوام عالم سے رجوع کرنا ہو گا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے بیانات کو محض ایک بیان نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ مکمل اہمیت دینے کی ضرورت ہے، بالکل ایسے ہی جو 1971ء کی پاک بھارت صورت حال تھی۔ بھارت مسلسل ضرب عضب کو سبوتاژ کرنے میں لگا ہوا ہے کہ بلا اشتعال سیالکوٹ اور دیگر علاقوں میں گولہ باری میں مصروف ہے اور راہداری کے مسودے پر دستخط کے بعد بھارت پوری چابک دستی سے پیش پیش ہے کہ اس خطے میں دنیا کو متوجہ کیا جائے کہ یہ راہداری عالمی مفاد میں نہیں۔
بھارت کے اس بیان کا تجزیہ بھی ضروری ہے کہ جب روس کی آمد کو امریکا نے اپنی حکمت عملی سے روکا تو چین جو خود کو کمیونسٹ ملک کہلاتا ہے اور وہاں مذہب کے خلاف ردعمل بھی سخت ہوتا ہے کہ روزہ رکھنا وہاں آسان نہیں، فیس بک بھی وہاں استعمال نہیں کی جاتی اور آئے دن ہیومن رائٹس کمیشن وہاں غل مچاتا رہتا ہے، مغربی دنیا پروپیگنڈا تیز تر کر سکتی ہے، سوویت یونین کو للکارنے میں مسلمانوں کو ڈھال بنایا گیا تو یہاں بھی پروپیگنڈا کا زاویہ مسلمانوں کی جانب ہونے کا اندیشہ ہے بہر صورت ابھی ابتدا ہے۔
صورت حال اور نکتہ دانی کس سمت جاتی ہے اور دشمن کون سی چال چلتا ہے ابھی دیکھنا ہو گا کہ کس قسم کا عمل ہے اور رد عمل کیا ہو سکتا ہے گو کہ اقتصادی راہداری کے معاہدے کو تقریباً ایک ماہ گزر گیا ہے تو رد عمل میں اتنی دیر کیوں لگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی رد عمل خود بھارتی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کسی اور قوت کی کارفرمائی ہے ورنہ بھارتی رد عمل فوراً ہوتا گو کہ راہداری کا یہ منصوبہ اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے مگر یہ دو ممالک کے مابین اشتراکِ عمل ہے دونوں ممالک اپنے مفادات کو دیکھ بھال کر کے مسودہ تیار کر چکے ہیں اب رہ گیا کہ اقتصادی بالادستی کے بجائے جن پہلوؤں کو بھارت اٹھانا چاہتا ہے وہ محض تصوراتی خدشات ہیں جن کو وہ کارگل کے معاملے سے جوڑنا چاہتا ہے، در حقیقت وہ اقتصادی راہداری کو فوجی راہداری کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے کہ دنیا کے کان کھڑے ہوں اور وہ اس راہداری کو ایک جنگی جنون کی شکل دے رہا ہے۔
چونکہ چین میں انڈسٹری کا جو جال بچھا ہے وہ مغربی یورپ کی مصنوعات بنانے کی وجہ سے ہے۔ تقریباً70 فی صد انھی کی یا امریکی مصنوعات کی تیاری ہے اگر یہ اپنی مصنوعات کو چین میں بنانا چھوڑ دیں گے تو پھر چین کو سخت معاشی ہزیمت اٹھانی پڑے گی مگر یہ تمام معاملات اقتصادی راہداری کے پروپیگنڈے پر منحصر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس زاویے کو کس رنگ میں پیش کرتا ہے اور امریکا اور اس کے اتحادی اس کو کس رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
یعنی ان کی ترجیحات کیا ہیں کیونکہ روس کا گرم پانی کی طرف بڑھنا ان ممالک کو سخت برا لگا تھا مگر یہاں ایک فرق ہے کہ روس کا اس وقت اس خطے میں آنا سرمایہ دار دنیا کے بالکل حق میں نہ تھا کیوں کہ روس کا ماضی ایک سوشلسٹ طرز کا تھا جب کہ چین کی حکمران پارٹی کا اقتصادی نظام مغرب دشمن نہیں، پر امن بقائے باہم پر کاربند ہے۔ کمیونزم پر نہیں راہداری کے پاک چین منصوبے کو بھارت کے بقول ہر صورت روکا جائے گا اور پاکستان کا اعلان ہر صورت عمل کیا جائے گا۔
ایک ایسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے جو تصادم کی تصویر کشی کرتی ہے لہٰذا پاک بھارت کشیدگی میں جو دن آنے کو ہیں مزید مشکلات درپیش ہوں گی اب ایک غیر اعلانیہ پراکسی وار (Proxy War) شروع ہونے کے اندیشے موجود ہیں گو کہ ایسی صورت آج بھی موجود ہے مگر اب اس میں تسلسل کے امکانات موجود ہیں۔ ایسی مشکل گھڑی میں نہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہے اور نہ مدبران کی کوئی ٹیم، بس لے دے کر اینکر پرسن جو خود اپنے ماسٹر کی بولی بولتے ہیں۔ پاک چین راہ داری ایک بڑا اور کٹھن معاملہ ہے اس کے لیے بڑی ٹیم بھی درکار تھی جو ریڈ کارپیٹ (Red Carpet) کے استقبال کے بعد آنے والے دنوں کی تیاری کر سکیں۔ لے دے کے حکومت کے پاس دو افراد موجود ہیں۔
ایک سرتاج عزیز دوسرے فاطمی اس وقت نہ کتابی وزیر خارجہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہاں میں ہاں کرنے والوں کی۔ بلکہ ایسے وزیر خارجہ کی ضرورت ہے جو چینی قیادت اور معیشت کی بنیادوں کو سمجھتا ہو اور پاکستان کے سرحدی علاقوں کی سیاست اور خصوصاً بلوچستان کے معروضی حالات کو سمجھتے ہوں کیوں کہ گوادر میں جو زمینیں فروخت ہوئی تھیں، ان کے احوال کیا ہیں؟
گوادر کا حسین سمندری علاقہ جہاں بہ یک وقت 250 جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے لیے زبردست روزگار کے مواقع فراہم کر سکتی ہے مگر اس کے ارد گرد سیاسی استحکام کی دستیابی نہیں جو محض عسکری ذرایع کے ساتھ مفاہمتی ذرایع سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ بندرگاہ کے اردگرد فائیویا فور اسٹار ہوٹل، معمولی ہوٹل، سرائے، ریسٹ ہاؤس اور امن کی بارگاہ جہاں آشتی کے سایہ دار درختوں کی ٹھنڈک کی ضرورت ہے جس کو سیاسی دور بینی سے لگایا جا سکتا ہے۔ غیر استحصالی نظام کا فوری قیام تا کہ مقامی اور غیر مقامی کی نفرت موجود نہ ہو ہم چین کو گزر گاہ تو دے رہے ہیں۔ ان کا ہم سے زیادہ فائدہ ہے، مگر ان سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں، کرپٹ فیوڈل معاشرہ کا خاتمہ پہلا قدم ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس خیال کو پروفیسر کشور نے کچھ یوں قلم بند کیا ہے کہ:
آ رہی ہے آسماں سے یہ صدائے دمبدم
چند محلوں کے لیے ہوتا نہیں سورج طلوع
چند کھیتوں کے لیے اٹھتا نہیں ابر کرم
اس لیے راہداری کے فیوض اپنی جگہ، عام آدمیوں کے لیے اقتصادی پالیسی کو وضع کرنا ضروری ہے ورنہ ایک مخصوص طبقہ فیض یاب ہو گا اور اہل ثروت منی لانڈرنگ کرتے رہیں گے اور ملک کی حالت دگر گوں ہوتی رہے گی۔
ایسا لگتا ہے بھارت کو پاکستان کے ہر قدم سے وہاں کے حکمرانوں کی دل آزاری ہوتی ہے تو کم از کم ہماری حکومت تو لوگوں کے حالت زندگی بدلنے پر توجہ دے۔ ورنہ بیرونی دشمنوں سے نمٹنے کے عزائم کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ مگر حکومت ہر دقیقہ بغیر کسی کاروباری عمل کے عوام سے کمانے میں مصروف ہے جیسے پٹرولیم مصنوعات پر دنیا میں 40 فی صد کمی کے دور میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ جب کہ ہماری افواج دہشت گردی کے کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہیں اور انھیں عوام کی خوشیاں درکار ہیں۔