معاملے کو انجام تک پہنچنا چاہیے

تمام سانحات، تمام حادثات اور بدعنوانیوں کے تمام واقعات میں ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے


نجمہ عالم June 05, 2015
[email protected]

گزشتہ سولہ سترہ دن سے تقریباً تمام اخبارات ایگزیکٹ اسکینڈل سے بھرے ہوئے ہیں، دو ہفتے تو شہ سرخی سے ایک کالمی خبر تک اسی سے متعلق تھی، اب ذرا اس شدت میں کمی آئی اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہمارے یہاں یہ روایت کافی پرانی ہے ۔تمام اخبارات اور تمام چینلز کئی دن تک اس خبر سے متعلق چھوٹی بڑی اور نت نئے زاویوں سے اس کی تفصیل سامنے لاتے رہتے ہیں ہر اخبار اور ہر چینل کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی نئی اور چٹ پٹی خبر سامنے لائے، خوب شور مچتا ہے تحقیقاتی کمیٹی تو خیر فوراً بن جاتی ہے جس کو زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں اپنی رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے مگر کچھ نہ کچھ وجوہات ایسی سامنے آجاتی ہیں کہ تحقیق بروقت مکمل نہیں ہوپاتی۔ آہستہ آہستہ خبر کی شدت میں بھی کمی ہوتی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ مسائل کا شکار عوام اس طرف سے مایوس ہوکر پھر اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے ازسرنو برسر پیکار ہوجاتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ معاملہ پس پردہ چلا جاتا ہے۔

تمام سانحات، تمام حادثات اور بدعنوانیوں کے تمام واقعات میں ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے، یعنی حادثات، سانحات اورکسی فراڈ کے سامنے آتے ہی حکمران اعلیٰ سے لے کر تمام ارکان حکومت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہ اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے، اس کی شفاف تحقیق کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ وزیر اعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان ہوجاتا ہے اور بہت جلد ذمے داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند و بانگ دعوے۔ مگر ہوتا کچھ بھی نہیں۔

گزشتہ متذکرہ عرصے سے تو یہ ایک اسکینڈل ہی خبروں، ٹاک شوز وغیرہ کا محور و مرکز ہے مگر اس سے قبل کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، کبھی کسی ادارے میں کروڑوں کے فراڈ اور کبھی کسی شعبے میں اربوں کی جعل سازی اخبارات کی شہ سرخی نظر آئے گی۔ بینکوں سے اربوں کے قرضے معاف کرانے کے واقعات ایک بار نہیں کئی بار سامنے آچکے ہیں کیا کبھی یہ قرض وصول ہوئے؟ مختلف اداروں کی جعل سازی کے ذمے داران کا کچھ اتا پتا چلا؟ سانحہ پشاور، واہگہ بارڈر، یوحنا آباد، پشاور چرچ، کئی مساجد و امام بارگاہیں، کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر کئی بار وحشیانہ حملوں میں سے کسی بھی سانحے کے مجرم کیفر کردار تک پہنچے؟ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا کتنا شور ہوا آہستہ آہستہ سب کچھ پس پردہ چلا گیا۔ تو کیا اس موجودہ واقعے کے انجام تک پہنچنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟

تمام اہم شخصیات نے اس واقعے پر جو بیانات (مذمتی) دیے ان میں سے کئی مذہبی اور سیاسی شخصیات نے فرمایا کہ ایگزیکٹ کے معاملے نے دنیا بھر میں پاکستانیوں کا سر شرم سے جھکادیا۔ جب پاکستان کی ماضی قریب و بعید کی تاریخ پر سرسری سی نظر ڈالی تو لگا کہ قیام پاکستان کے محض چار سال بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم کا بھرے مجمعے میں قتل اور پھر اس کی آج تک تحقیق سامنے نہ آنا کیا ہمارا سر دنیا کے سامنے بلند کرنے والا واقعہ ہے۔

آزادی کے صرف 24 سال بعد ملک کا دولخت ہوجانا کیا قابل فخر بات تھی اور پھر تقریباً 90 ہزار فوجیوں کا دشمن ملک کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنا کیا ہمارا سر دنیا کے سامنے جھکانے والا واقعہ نہ تھا؟ ان 90 ہزار جنگی قیدیوں کو باعزت واپس لانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ہمارے تمام مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے تختہ دار پر پہنچا کر دم لیا اور نتیجے میں نظام مصطفی بھی قائم نہ کرسکے تو کیا یہ صورتحال دنیا بھر میں ہمارا سر بلند کرنے والی تھی۔ وفاقی دارالحکومت کو سکندر نامی ایک شخص کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھتا ہے اور ہمارے تمام چینلز اس منظر کو براہ راست ہمیں ہی نہیں دنیا بھر کو دکھا رہے ہوتے ہیں اور پاکستان کی نیک نامی و حفاظتی انتظام پر سوال نہیں اٹھتے؟

جب 124دن ہمارا دارالحکومت دھرنوں سے دوچار رہا اور حکومت بے بسی کا مظاہرہ کرتی رہی تو یہ مناظر بھی 24 گھنٹے مسلسل دنیا بھر میں دیکھے گئے یہ سب کچھ ہماری نیک نامی میں اضافے کا سبب تھے؟ ملک میں آباد ہندو، عیسائی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک، پشاور چرچ، یوحنا آباد کے واقعات کیا ہمارے لیے باعث فخر تھے؟ پشاور آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کے وحشیانہ قتل عام پر دنیا نے ہمیں اعزازات سے نوازا؟ ایک مزدور جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دینا کیا ہمارے اسلامی و پاکستانی روایات کا فروغ تھا؟ سوات میں لڑکی کو سر عام کوڑے لگانا ہماری غیرت کا اعلیٰ مظاہرہ تھا؟ بلوچستان میں خواتین کو زندہ دفن کرنا بھی ہماری اعلیٰ انسانی اقدار سے تعلق رکھتا ہے؟

ہمارے ملک میں محب وطن اور روشن خیال ہونا سب سے بڑا جرم ہے اور اس کا ثبوت سبین محمود کے علاوہ ہمارے کئی پروفیسرز اور ڈاکٹرز کا قتل ہونا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ طالبان کے وجود سے صاف انکار حکومتی سطح پرکیا جاتا تھا کوئی کارروائی کرنا تو کجا وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ نشاندہی کرنے والوں کو تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مگر پھر یہ آپریشن ضرب عضب کس کے لیے ہوا۔ داعش کے بارے میں بھی چشم پوشی سے کام لیا جاتا رہا وفاقی وزیر داخلہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ''پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں'' پھر یہ داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر اجلاس چہ معنی دارد۔

ان سب باتوں کا تذکرہ کرنے کا مطلب محض یہ ہے کہ اگر ٹیکس چوروں، اربوں کا فراڈ کرنے والوں یا بینک کے قرض ہڑپ کرنے والوں کے خلاف بروقت اور حقیقی کارروائی ہوتی تو یہ جو ملک آج بدعنوانی کی دلدل میں گلے گلے دھنس چکا ہے یہ نوبت نہ آتی۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ان تمام فراڈ کے پیچھے بڑے لوگ ہیں تو ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کون کرے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ہاتھ ڈالنے والے سب ان سے چھوٹے ہیں۔ تمام بڑے بڑے معاملات سامنے آتے ضرور ہیں لیکن کبھی انجام تک محض اس لیے نہیں پہنچتے کہ کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں ۔

لہٰذا بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ''پردے میں رہنے دو' پردہ نہ اٹھاؤ''۔ اب جہاں تک ایگزیکٹ کا معاملہ ہے اس کا ڈائریکٹر کوئی ''خاندانی بڑا'' نہیں بلکہ بڑا بننے کی معصوم خواہش نے اس سے ایسے کارنامے انجام دلوائے کہ دھر لیا گیا۔

چلیے مان لیتے ہیں کہ اس کیس کا ذمے دار شعیب شیخ کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس ملک میں انصاف کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی نہ ہو، جہاں اعلیٰ عہدیدار جرم کریں تو کوئی گرفت نہ ہو اور چھوٹے لوگ حکمرانوں اور اعلیٰ عہدے پر فائز افراد کی طرح زندگی بسر کرنے کے شوق میں (جب انھیں مثبت ذرایع حاصل ہی نہ ہوں) غلط اور منفی طریقہ اختیار کریں تو قانون فوراً حرکت میں آجائے۔ تو ایسا معاشرہ کبھی بھی راہ راست پر نہیں آسکتا۔ چلیے پچھلی تمام بدعنوانیوں پر خاک ڈالیے اسی جعل سازی کو منطقی انجام تک پہنچا دیجیے تو شاید آیندہ کسی کو بھی غلط کام کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا تو پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں