زبانِ فرنگیانہ اور ہمارا معیار تعلیم
ایک زمانہ تھا جب فرنگیانہ تعلیم کی بجائے دیسی تعلیم کا رواج تھا۔ تعلیم سستی تھی
یہ لاہور ہے۔ایک زمانہ تھا جب فرنگیانہ تعلیم کی بجائے دیسی تعلیم کا رواج تھا۔ تعلیم سستی تھی ۔ اساتذہ کرام اپنے تعلیمی میدان میں نہ صرف قابلیت کا وزن رکھتے تھے بلکہ تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایماندار اورمحنتی بھی تھے۔
بلکہ یوں کہیے کہ وہ اپنے پیشے کو خدمت کے جذبے سے گردانتے تھے ۔سبحان اللہ۔ طرززندگی سادہ تھی انگریزی اسکول گنتی کی تعداد میں ہواکرتے تھے ان میں بھی اشرافیہ ،ایلیٹ اور رائل خاندانوں کے بچے زیرتعلیم ہواکرتے تھے۔ اردو طرزتعلیم کاعام رواج تھا ۔ملک کوآزادہوئے چند برس ہی گزرے ہونگے ۔ مذہب کااتنا پرچارنہیں تھا جتناکہ اب ہے اور نہ ہی مساجدکی کثیرتعداد تھی جیساکہ آج ہے ۔ شاذونادر ہی اشرافی حضرات حج کی سعادت حاصل کیاکرتے تھے ۔چھٹی کلاس (سیکنڈری لیول) سے ہی انگریزی شروع کروائی جاتی تھی ۔
اردوکی خوش خطی کے لیے لکڑی سے بنی تختیاں ہواکرتی تھیںجس کوملتانی (گاچی) سے دھوکردوبارہ تختی کوقابل ِ تحریربنایا جاتا تھا اور لکھنے کے لیے لکڑی سے تراشے ہوئے قلم ہواکرتے تھے ۔جن کو روشنائی کی مدد سے تختی پر لکھاجاتاتھا۔جوسبق پڑھایاجاتاتھا اس کی املا (ڈکٹیشن) دونوں انگریزی اور اردومیں کرائی جاتی تھی جس سے لکھنے کے عمل میں مہارت کے ساتھ اضافہ ہواکرتاتھا۔ انگریزی سیکھنے کے لیے چھٹی کلاس سے Tensesپراساتذہ کی طرف سے خصوصی طورپر محنت کروائی جاتی تھی ۔
انگریزی ، ریاضی، الجبرہ، جیومیٹری کے مضامین خصوصی اہمیت کے حامل تھے ۔تعلیم کے دوران نظم وضبط کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ہفتہ صفائی بھی منایا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے غالباً ابتدائی کلاسوںمیں فارسی کامضمون بھی ایک اضافی مضمون کے طورپر پڑھایا جاتا تھا ۔موجودہ تعلیم کاموازنہ ماضی کی تعلیم کے طریقہ کار سے کیاجائے تو ماضی کی تعلیم زیادہ موثر معلوم ہوتی ہے ۔امتحانات میں ناجائز ذرایع کا استعمال ہماری دانست میں تو یہ ہے کہ بالکل نہ تھا اورنتائج صاف وشفاف ہواکرتے تھے ۔
ایک تقریب میں ہماری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جوبڑی پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔دوران گفتگو ہم نے ان سے پوچھنے کی جسارت کی، 'آپ کی کیامصروفیات ہیں؟' تووہ بولے ''ہم ایک یونیورسٹی میں فرنگی زبان کے استاد ہیں''۔ہم سن کر قدرے پریشان ہوئے اور پوچھا'یہ فرنگی زبان کیاہوتی ہے ؟'جس پر انھوں نے جواب دیا کہ بنیادی طورپر اس زبان کا تعلق فرنگستان(انگلستان) سے ہے، اسی لیے یورپ کے انگریزوں کوزمانہ قدیم میں اردوزبان میں فرنگی کہاجاتاتھا ۔ اس مناسبت سے اس کا نام'' فرنگی'' مشہور ہوگیا۔زمانۂ قدیم سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جس خطے میں ترقی ہوگی، وہاں بولی جانے والی زبان بھی پوری دنیامیں رائج ہوگی۔
ایک طویل عرصہ برطانیہ کی عالمگیریت کی وجہ سے فرنگی زبان کے اثرات بھی پوری دنیامیں جزوی اور ثانوی طورپر مرتب رہے۔برطانوی انگریزی ایک منظم اورگرامر کے قواعد وضوابط کے تحت تھی۔ جس کی بنیاد Tensesاور گرامر کے رہنما اصول پر تھی۔بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ امریکا اور سوویت یونین نے ترقی کے میدان میں قدم رکھا اور سپرپاورکہلائے۔ رفتہ رفتہ برطانیہ دنیامیں اپنی برتری کامقام کھوتارہا اوریوں وہ سپر طاقت کی فہرست سے خارج ہوگیا ۔افغانستان کی جنگ میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور یوں سوویت یونین مختلف ریاستوں میں منقسم ہو کر صرف روس رہ گیااورامریکا جہاں سپر طاقت تھاوہاں اسے سپریم طاقت بننے کا بھرپور سنہری موقع مل گیا۔
برطانوی انگریزی کی جگہ امریکن طرزکی انگریزی نے لے لی جوکہ بغیرکسی قواعد وضوابط کے تحت تھی۔یوں تو متحدہ ریاست ہائے امریکا اور اس سے ملحقہ یورپین دنیا میں بولی جانے والی زبانیں فرانسیسی، پرتگالی،جرمن اور بہت سی دیگر علاقائی اور مقامی زبانیں ہیں مگر ان سب زبانوں میں مشترکہ زبان امریکن انگریزی ہے۔ جو بلاشبہ ان ہی دیگر زبانوں کی ایک طرح سے آمیزش ہے۔،انٹرنیٹ کے جدید تصور نے امریکن زبان کو عالمگیریت کی شناخت دینے میں اہم کردار اداکیا ہے۔
اسی انگریزی تعلیم کی کشمکش میں ہمارے وطن عزیز کا تعلیمی درسی نظام تہہ و بالا ہو کر رہ گیا ہے۔ ادھر والدین کی یہ خواہش کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور ترقی یافتہ دنیا کی قطار میں کھڑے تو ہو سکیں۔بے شک بہت اچھی ،خوش آیند ،قابل تعریف اور حوصلہ افزاء فکر ہے۔ جس میں وہ اپنی آمدنی کا کثیر سرمایہ بھی خرچ کر رہے ہیں۔ اس کے برخلاف ہم اور ہماری نسلیں فرنگی طرز تعلیم کے حصول کی دوڑ میں اپنا موروثی ،دینی، مذہبی،روحانی،ثقافتی،سماجی اور ادبی ورثہ اور اساس سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔
جب کہ ہمارے وطن عزیز میں صنعتوں کے فقدان سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کی بھیانک صورتحال سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کھپت نہیں ہو پارہی ہے۔اس آڑ میں ہمارے معاشرے میں موجود تعلیم جیسے اہم اور حساس شعبے میں غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ اشرافی طبقہ نے اس کو ایک منافع بخش کاروبار کی صنعت کی شکل دے دی۔
نہایت کم اجرت پر ٹیچرز کا حصول اس طبقے کا وطیرہ ہے ۔یہ نام نہاد کاروباری انگلش میڈیم درسگاہیں کثیر آبادیوں پر مشتمل تنگ و تاریک مکانوں اور فلیٹوں میں قائم ہیں ۔ کچھ اسکولز ایسے بھی ہیں جن میں شادی بیاہ کی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں، یعنی اسکول کی عمارت رات کے وقت کسی شادی حال کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے۔ حال ہی میں حکومت سندھ نے ترجیحی بنیادوں پر نوٹس لیتے ہوئے ایسے اسکولوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
اسکول کا یونیفارم، کتب،کاپیاں،نوٹ بکس اور دیگر اسٹیشنری اشیاء کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ کا نظام اسکول کی انتظامیہ سے طے شدہ کمیشن کے تحت ترتیب دیا جاتا ہے۔ اندرون سندھ میں منعقدہ تعلیمی بورڈ کے سالانہ امتحانات میں سر عام ہونے والی نقل کا تیزی سے بڑھتا ہوا رحجان،جعلی اسناد کا اجراء ،گھوسٹ اساتذہ اور اسکولوں کا قیام کوئی قابل فخر کارنامہ نہیں۔بلکہ ہمارے معاشرے کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔
ہم اس فرنگیانہ سحر میں مبتلا ہو کر اپنی موروثی اقدار سے رفتہ رفتہ ہٹتے جا رہے ہیں ۔ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک غور طلب نقطہ ہے۔