حقائق کو جھٹلانے کی ناکام کوشش

پرویز مشرف کی حکومت کو آمرانہ اور انھیں ایک فوجی طالع آزما ضرور کہا جاسکتا ہے


عثمان دموہی June 05, 2015

سابق صدر پرویز مشرف نے چند دن قبل کارگل کی جنگ سے متعلق ایک بیان دیا تھا جس میں دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے کارگل میں بھارت کو گلے سے پکڑ لیا تھا، یعنی وہ فوجی اہمیت کی حامل اہم ترین ٹائیگر ہلز (پہاڑی) کو فتح کرچکے تھے۔

جہاں سے گزرنے والا راستہ کشمیر کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، وہ اس راستے کو بند کرکے سری نگر اور سیاچن کے لیے بھارتی فوجی رسد کو روک سکتے تھے۔ پرویز مشرف کے اس بیان پر بھارتی میڈیا بہت سیخ پا ہوا تھا۔ یہ بیان بھارتی بزرگ صحافی کلدیپ نیئر کے دل پر بھی کانٹے کی طرح چبھ گیا تھا۔

انھوں نے اس بیان پر اپنے ایک مضمون میں ذکر کرنا ناگزیر سمجھا، انھوں نے لکھا کہ مشرف کو اس قسم کے بیان سے اب گریزکرنا چاہیے کیوں کہ وہ ایک شکست خوردہ جرنیل ہیں ، انھوں نے اپنی سیاسی قیادت سے بغاوت کی تھی۔ کلدیپ نیئر کی اس سوچ پر پاکستانی دانش وروں اور مبصرین کا رد عمل بہت مختلف ہے وہ کہتے ہیں کلدیپ نیئر جان بوجھ کر حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ پرویز مشرف کو شکست خوردہ کہہ کر دراصل اپنی فوجوں کی نااہلی اور عبرت ناک شکست پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

پرویز مشرف کی حکومت کو آمرانہ اور انھیں ایک فوجی طالع آزما ضرور کہا جاسکتا ہے مگر اس بات پر ملک کے تمام ہی مبصرین متفق ہیں کہ وہ پاک فوج کے ایک بے مثال سپہ سالار اور قائد تھے جن کی سرکردگی میں پاک فوج نے دشمن کے غرور اور اس کے خطے میں بالادستی کے خواب کو چکنا چور کردیا تھا۔ اگر کارگل میں جیتی ہوئی پہاڑیوں پر چند دن اور ٹھہر جاتے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتا اور مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل نکل آتا۔ کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں سابق صدر پرویز مشرف کا کردار ناقابل فراموش ہے۔

انھوں نے کشمیریوں کو بھارتی چنگل سے آزاد کرانے کے لیے اپنی دور اقتدار میں مسلسل جد وجہد جاری رکھی، انھوں نے اس مسئلے کے پر امن حل کے لیے بھارت کو کئی فارمولے پیش کیے جوکہ اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں انتہائی مفید ثابت ہوسکتے تھے مگر بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پرویز مشرف کی تمام کوششیں اکارت گئیں۔

نواز شریف حکومت کی مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کی کوششوں کی ناکامی کے بعد ہی بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے معرکۂ کارگل پیش آیا تھا۔ تاہم اس جنگ میں پاکستانی فوج نے جو بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا وہ پاکستان کی عسکری تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے، اس جنگ میں پاک فوج نے بھارتی فوج کی خوش فہمی اور برتری کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا وہ ایک شکست خوردہ فوج کے طور پر دنیا کے سامنے تھی اور پاک فوج قلیل وسائل کے باوجود ایک فاتح فوج کے طور پر دنیا کے رو برو تھی۔

اس جنگ میں دشمن کا جتنا نقصان ہوا اتنا اس کا 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی نہیں ہوا تھا، حد تو یہ ہے کہ اس معرکے میں اس کی فوج کا اتنا جانی نقصان ہوا تھا کہ اس کے فوجیوں کے لیے بھارت میں تابوت کم پڑ گئے تھے جنھیں دوسرے ممالک سے در آمد کرنا پڑا تھا۔ اس معرکے کے ذریعے پاکستان نہ صرف سیاچن کا علاقہ دوبارہ حاصل کرسکتا تھا بلکہ جموں سری نگر شاہراہ کو اپنے قبضے میں لے کر بھارتی فوج کی کمک کو شمالی کشمیر تک پہنچنے میں رکاوٹ کھڑی کرسکتا تھا، اس معرکے کی ناکامی کا ذمے دار امریکا ہے، جس نے اس وقت کی سیاسی قیادت کو پاک فوج کو پیچھے ہٹانے پر مجبور کردیا۔

اٹل بہاری واجپائی کی حکومت سراسر خطرے میں پڑچکی تھی، اس لیے کہ کارگل میں بھارتی فوج کی پسپائی اور ہلاکتوں پر پوری بھارتی قوم ان سے ناراض تھی۔ چنانچہ اٹل بہاری واجپائی اس خفت سے بچنے کے لیے امریکی حکومت سے مدد حاصل کرنے پر مجبور تھے، کاش کہ اس وقت بھارت کو کارگل سے ہٹنے کے بدلے سیاچن کا علاقہ پاکستان کو واپس کرنے پر مجبور کیا جاتا تو یقینا کامیابی حاصل ہوسکتی تھی کیوں کہ اس وقت بھارت سرکار اتنی بے بس ہوگئی تھی کہ اس نے اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ کشمیر میں جمع کردیا تھا۔ حتیٰ کہ اس کی کچھ سرحدیں رام بھروسے پر چھوڑدی گئی تھیں اس وقت کشمیر میں موجود بھارتی فوجی پاکستانی فوج سے زیادہ کشمیری مجاہدین سے نبرد آزما تھے۔ یہ صورت حال یقینی طور پر ایک آئیڈیل موقع فراہم کررہی تھی جس کا پاکستان کو ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔

کلدیپ نیئر نے اپنے مضمون میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ کارگل کے معرکے میں بھارت نہیں بلکہ پاکستان پھنس گیا تھا اور اس میں اس کا بہت جانی نقصان ہوا تھا یہ تاثر بالکل غلط اور حقائق کے خلاف ہے، پرویز مشرف کے مطابق اس جنگ میں پاک فوج کے صرف 157 جوان شہید ہوئے تھے، البتہ جنگ بندی کے بعد پاکستان کا زیادہ نقصان ہوا۔ تاہم بھارت نے خود اپنے 600 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جب کہ اصل صورت حال یہ تھی کہ اس کے چار گنا فوجی مارے گئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ معرکہ کارگل بھارت کے لیے ایک ایسا شدید جھٹکا تھا جس نے اس کی فوج کی ساری خوش فہمی کو خاک میں ملادیا تھا۔ بھارتی قیادت بھی اپنے فوجیوں کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ جب کبھی بھی بھارت کی پاکستان کے ساتھ باقاعدہ جنگ ہوگی اس کی فوج پاک فوج کے آگے ٹھہر نہیں سکے گی۔ ایک بھارتی جنرل نے حال ہی میں یہ اعتراف کیا ہے کہ کارگل کی جنگ میں بھارت کو شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

کلدیپ نیئر نے اپنے مضمون میں سید علی گیلانی کی شخصیت میں تبدیلی کی بات کی ہے کہ پہلے کبھی ان کا جھکائو پاکستان کی جانب نہیں تھا مگر اب وہ پاکستان کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ کلدیپ نیئر کو در اصل نہ تو کبھی کشمیریوں کی تحریک سے کوئی دلچسپی رہی ہے اور نہ ہی حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے کوئی ہمدردی رہی ہے۔ حالانکہ وہ ایک بزرگ صحافی ہیں اور کشمیر سے متعلق تمام حالات کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔

انھیں یہ بھی علم ہے کہ کشمیر کا کبھی بھی بھارت سے الحاق نہیں ہوا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت جو بھی ثبوت پیش کرتا ہے وہ جھوٹے ہیں وہ آج تک ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی اصلی دستاویز پیش نہیں کرسکا ہے۔ کلدیپ نیئرکو اس عمر میں تو سچ بولنا اور لکھنا چاہیے وہ بھارتی وزارت اطلاعات میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں بھارت سرکار کی تمام کمزوریوں سے خوب واقف ہیں مگر افسوس کہ وہ حق کا ساتھ دینے کے بجائے ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں۔

وہ سید علی گیلانی کے پاکستان کی جانب جھکائو سے بہت پریشان ہیں لیکن کیا انھیں نہیں معلوم کہ گیلانی صاحب کا شروع سے ہی یہ نعرہ رہا ہے ''کشمیر بنے گا پاکستان'' وہ پہلے بھی پاکستان سے محبت کرتے تھے اور تکمیل پاکستان کی مہم جوئی کا حصہ تھے وہ آج بھی حریت کانفرنس کے پرچم تلے یہی مہم چلارہے ہیں، کلدیپ نیئر اپنی بزرگی کی وجہ سے بھارت کے ایک با اثر صحافی ہیں ۔

ان کے کانگریس اور بی جے پی کے تمام اہم رہنمائوں سے مراسم قائم ہیں اس لیے کہ وہ اوپر سے ضرور سیکولر ہیں مگر اندر سے ہندو توا پر ایمان رکھنے والے معلوم ہوتے ہیں وہ برصغیر میں پائیدار امن اور آیندہ نسلوں کے تحفظ کی خاطر نریندر مودی اور ان کے رفقا کو سمجھائیں کہ وہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو مضبوط کرنے کے بجائے کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کا معقول راستہ اختیار کریں تاکہ بھارت کے سر پر آج جو لا تعداد خطرات منڈلارہے ہیں وہ ختم ہوسکیں اور بھارتی عوام بھوک اور افلاس کی جہنم سے باہر آسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں