بجٹ اور مہنگائی کا نوحہ
پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا میزانیہ تدوین کیاگیا ہو جس میں عوام کو ریلیف فراہم کیا گیا ہو۔
KARACHI:
جس طرح ریاضی میں مہارت کے دعوے کے باوجود ''طولِ شب فراق'' ناپنا ممکن نہیں اسی طرح ہمارے ملک میں مہنگائی کے طول و عرض کی پیمائش بھی مشکل ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مہنگائی اور روشنی کی رفتار میں اب کوئی فرق نہیں رہا ہے۔
وہ تمام کلیے، اصول اور پیمانے جو کبھی مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتے تھے، جواب دے گئے ہیں۔ سستا زمانہ، سستی چیزیں خواب ہوگئی ہیں۔ اگلے وقتوں کے دوچار لوگ جب کہیں مل بیٹھتے ہیں تو ان کا سب سے پسندیدہ اور محبوب ترین موضوع ''گزرا ہوا زمانہ'' ہوتا ہے، جب مٹھی بھر پیسوں میں ڈھیروں چیزیں آجاتی تھیں اور اب عالم یہ ہے کہ ڈھیر سارے روپوں میں مٹھی بھر چیز بھی نہیں آتی۔
آنیوالے چند روز میں موجودہ حکومت کا تیسرا بجٹ عوامی اور کاروباری حلقوں میں زیر بحث ہوگا ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے موجودہ نظام میں ایسے ہی بجٹ بن سکتے ہیں جو گزشتہ کئی سال سے بن رہے ہیں۔ بجٹ کے اعداد وشمار کے گورکھ دھندے سب کے سامنے آجائیں گے، سب سن بھی لیں گے، تمام اعداد وشمار، تبصرے، تجزیے اپنے اختتام کو پہنچیں گے، خوش گمانیاں ہائے ہائے کرتی رخصت ہوں گی، تنخواہ میں اضافہ جس کا ہم گھڑیاں گن گن کر انتظار کرتے ہیں وہ مہنگائی کے مقابلے میں بقدر اشک بلبل ثابت ہوگی۔
نہ تو ہم کاروباری ہیں، نہ صنعتکار اور نہ ہی سرمایہ داری سے ہمارا کوئی تعلق ہے، ڈیوٹی اور ٹیکس وغیرہ وغیرہ کی بھی ہمیں ذرا سی بھی سمجھ نہیں۔ ہم تو عام آدمی میں سے ہیں اور اگر بجٹ سننے کا ہمیں کچھ شوق ہے تو صرف اس حد تک کہ ہم جان سکیں کہ آٹے دال کا بھائوکتنا کم ہوگا؟ گھی، دودھ اور گوشت کی قیمت کتنی نیچے آئے گی؟ پٹرول سستا ہوگا یا مزید مہنگا ہوگا؟ بد قسمتی سے ہر سال کی طرح اس سال بھی ہمارے سارے سوالوں کا جواب ہماری توقع کے برعکس ملے گا اور خوشی ملے گی تو صرف اتنی کہ ہم پر یہ انکشاف ہوگا کہ ہم پاکستان کے کروڑوں عوام میں سے نہیں بلکہ چیدہ چیدہ خواص میں سے ہیں کیونکہ حکومتی دعوے ہم سن رہے ہیں کہ یہ بجٹ عوام دوست ہوگا۔
اس بجٹ سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور چونکہ اس بجٹ سے ہماری زندگی پر بہت بُرے اثرات مرتب ہونگے تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ہم عوام میں سے نہیں بلکہ خواص میں سے ہیں۔ دو تین دن تو اسی خوشی میں ہم اکڑ اکڑ کر چلیں گے لیکن روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں دوبارہ معلوم ہوگی تو گردن کا کلف خود بہ خود نکل جائے گا، دل پر بوجھ اور دماغ پریشان ہوگا کہ آخر اب کیا کیا جائے؟ اب بھی دو چار دن حکومت کو بُرا بھلا کہہ کر صبر کرلیا جائے؟ حکومتوں کو تو ہم نے دیکھ لیا، نہ پچھلی حکومت ہمارے لیے کچھ کرنے والی تھی نہ موجود ہے اور نہ ہی آیندہ آنیوالی ہوگی۔
حسب روایت اس سال کے مالیاتی بجٹ میں بھی عوام سے بہت خوبصورت وعدے کیے جائیں گے اور ان وعدوں کے عوض ان سے اربوں روپے کے نئے ٹیکس وصول کیے جائیں گے، حکومت یہ بھی کہے گی کہ اس بجٹ سے غریبوں اور عوام کو بہت فائدہ پہنچے گا، مگر ہم اس عوام کو تلاش کررہے ہیں جسے بجٹ سے فائدہ حاصل ہوگا۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ماضی میں پیش ہونیوالے میزانیوں سے جن غریبوں کو زبردست فائدہ پہنچا تھا وہ کہاں رہتے ہیں اور کون لوگ تھے؟
عرصہ دراز سے ہمارا ہر بجٹ پرانی باتوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جہاں سال کے بارہ مہینے لگا تار بجٹ آتے ہوں وہاں سالانہ بجٹ کس کھاتے میں جائے گا اور اس کی کیا اوقات اور حیثیت ہوگی؟ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ماضی کی طرح ایک بار پھر بجٹ کے نام پر عوام کو جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کے ذریعے بیوقوف بناکر غریب اور متوسط طبقات کا خون چوسنے کا کام جاری ہے۔
تاکہ اس ملک کی اشرافیہ، امراء، حکمران، سیاستدان، بیورو کریٹس اور دیگر بااثر طبقات کی عیاشیوں، سہولتوں اور آسائشوں کا سامان پیدا کیا جاسکے اور ان کی دولت، جائیداد اور کاروبار کو وسعت دی جاسکے۔ بد دیانتی کا یہ عالم ہے کہ دولت مندوں سے ٹیکس لینے کی بجائے ٹیکسوں کا تمام بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور پھر کیسی بے شرمی سے جمع شدہ عوامی دولت کو بڑے بڑوں اور بااثر طبقات پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ تمام تر وعدوں کے باوجود غربت اور بیروزگاری میں اضافہ جاری ہے۔ امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب پر زندگی کا دائرہ تنگ کیا جارہا ہے۔ متوسط طبقہ تیزی سے کم ہورہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا میزانیہ تدوین کیاگیا ہو جس میں عوام کو ریلیف فراہم کیا گیا ہو۔ مارکیٹ اکانومی کے معیشت دان کہتے ہیں کہ دنیا عہد حاضر میں عالمی گائوں میں تبدیل ہوچکی ہے، اس گائوں کی تعریف یہ ہے کہ جن اقوام نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوت حاصل کرلی ہے وہ ترقی کرسکتے ہیں اور ان ہی کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، لہذا جن ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں معیشت کچھ نہیں ہے ان کی معیشت عالمی مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنلز کی خدمت گزاری سے زیادہ کچھ نہیں۔
ہر سال بجٹ کے موقعے پر مہنگائی کا طوفان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس وقت بھی انتظامیہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہے، یہ عام مشاہدہ ہے کہ بجٹ کے اعلان سے قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے اور قیمتوں میں من مانا اضافہ بھی۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد قیمتیں آسمان پر جا پہنچتی ہیں، خود حکومت بھی گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ منافع خوری میں شامل ہوجاتی ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ ایک طرف ریستورانوں میں کھانے والوں کا ایسا ہجوم ہے کہ بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی تو دوسری طرف تھر میں معصوم بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ ہمارے بازاروں میں رشوت، لوٹ مار اور بدعنوانیوں سے حاصل کی گئی رقم اپنا جلوہ دکھا رہی ہے، تو غریب مزدور اور تنخواہ دار طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔
ایک غیر مرئی دائرہ ہے جو بڑھتا ہی جارہا ہے، معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ قصائی بن گیا ہے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں چھری ہے، کاٹ رہا ہے اور کٹ رہا ہے، مظلوم وہ ہے جو اپنی جائز تنخواہ میں گزارا کرتا ہے اور اسے اپنا بدلہ چکانے کا موقع نہیں ملتا۔ رشوت لینے والا رشوت کا ریٹ بڑھادیتا ہے، دودھ والا دودھ مہنگا کردیتا ہے، قصائی گوشت کے دام بڑھادیتا ہے۔ دودھ والا اپنی زائد آمدنی قصائی کے حوالے اور قصائی اپنی زائد آمدنی سبزی والے کے حوالے کردیتا ہے۔ یوں حساب برابر ہوجاتا ہے، مگر ناجائز منافع خوری کے اس تبادلے کے نتیجے میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے۔
اس کا حقیقی بوجھ بے چارے تنخواہ دار طبقے پر آتا ہے جو اپنا بوجھ کسی دوسرے پر منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس غیر مرئی دائرے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر شخص دراصل اپنے آپ ہی کو لوٹ رہا ہے۔ جن جیبوں پر ہمارے ہاتھ ہیں، وہ ہماری اپنی ہی جیبیں ہیں، مہنگائی کا یہ دائرہ جسے معاشرے کے مختلف طبقات نے پیدا کیا ہے اسی طرح پھیلتا رہے گا۔ مہنگائی ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں منتقل ہوتی رہے گی اور آخر کار جس طبقے پر اس کا اختتام ہوگا وہ ایسے افعال کی انجام دہی پر مجبور ہوگا جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے پسندیدہ نہیں سمجھے جاسکتے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک پیش کردہ سالانہ بجٹ کی عوامی توقعات کبھی پوری نہیں ہوسکی۔ بجٹ میں ہمیشہ سرمایہ دار اور مراعات یافتہ لوگوں کے لیے اعلان کردہ تمام نکات پر عمل کیا جاتا ہے جب کہ غریب، محنت کشوں اور چھوٹے دکانداروں سمیت عام افراد کے لیے پیش کردہ بجٹ تجاویز کے منظور ہونے کے باوجود عوام سال بھر ان تجاویز پر عمل کیے جانے کے منتظر ہی رہتے ہیں کہ ایک نیا بجٹ آجاتا ہے۔بجٹ میں دفاع، تعلیم کے شعبوں کو مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے معاشی تجاویز کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک سرمایہ دار، امراء کا سرمایہ غریب کے ہاتھوں تک نہیں پہنچے گا اس وقت تک غربت، افلاس، بیروزگاری ختم نہیں ہوسکتی۔
جس طرح ریاضی میں مہارت کے دعوے کے باوجود ''طولِ شب فراق'' ناپنا ممکن نہیں اسی طرح ہمارے ملک میں مہنگائی کے طول و عرض کی پیمائش بھی مشکل ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مہنگائی اور روشنی کی رفتار میں اب کوئی فرق نہیں رہا ہے۔
وہ تمام کلیے، اصول اور پیمانے جو کبھی مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتے تھے، جواب دے گئے ہیں۔ سستا زمانہ، سستی چیزیں خواب ہوگئی ہیں۔ اگلے وقتوں کے دوچار لوگ جب کہیں مل بیٹھتے ہیں تو ان کا سب سے پسندیدہ اور محبوب ترین موضوع ''گزرا ہوا زمانہ'' ہوتا ہے، جب مٹھی بھر پیسوں میں ڈھیروں چیزیں آجاتی تھیں اور اب عالم یہ ہے کہ ڈھیر سارے روپوں میں مٹھی بھر چیز بھی نہیں آتی۔
آنیوالے چند روز میں موجودہ حکومت کا تیسرا بجٹ عوامی اور کاروباری حلقوں میں زیر بحث ہوگا ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے موجودہ نظام میں ایسے ہی بجٹ بن سکتے ہیں جو گزشتہ کئی سال سے بن رہے ہیں۔ بجٹ کے اعداد وشمار کے گورکھ دھندے سب کے سامنے آجائیں گے، سب سن بھی لیں گے، تمام اعداد وشمار، تبصرے، تجزیے اپنے اختتام کو پہنچیں گے، خوش گمانیاں ہائے ہائے کرتی رخصت ہوں گی، تنخواہ میں اضافہ جس کا ہم گھڑیاں گن گن کر انتظار کرتے ہیں وہ مہنگائی کے مقابلے میں بقدر اشک بلبل ثابت ہوگی۔
نہ تو ہم کاروباری ہیں، نہ صنعتکار اور نہ ہی سرمایہ داری سے ہمارا کوئی تعلق ہے، ڈیوٹی اور ٹیکس وغیرہ وغیرہ کی بھی ہمیں ذرا سی بھی سمجھ نہیں۔ ہم تو عام آدمی میں سے ہیں اور اگر بجٹ سننے کا ہمیں کچھ شوق ہے تو صرف اس حد تک کہ ہم جان سکیں کہ آٹے دال کا بھائوکتنا کم ہوگا؟ گھی، دودھ اور گوشت کی قیمت کتنی نیچے آئے گی؟ پٹرول سستا ہوگا یا مزید مہنگا ہوگا؟ بد قسمتی سے ہر سال کی طرح اس سال بھی ہمارے سارے سوالوں کا جواب ہماری توقع کے برعکس ملے گا اور خوشی ملے گی تو صرف اتنی کہ ہم پر یہ انکشاف ہوگا کہ ہم پاکستان کے کروڑوں عوام میں سے نہیں بلکہ چیدہ چیدہ خواص میں سے ہیں کیونکہ حکومتی دعوے ہم سن رہے ہیں کہ یہ بجٹ عوام دوست ہوگا۔
اس بجٹ سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور چونکہ اس بجٹ سے ہماری زندگی پر بہت بُرے اثرات مرتب ہونگے تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ہم عوام میں سے نہیں بلکہ خواص میں سے ہیں۔ دو تین دن تو اسی خوشی میں ہم اکڑ اکڑ کر چلیں گے لیکن روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں دوبارہ معلوم ہوگی تو گردن کا کلف خود بہ خود نکل جائے گا، دل پر بوجھ اور دماغ پریشان ہوگا کہ آخر اب کیا کیا جائے؟ اب بھی دو چار دن حکومت کو بُرا بھلا کہہ کر صبر کرلیا جائے؟ حکومتوں کو تو ہم نے دیکھ لیا، نہ پچھلی حکومت ہمارے لیے کچھ کرنے والی تھی نہ موجود ہے اور نہ ہی آیندہ آنیوالی ہوگی۔
حسب روایت اس سال کے مالیاتی بجٹ میں بھی عوام سے بہت خوبصورت وعدے کیے جائیں گے اور ان وعدوں کے عوض ان سے اربوں روپے کے نئے ٹیکس وصول کیے جائیں گے، حکومت یہ بھی کہے گی کہ اس بجٹ سے غریبوں اور عوام کو بہت فائدہ پہنچے گا، مگر ہم اس عوام کو تلاش کررہے ہیں جسے بجٹ سے فائدہ حاصل ہوگا۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ماضی میں پیش ہونیوالے میزانیوں سے جن غریبوں کو زبردست فائدہ پہنچا تھا وہ کہاں رہتے ہیں اور کون لوگ تھے؟
عرصہ دراز سے ہمارا ہر بجٹ پرانی باتوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جہاں سال کے بارہ مہینے لگا تار بجٹ آتے ہوں وہاں سالانہ بجٹ کس کھاتے میں جائے گا اور اس کی کیا اوقات اور حیثیت ہوگی؟ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ماضی کی طرح ایک بار پھر بجٹ کے نام پر عوام کو جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کے ذریعے بیوقوف بناکر غریب اور متوسط طبقات کا خون چوسنے کا کام جاری ہے۔
تاکہ اس ملک کی اشرافیہ، امراء، حکمران، سیاستدان، بیورو کریٹس اور دیگر بااثر طبقات کی عیاشیوں، سہولتوں اور آسائشوں کا سامان پیدا کیا جاسکے اور ان کی دولت، جائیداد اور کاروبار کو وسعت دی جاسکے۔ بد دیانتی کا یہ عالم ہے کہ دولت مندوں سے ٹیکس لینے کی بجائے ٹیکسوں کا تمام بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور پھر کیسی بے شرمی سے جمع شدہ عوامی دولت کو بڑے بڑوں اور بااثر طبقات پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ تمام تر وعدوں کے باوجود غربت اور بیروزگاری میں اضافہ جاری ہے۔ امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب پر زندگی کا دائرہ تنگ کیا جارہا ہے۔ متوسط طبقہ تیزی سے کم ہورہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا میزانیہ تدوین کیاگیا ہو جس میں عوام کو ریلیف فراہم کیا گیا ہو۔ مارکیٹ اکانومی کے معیشت دان کہتے ہیں کہ دنیا عہد حاضر میں عالمی گائوں میں تبدیل ہوچکی ہے، اس گائوں کی تعریف یہ ہے کہ جن اقوام نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوت حاصل کرلی ہے وہ ترقی کرسکتے ہیں اور ان ہی کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، لہذا جن ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں معیشت کچھ نہیں ہے ان کی معیشت عالمی مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنلز کی خدمت گزاری سے زیادہ کچھ نہیں۔
ہر سال بجٹ کے موقعے پر مہنگائی کا طوفان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس وقت بھی انتظامیہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہے، یہ عام مشاہدہ ہے کہ بجٹ کے اعلان سے قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے اور قیمتوں میں من مانا اضافہ بھی۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد قیمتیں آسمان پر جا پہنچتی ہیں، خود حکومت بھی گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ منافع خوری میں شامل ہوجاتی ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ ایک طرف ریستورانوں میں کھانے والوں کا ایسا ہجوم ہے کہ بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی تو دوسری طرف تھر میں معصوم بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ ہمارے بازاروں میں رشوت، لوٹ مار اور بدعنوانیوں سے حاصل کی گئی رقم اپنا جلوہ دکھا رہی ہے، تو غریب مزدور اور تنخواہ دار طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔
ایک غیر مرئی دائرہ ہے جو بڑھتا ہی جارہا ہے، معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ قصائی بن گیا ہے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں چھری ہے، کاٹ رہا ہے اور کٹ رہا ہے، مظلوم وہ ہے جو اپنی جائز تنخواہ میں گزارا کرتا ہے اور اسے اپنا بدلہ چکانے کا موقع نہیں ملتا۔ رشوت لینے والا رشوت کا ریٹ بڑھادیتا ہے، دودھ والا دودھ مہنگا کردیتا ہے، قصائی گوشت کے دام بڑھادیتا ہے۔ دودھ والا اپنی زائد آمدنی قصائی کے حوالے اور قصائی اپنی زائد آمدنی سبزی والے کے حوالے کردیتا ہے۔ یوں حساب برابر ہوجاتا ہے، مگر ناجائز منافع خوری کے اس تبادلے کے نتیجے میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے۔
اس کا حقیقی بوجھ بے چارے تنخواہ دار طبقے پر آتا ہے جو اپنا بوجھ کسی دوسرے پر منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس غیر مرئی دائرے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر شخص دراصل اپنے آپ ہی کو لوٹ رہا ہے۔ جن جیبوں پر ہمارے ہاتھ ہیں، وہ ہماری اپنی ہی جیبیں ہیں، مہنگائی کا یہ دائرہ جسے معاشرے کے مختلف طبقات نے پیدا کیا ہے اسی طرح پھیلتا رہے گا۔ مہنگائی ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں منتقل ہوتی رہے گی اور آخر کار جس طبقے پر اس کا اختتام ہوگا وہ ایسے افعال کی انجام دہی پر مجبور ہوگا جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے پسندیدہ نہیں سمجھے جاسکتے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک پیش کردہ سالانہ بجٹ کی عوامی توقعات کبھی پوری نہیں ہوسکی۔ بجٹ میں ہمیشہ سرمایہ دار اور مراعات یافتہ لوگوں کے لیے اعلان کردہ تمام نکات پر عمل کیا جاتا ہے جب کہ غریب، محنت کشوں اور چھوٹے دکانداروں سمیت عام افراد کے لیے پیش کردہ بجٹ تجاویز کے منظور ہونے کے باوجود عوام سال بھر ان تجاویز پر عمل کیے جانے کے منتظر ہی رہتے ہیں کہ ایک نیا بجٹ آجاتا ہے۔بجٹ میں دفاع، تعلیم کے شعبوں کو مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے معاشی تجاویز کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک سرمایہ دار، امراء کا سرمایہ غریب کے ہاتھوں تک نہیں پہنچے گا اس وقت تک غربت، افلاس، بیروزگاری ختم نہیں ہوسکتی۔