کیٹالونیہ سے کوئٹہ تک

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے خلاف لڑنے والوں میں افغان نواز، انڈیانواز، امریکی نواز اور چین نواز گروہ ہوسکتے ہیں


Zuber Rehman October 13, 2012
[email protected]

19 جولائی 1936 کی بات ہے جب فاشسٹ جنرل فرانکو کے اسپین پر جارحانہ قبضہ جمانے کے بعد 19 جماعتوں، انجمنوں اور فیڈریشنوں نے مشترکہ طور پر

لاکھوں جنگِ آزادی کے متوالوں نے دھاوا بولتے ہوئے 1939 تک اسپین کو خاص کر کیٹالونیہ، دیگر شہروں اور علاقوں کو کارکنوں کی ریاست بنا لی تھی۔ یہ عوامی جنگ اسٹیٹ لیس (بے ریاست) سماج تک پیش قدمی کرسکتی تھی، بشرطیکہ سوویت یونین، اس کی کمیونسٹ پارٹی اور اسپین کی روس نواز کمیونسٹ پارٹی نے اپنے اسلحے کے بل بوتے پر فاشسٹوں کا ساتھ نہ دیتے ہوئے غداری نہ کی ہوتی۔ اس عوامی جنگ میں ہزاروں کامریڈوں اور فاشسٹ مخالف جانبازوں نے عظیم قربانیاں دیں۔

جن میں دنیا کے عظیم مصنفوں جارج آر ویل جیسے انقلابی بھی شریک تھے۔ ان کا مشہور ناول ''اینیمل فارم'' جو کہ 1950 سے اب تک کروڑوں کی تعداد میں چھاپا جاچکا ہے، آکسفورڈ اور کراچی یونیورسٹی میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی سے ایک حد تک ملتی جلتی لڑائی کوئٹہ اور بلوچستان میں لڑی جارہی ہے۔ یہاں جنرل فرانکو براہِ راست کوئٹہ میں تو نہیں ہوتا جو اب اسلام آباد میں ہوتا ہے لیکن اس کے نمایندے کوئٹہ میں ہوتے ہیں، جس طرح میڈرڈ میں فرانکو ہوتا تھا اور اس کا نمایندہ کیٹالونیہ میں۔

جنگ خود ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
خون اور آگ آج دے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی

مگر جنگ مسلط کرنے پر ردعمل بھی ہوتا ہے، جس طرح نیوٹن نے توانائی کے اپنے تیسرے فارمولے میں کہا کہ ''ہر عمل کا برابر کا ردعمل ہوتا ہے''۔ بلوچستان سے قبل مشرقی بنگال (یعنی مشرقی پاکستان) میں یہی کچھ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ نظام کی تبدیلی نہ ہونے پر بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں سنگین معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ مشرقی بنگال میں جب ''مکتی باہنی'' لڑرہی تھی اور اختتام پر ہتھیار نہیں ڈال رہی تھی بلکہ محلوں کی سطح تک خودکار پنچایتی کمیٹیاں، دفاعی کمیٹیاں اور امن کمیٹیاں تیزی سے بنائی جارہی تھیں تو انڈین فوج اور عوامی لیگ نے انھیں بے دردی سے کچلا بلکہ امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ اسی کام سے بحرِ بنگال میں لنگرانداز تھا کہ ضرورت پر اسے کام میں لایا جائے۔ اسے پاک و ہند فوج سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

اگر خطرہ تھا تو مکتی باہنی سے۔ اسپین اور مشرقی بنگال کے وسائل حکمرانوں کے بنیادی ہدف تھے نہ کہ عوام۔ بھوک، افلاس اور غربت سے اسپین اور بنگلہ دیش کے عوام کل بھی مررہے تھے اور آج بھی۔ اس قسم کے مفادات سرمایہ داروں کے بلوچستان میں بھی ہیں۔ ریکوڈک پروجیکٹ کے ذریعے چاغی سے تانبا نکالا جارہا ہے اور یہیں سے سونا بھی نکل رہا ہے۔ یہ معاہدہ چین سے ہوا ہے۔ کوئلے کا بڑا ذخیرہ چمالانگ میں ہے۔ یہاں سے نکالے جانے والے کوئلے کا حصّہ بجارانی مری وغیرہ کو دیا جاتا ہے۔ چمالانگ کے علاوہ کوئلہ مچھ، ماران، بھرنائی وغیرہ سے بھی نکلتا ہے۔ گیس سوئی سے نکلتی ہے جو کہ بگٹی قبیلے کا علاقہ ہے۔

تیل اور گیس کا بڑا ذخیرہ جاندران کے پہاڑ کے دامن میں متوقع ہے۔ ان کے علاوہ کرومائن، سلفر، نکل، چاندی، باکسائیڈ، اونیکس اور دیگر قیمتی پتھر اور بے شمار دھات موجود ہیں۔ جن پر اندرون ملک سرداران، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی چھینا جھپٹی ہے اور بیرونی ممالک میں کینیڈا، آسٹریلیا، امریکا، چین، ایران، انڈیا، سعودی عربیہ اور افغانستان شامل ہیں۔ ان مفادات کے مدنظر اندرونی اور بیرونی حملہ آوروں کا غول ان نیم مردہ جان بلوچ وسائل پر منڈلارہا ہے۔ ان وسائل کی لوٹ کے لیے یہاں کے محنت کش باسیوں کو بلوچ، بروہی، ہزارہ، پختون،مختلف مذہبی فرقوں میں تقسیم کرنے کے لیے مسلسل قتل کیا جا رہا ہے۔

ہزاروں نوجوانوں کی نعشوں پر ''پاکستان زندہ باد'' لکھ کر بے گوروکفن پھینکا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے خلاف لڑنے والوں میں افغان نواز، انڈیانواز، امریکی نواز اور چین نواز گروہ ہوسکتے ہیں۔سریم کورٹ کے عبوری فیصلے کے مطابق بلوچستان میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے ثبوت مل گئے جب کہ ان میں مختلف متضاد اور متحارب مفادات ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہزاروں لاکھوں محنت کش نوجوان جن کا کسی گروہ یا نمک خواروں سے تعلق نہیں ہے جو صرف سرداروں، خانوں، جماعتوں کے رہنمائوں اور ایجنسیوں کی مداخلت کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ بہادری، جرأت، ہمت، بے لوثی اور بے غرضی سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور اس کے آلۂ کاروں، سرداروں، سیاسی جماعتوں اور سامراجی آلہ کاروں کے خلاف لڑرہے ہیں۔

اس لڑائی میں ہزاروں بلوچ نوجوان اور محنت کش جان سے جاتے رہے۔ بلوچ نوجوان اپنی سرزمین، اپنے لوگ، اپنے شہری، اپنی بھوک، بے روزگاری، افلاس، ذلتوں، غلاظتوں اور قتل عام کے ردعمل میں جان سے گئے۔ اس لڑائی میں دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے زیادہ جڑنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ''وال اسٹریٹ قبضہ تحریک'' کے دوران ہوا، اس لیے بھی کہ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ بن چکا ہے۔ کسی کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ دولت مندوں کے تحفظ اور شہریوں کے خون نچوڑنے کا باعث ہیں۔ ریاست ہمیشہ ناانصافی اور شہریوں کو تقسیم کرتی آرہی ہے۔

پھر ہم یہ کیوں کر توقع کرلیں کہ یہ انصاف اور برابری دے گی۔ اگر کہیں بھی ذرا سی گنجایش ہوتی تو بالٹک ریاستوں سے لے کر وسطی ایشیا کی ریاستوں، کوہِ قاف سے بلقان کی ریاستوں، جنوبی امریکا سے جنوبی افریقا کی ریاستوں، مشرقی یورپ سے ہندو چین کی ریاستوں، منگولیا، کوریا یا چین میں کہیں تو کارکنوں کا آزاد معاشرہ قائم ہوتا؟ اور آیندہ بھی اس کی توقع ایک فالتو اور بے مقصد کوشش ہوگی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان میں ایک ایسا پنچایتی نظام رائج کیا جائے جو عدم مرکزیت پر قائم ہو، فوجی بالادستی ناپید ہو، سرمایہ داری کے جوئے سے بلوچ عوام کو نجات ملے۔

مذہبی مابعد الطبیعاتی ابہام پرستی، مذہبی جنونیت اور رجعتی سرمایہ داری (اسٹیسکو) سے بلوچ کارکنوں کو حقیقی آزادی مل سکے۔ پھر فوجی بجٹ کے خاتمے، میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے ، مقدمات میں پھنسے غریبوں کے ساتھ ناانصافی، وکیلوں کی موکلوں سے لوٹ مار اور اسمبلی کے ارب پتیوں سے نجات حاصل کرکے ایک ایسا خوش حال، برادری، مساوات اور مسابقت سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے، جہاں ہر طرف بھائی چارگی اور محبت کے گیت گائے جائیں اور اس کی خوشبوئوں سے معطر بلوچستان جھوم اٹھے، جس کا ہم نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا اور تمام وسائل سارے لوگوں کے ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔