ناکام ریاست‘ منقسم قوم
جنگ حکومتیں نہیں قوم لڑا کرتی ہیں، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر صرف قوم کھڑی رہتی ہے
جناب ریاست مضبوط ہو اور اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو ایسے دلائل نہیں دیے جاتے جو قوم کی بہادر بیٹی ملالہ یوسف زئی کے دفاع میں دیے جا رہے ہیں۔
ایک مضبوط ریاست ہوتی تو لوگ یہ دلائل سن کر ہمدردی کا اظہار نہ کرتے بلکہ انھیں مضحکہ خیز قرار دیتے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے۔ ملالہ یوسف زئی تو 14 سال کی معصوم بچی ہے۔ اس نے طالبان کا کیا بگاڑا تھا۔ بھلا ملالہ یوسف زئی نے طالبان کے خلاف کیا بات کی تھی۔ ملالہ یوسف زئی نے تو صرف اپنے اسکول کھلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اگر ملالہ میڈیا پر نہ آتی تو اس پر یہ حملہ بھی نہ ہوتا اور اب جب کہ حملہ ہو گیا ہے تو ملالہ یوسف زئی کی ساتھیوں شازیہ اور کائنات کو بالکل میڈیا پر نہ دکھایا جائے کیونکہ ان کی جان بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ تمام باتیں ریاست کی ناکامی کا اظہار نہیں تو اور کیا ہیں۔ کسی بھی مضبوط ریاست کے لیے یہ باتیں مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہیں۔ اگر ملالہ یوسف زئی نے طالبان کا واقعتاً کچھ بگاڑا ہوتا۔ اگر ملالہ یوسف زئی نے حقیقتاً طالبان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ہوتا۔ اگر ملالہ یوسف زئی صرف اپنے اسکول کھلنے کی خواہش کا اظہار نہ کرتی بلکہ طالبان پر کھل کر تنقید کرتی اور ملالہ یوسف زئی نے جو تمام باتیں میڈیا پر آ کر کیں اس سے زیادہ بڑھ چڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف مہم چلائی ہوتی اور اگر ملالہ یوسف زئی 14 سال کی چھوٹی بچی نہ ہوتی بلکہ ایک بالغ خاتون ہوتی تو کیا سب یہ کہہ رہے ہوتے کہ کیونکہ اس نے یہ سب کیا اس لیے اس پر حملہ تو ہونا ہی تھا۔
کیا اس ملک میں یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اگر آپ بالغ ہیں، پڑھے لکھے ہیں' دہشت گردی کے خلاف ایک مؤقف رکھتے ہیں اور اس کا ببانگ دہل اظہار بھی کرتے ہیں تو پھر دہشتگرد آپ کو قتل کرنے میں حق بجانب ہیں۔ نہیں جناب نہیں۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ سراسر ریاست کی ناکامی ہے اور وہ بھی اس علاقے میں کہ جہاں فوجی آپریشن کر کے حالیہ دور میں ہی ریاستی رٹ قائم کی گئی اور جہاں حکومت آج بھی اپنی کارکردگی دکھا کر معاملات اپنے ہاتھ میں نہ لے سکی اور معاملات ابھی تک فوج کے کنٹرول میں ہیں اور یہ سب کچھ سوات میںنہیں بلکہ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت ممکن ہے۔
اگر اس ملک کے شہری کسی سے اختلاف رائے کا حق کھو بیٹھیں' دہشتگردوں کے نقطہ نظر کو ماننے سے انکار کرنے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی صورت میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو قصور ریاست کا ہے، سو فیصد ریاست کا ہے۔ دہشت گرد کا تو نظریہ اور کام ہی اختلاف رائے پر قتل کر دینا ہے مگر ریاست کا کام بھی تو اپنے شہری کا تحفظ کرنا ہے۔ مگر یہاں نہ تو تحفظ ملتا ہے اور نہ ہی تحفظ کا احساس۔
اگر ریاست پر شہریوں کا اعتماد ہوتا تو لوگ تحفظ بھی محسوس کرتے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہی نہ ہوتا اور اگر ایسا واقعہ ہو بھی جاتا تو اگلے دن اس کے اسکول میں حاضری سو فیصد ہوتی۔ یہاں تو معاملہ ہی الگ ہے۔ دہشت گردی کا ڈر ہے تو اسکول بند کر دیں۔ ریاست تحفظ نہیں دے سکتی تو دہشت گردوں کے خلاف آواز نہ اٹھائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کیونکہ اس ملک میں لوگوں کو فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر گاڑیوں سے اتار کر قتل کیا جاتا ہے اور ریاست دور دور تک تحفظ کرتی نظر نہیں آتی اس لیے بہتر ہو گا کہ لوگ آیندہ بچوں کے نام اس طرح رکھیں کہ کوئی شناختی کارڈ دیکھ کر فرقہ ورانہ بنیادوں پر قتل نہ کر دے اور آیندہ اپنے بچوں کو قومی زبان پر عبور حاصل کروائیں اور تمام علاقائی زبانوں پر بھی۔
کیونکہ ریاست نے تو تحفظ دینا نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ بچے بڑے ہو کر ہر زبان فر فر بولنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تاکہ جو زبان دہشت گرد بولتے ہوں اسی زبان میں ان سے بات کر کے کسی بھی لسانی قتل سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر گھر میں پانچ افراد رہتے ہیں اور اغواء برائے تاوان کا خطرہ ہے تو ہر فرد کے ساتھ سکیورٹی گارڈ رکھ لیں اور اگر نہیں رکھ سکتے تو بہتر ہے کہ گھر سے ہی نہ نکلیں تاکہ ایسی کسی بھی کارروائی سے بچ سکیں۔ گاڑی چھنتی ہے تو گاڑی نہ چلائیں۔ موبائل چھنتا ہے تو موبائل استعمال کرنا چھوڑ دیں۔
مساجد میں دہشتگردی کا خطرہ ہے تو نماز پڑھنا چھوڑ دیں اور بچیاں اگر اسکول جائیں تو خطرہ ہے اس لیے انھیں پڑھانا چھوڑ دیں۔ ریاست جناب ریاست' تحفظ اور احساس تحفظ کی ضمانت صرف اور صرف ریاست دے سکتی ہے اور ملالہ یوسف زئی پر حملہ دہشتگردوں کی کامیابی نہیں ریاست کی ناکامی ہے اور ریاست حالت جنگ میں ہونے کے باوجود مخمصے کا شکار ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ حکومتیں نہیں بلکہ قومیں جیتتی ہیں اور تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ قوم کا متحد ہونا لیڈروں کی ذمے داری ہوتی ہے اور بدقسمتی سے جیسے اس ملک میں سیاسی لیڈر شپ تقسیم ہے اسی طرح قوم شدید عدم تحفظ کے احساس کے باوجود اس بات پر تقسیم ہے کہ دشمن کون ہے اور اس سے نمٹنا کیسے ہے اور یہ تقسیم سیاسی اور مذہبی لیڈران دونوں میں ہی بہت واضح نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) مذاکرات کی بھی حامی ہے اور سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن کے حق میں اسمبلی میں ووٹ بھی دے چکی ہے۔ اس سے پہلے نظام عدل کے حق میں بھی ووٹ دے چکی ہے۔
میاں نواز شریف ملالہ یوسف زئی پر حملے کی مذمت ضرور کرتے ہیں مگر مظلوم پر کیے گئے ظلم کی مذمت قاتل کی مذمت کیے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔ اور اس صورت میں تو مایوس کن حد تک ادھوری کہ جب ظالم اپنے ظلم کا ناصرف اعتراف کرچکا ہو بلکہ اسے دہرانے کے عزم کا ببانگ دہل اظہار بھی کررہا ہو۔ یہی مایوسی عمران خان کی طرف سے بھی نظر آتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا مؤقف دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہمیشہ مذاکرات کے حق میں اور آپریشن کے خلاف رہا ہے مگر اپنے امن مارچ کے لیے شمالی وزیرستان کی بجائے جنوبی وزیرستان کے اسی علاقے کا انتخاب کرتے ہیں کہ جہاں فوج نے آپریشن کرکے اپنی رٹ قائم کی ہے۔
ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہیں مگر جب حملہ آوروں کی مذمت کی بات کی جائے تو اکانومسٹ میگزین کے مطابق عمران خان فرماتے ہیں کہ ''میرے پارٹی کارکنان کو کون بچائے گا اگر میں یہاں بیٹھ کر طالبان کے خلاف بڑے بڑے بیان دیدوں''۔ وزیر داخلہ رحمن ملک طالبان کو ظالمان بھی قرار دیتے ہیں مگر پر امن عاشور کے جلوسوں کے بعد طالبان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے کوئی دہشتگردی کی کارروائی نہ کی۔ چالیس ہزار پاکستانی شہری شہید ہوچکے مگر مذہبی رہنما بھی قوم کو ایک نقطے پر متحد کرنے میں بالکل ناکام ہیں۔ کوئی فرقہ طالبان کے خلاف تو کسی فرقے کا دعویٰ ہے کہ طالبان ہمارے بھائی ہیں۔ کسی فرقے کے علماء کی طرف سے پچاس علماء دین کا ملالہ یوسفزئی پر حملے کے خلاف فتوی تو کسی فرقے کی خاموشی۔
علماء کے لیے بھی فیصلے کا وقت ہے کہ دین کی تشریح انھوں نے کرنی ہے یا پھر دہشتگردوں نے جو 14 سالہ بچی پر حملے کی دینی تاویلیں دے رہے ہیں۔ قوم متحد ہو تو کیسے ہو۔ تحفظ کا احساس ہو تو کیسے ہو۔ ریاست ہے کہ ناکام ہوتی جاتی ہے۔ لیڈران ہیں کہ متحد ہونے کا نام نہیں لیتے ہیں۔ سب اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔ سچ ہے کھرا سچ کہ جنگ حکومتیں نہیں قوم لڑا کرتی ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر صرف قوم کھڑی رہتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ کوئی نہیں کہ جو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ہمت اور حوصلے کی مثال بنے۔ لڑنا ہے تو لڑیں۔ مذاکرات کرنے ہیں تو کریں۔ مگر مل کر کوئی فیصلہ تو کریں۔ چالیس ہزار تو شہید ہوگئے اور کتنے۔ معاہدے پہلے بھی کرلیے اور کتنے۔ اور کتنا خون بہے گا اس ملک کے شہریوں کا تو یہ سب متحد ہوں گے اور مل کر قوم کو متحد کریں گے اور اس ریاست کو مضبوط کریں گے۔ اور کتنی ملالہ یوسفزئی اور کب تک یہ ناکام ریاست اور منقسم قوم۔