زمزمہ توپ جس کے ہاتھ آئی پنجاب اُسی کے زیرِنگیں آگیا

زمزمہ توپ پچھلی قریباً ڈیڑھ صدی سے اِسی جگہ پر پڑی زمانے کے عروج زوال کو دیکھ رہی ہے۔


صدام حسین June 09, 2015
صدیوں کا سفر کر کے یہ عظیم توپ انار کلی بازار کے سامنےتنہا ایک چبوترے پر ایستادہ ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI: لیکچر ختم ہوا، میں گورنمنٹ کالج سے باہر آیا، انار کلی کی طرف جانے والی سڑک عبور کرکے میں ناصر باغ کے ساتھ چلتا ہوا مال روڈ پر پہنچا اور پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے مرکزی دروازے کے پاس بس اسٹاپ پر بیٹھ کر بس کا انتظار کرنے لگا۔ یہاں گرد و پیش پر نظریں دوڑاتے ہوئے میری نظر قریب ہی استنبول چوک پر ایستادہ دیو ہیکل توپ پر پڑی جس کے چبوترے پر ایک اُدھیڑ عمر آدمی کبوتروں کے غول کو دانہ دنکا ڈال رہا تھا۔ اجنبی دیسوں سے آئے کبوتروں کے غول اس چبوترے پر اترتے، دانہ چُگتے اور ان دیکھے دیسوں کی طرف پرواز کر جاتے۔ کبوتروں کے غول، اُدھیڑ عمر آدمی اور مال روڈ پر چمچماتی گاڑیوں میں گزرتے امراء بے خبری سے اس چوک کے پاس سے آ جا رہے تھے جس کے چبوترے پر ایک پرانے زمانے کی زنگ آلود توپ پڑی ہے، جو کہ زمانے کا سرد گرم سہتے سہتے اپنی شناخت کھو چکی ہے۔ حالانکہ ایک زمانے میں اس کے بارے میں مشہور تھا کہ جس کے پاس یہ توپ ہو لاہور شہر اُسی کا ہوگا۔

مگر آج صدیوں کے ہیر پھیر نے اس کو صرف پرانے زمانے کی ایک یادگار بنا دیا ہے۔ میری نظر اس کے دیوہیکل دھانے پر مرکوز ہوکر رہ گئی اور میں تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوگیا۔ مجھے Redyard Kipling کا لکھا ہوا ناول Kim یاد آیا جس کی کہانی لاہورعجائب گھر کے گرد گھومتی ہے اور جو اِسی توپ کے تذکرے سے شروع ہوتا ہے اور اِسی مناسبت سے اسے Kim's Gun بھی کہا جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ''ایک آدمی کو اس نے میونسپل حکام کی خلاف ورزی میں اس توپ کے دھانے پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھے دیکھا جو کہ لاہور عجائب گھر کی پرانی عمارت کے سامنے کھڑی ہے۔

یہ توپ جس کے قبضے میں رہی پنجاب اُسی کے زیرِ تسلط رہا، فاتحین سب سے پہلے کانسی کی دھات میں ڈھلے اس عظیم شاہکار پر قابض ہوتے تھے ''میرا ذہن مجھے تین صدیاں پیچھے 1757ء میں لے گیا جب افغان فاتح احمد شاہ درانی جسے احمد شاہ ابدالی بھی کہا جاتا ہے، کے حکم سے اس کے وزیر شاہ ولی خان نے یہ توپ مغل دور کے معروف دھات ساز شاہ نذیر سے تیار کروائی۔



فوٹو: گوگل

کہا یہ جاتا ہے کہ توپ کی تیاری میں خالص تانبہ اور اعلٰی درجے کا پیتل استعمال ہوا۔ لاہور کے عوام سے گھریلو استعمال کے تانبے اور پیتل کے برتن اکٹھے کرکے اُنھیں پگھلایا گیا اور اس توپ کی موجودہ شکل میں ڈھالا گیا۔ بعض مورخین کے مطابق شاہ ولی خان نے احمد شاہ درانی کے حکم سے مفتوح علاقوں کے عوام سے جزیہ میں مال و دولت کی بجائے تانبے اور پیتل کی مصنوعات دینے کا اعلان کروا دیا، ہزاروں ٹن تانبہ اور پیتل اکٹھا ہوا جسے پگھلا کر یہ توپ تیار کی گئی۔ توپ کا دھانہ 14 فٹ ساڑھے 5 انچ لمبا ہے جس پر فارسی زبان میں اِس توپ کو بنوانے والے کا نام اور تاریخ کنندہ ہے۔

سب سے پہلے اس دیوہیکل توپ کا استعمال 1761ء میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی لڑائی میں کیا تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو کابل واپسی کے دوران احمد شاہ اِسے لاہور میں اپنے گورنر خواجہ عبید کے پاس چھوڑ گیا۔ پانی پت سے واپسی کے دوران دریائے چناب پار کرتے ہوئے اس جیسی ایک دوسری توپ دریا بُرد ہوگئی جو کہ بعض مصنفین کے مطابق اِسی کے ساتھ بنائی گئی تھی۔

1762ء میں ہری سنگھ بھنگی نے لاہور پر قبضہ کیا تو احمد شاہ کے گورنر سے یہ توپ بھنگی سرداروں کے ہاتھ لگ گئی اور یوں اِس کا نام بھی بدل کر ''بھنگیوں والی توپ'' پڑگیا۔ بھنگی سرداروں کے دور میں یہ شاہی قلعہ کے شاہ برج پر ایستادہ رہی۔ بعد میں والئی گوجرانوالہ چڑٹ سنگھ کے ہاتھ لگی جو اسے لاہور سے گوجرانوالہ لے گیا۔ سردار چڑٹ سنگھ کی احمد خان چٹھہ سے لڑائی ہوئی تو وہ یہ توپ چھین کر احمد نگر لے گیا، جہاں اس کی وجہ سے احمد خان چٹھہ اور اُس کے بھائی پیر محمد چٹھہ کے درمیان لڑائی ہوئی جس میں دونوں طرف سے بیشتر افراد مارے گئے۔ دونوں بھائیوں کی اِس باہمی لڑائی میں گجر سنگھ بھنگی نے پیر محمد کا ساتھ دیا اور لڑائی ختم ہوئی تو توپ اپنے ساتھ لاہور لے آیا۔ کچھ سال بعد امرتسر کے مہاراجہ جھنڈا سنگھ نے پشتونوں کو شکست دیکر لاہور میں لُوٹ مار کی اور جاتے ہوئے زمزمہ کو بھی امرتسر لے گیا۔ 1799ء میں سردار رنجیت سنگھ محض 19 برس کی عمر میں لاہور کا حاکم بنا، اپنی عوام دوست پالیسیوں کی بنا پر عوام میں بے حد مقبول ہوا، ذرا حکومت مضبوط ہوئی تو مہاراجہ نے 1802ء میں امرتسر پر حملہ کیا، امرتسر فتح ہو کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زیر تسلط آیا تو یہی سے بھنگیوں کی مشہور توپ بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ہاتھ لگی اور وہ اسے لاہور لے آیا۔ اس توپ نے رنجیت سنگھ کی بیشتر مہمات میں بہت کارآمدکردار ادا کیا۔ قصور، ڈسکہ، سجن پور، وزیرآباد اور ملتان کے محد پر اس توپ نے دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ بہت زیادہ جنگی استعمال کی وجہ سے یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ ملتان کی مہم میں خصوصاً اسے بہت زیادہ نقصان پہنچا اور مزید جنگی استعمال کے قابل نا رہی تو اِسے لاہور منتقل کر دیا گیا اور دہلی گیٹ کے سامنے سکھ خالصہ سلطنت کی فتوحات کی یادگار کے طور پر سجا دیا گیا۔



فوٹو:گوگل

وقت گزرتا رہا، 1848ء میں قریباً پورے پنجاب پر برطانوی یونین جیک لہرانے لگا، ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں خالصہ فوج کو شکست دیکر لاہور میں داخل ہوئیں تو خالصہ سلطنت کا سورج غروب ہوگیا اور لاہور کی چابی گورے ہاتھوں میں چلی گئی اور یہ توپ بھی گوروں کے زیر تسلط آگئی۔ ایک بار پھر یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ ''جس کے پاس یہ توپ ہو، پنجاب اُسی کا ہو گا''۔ 1860ء تک یہ توپ دہلی دروازے کے باہر پڑی رہی، ڈیوک آف ایڈن برگ نے لاہور کا دورہ کیا تو اِسے مال روڈ پر ٹولنٹن مارکیٹ کے پاس پرانے عجائب گھر عمارت کے سامنے سجا دیا گیا۔ بعد میں جب لاہور میوزیم کی موجودہ عمارت تعمیر ہوئی تو اِسے عجائب گھر کے سامنے منتقل کر دیا گیا اور پچھلی قریباً ڈیڑھ صدی سے یہ اِسی جگہ پر پڑی زمانے کے عروج زوال کو دیکھ رہی ہے۔



فوٹو:گوگل

وقت کا منہ زور گھوڑا دوڑتا رہا اور زمانے کے گرم سرد نے اِس میں شکست و ریخت پیدا کر دی تو 1977ء میں حکومت کے کسی کرم فرما کی نظر اس پر پڑی، پھر اِس کی مرمت کروائی اور استنبول چوک میں عجائب گھر اور NCA کے سامنے یادگار کے طور پر رکھوا دیا۔ صدیوں کا سفر کرکے یہ عظیم توپ یہاں تنہا ایک چبوترے پر ایستادہ ہے اس کے سامنے تاریخ بدلی، نسلیں پیدا ہوئیں اور مٹ گئیں، زمانے کے خدوخال بدل گئے، مگر اِس کی عظمت اور شان جوں کی توں رہی۔ انسان، املاک سب کچھ زوال کی طرف گامزن ہے بس باقی رہے گا نام اللہ کا۔
(چیئرنگ کراس، اسمبلی ہال جانے والے۔۔۔۔۔۔۔) کنڈیکٹر کی بلند آواز نے میرے خیالات کا طلسم توڑا اور مجھے ایک بار پھر حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ادھیڑ عمر اجنبی جا چکا تھا، کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ اور مال روڈ کی شور مچاتی ٹریفک میں ''زمزمہ'' تنہا کھڑی تھی۔ غروب ہوتے سورج کی سُرخی میں اس کا دھانہ ایسے بارعب لگ رہا تھا گویا کسی جنگ میں دشمن کے قلعے پر آگ برسا رہا ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں