عوام کی عدالت
بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور ضیا آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا
دنیا بھر کے ریسرچ کرنے والے ادارے مختلف النوع مسائل، موضوعات اور معاملات پر ریسرچ کرکے اپنی سروے رپورٹس شایع کرتے رہتے ہیں۔
چونکہ سروے کرنے والے افراد اور اداروں کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور عام آدمی تک ان کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اسی لیے کسی عوامی نوعیت کے حوالے سے کیے گئے سروے کی رپورٹ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی، جیسا کہ امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) کے ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے جس میں ملک کی سب سے بڑی اور چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھنے والی واحد سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں حد درجہ کمی اور اس کا گراف نیچے کی جانب جاتا ہوا دِکھایا گیا ہے۔
جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اس کی ایک روشن مثال پنجاب میں گزشتہ چار سال کے دوران منعقدہ ضمنی انتخابات میں پی پی پی کے امیدواروں کی کامیابی ہے۔ توہینِ عدالت کیس میں عوامی نمایندہ پی پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی نااہل قرار دے دیا گیا۔ لیکن ملتان کے ضمنی انتخاب میں گیلانی صاحب کی نشست پر ان کا بیٹا موسیٰ گیلانی کامیاب ہوگیا۔ حالانکہ موسیٰ گیلانی کے مخالف امیدوار کو (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف کی درپردہ حمایت بھی حاصل تھی۔ کیا موسیٰ گیلانی کی کامیابی نے (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا راز فاش نہیں کردیا؟
آپ گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی کی اتحادی حکومت کے حوالے سے اندرون و بیرون وطن ہونے والی مخالفانہ مہم جوئی، میڈیا ٹرائل اور تنقیدی تبصروں اور تجزیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مخالفین صدر زرداری اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈا اور گھر جانے کے بلند بانگ دعوے کرتے بلکہ حکومت کے خاتمے کی تاریخوں پر تاریخیں دیتے چلے آرہے ہیں لیکن سب نقش بر آب ثابت ہوئے۔ صدر زرداری آج بھی ایوان صدر میں موجود ہیں اور پی پی پی کی حکومت بھی قائم ہے۔ اتحادی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
این آر او عمل درآمد کیس میں سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کے مسودے پر عدالتِ عظمیٰ کی آمادگی اور سماعت 14 نومبر تک ملتوی ہونے کے بعد حکومت عدلیہ محاذ آرائی کا سلسلہ بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور بلاشبہ اب یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مخالف قوتوں کی چال بازیوں کے باوجود صدر زرداری اور پی پی پی کی اتحادی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلیں گے اور مخالفین کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ اگر آپ گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سیاسی و غیر سیاسی ہر دو قوتوں نے پی پی پی کو ہر دور میں دیوار سے لگانے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔
پی پی کے رہنمائوں اور جیالے کارکنوں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنائے گئے، انھیں جیلوں میں ڈالا گیا، کبھی عدالتی اور کبھی میڈیا ٹرائل کے ذریعے پی پی پی کے اکابر رہنمائوں کی نجی اور ذاتی زندگی کے حوالے سے من گھڑت کہانیاں پھیلائی گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کا دور اس حوالے سے خاصا نمایاں رہا کہ کس طرح ایک آمر مطلق نے ملک کے مقبول ترین عوامی لیڈر اور پی پی پی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی ٹرائل کے ذریعے تختۂ دار تک پہنچایا۔ پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے اس کے کارکنوں اور رہنمائوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔
بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور ضیا آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ضیاء الحق نے بیگم صاحبہ کی مقبولیت سے گھبرا کر انھیں گرفتار کرکے پسِ زنداں ڈال دیا لیکن اس بہادر خاتون کے عزم و استقلال کو قیدی نہ بناسکے۔ بیگم نصرت بھٹو نے عدالت عظمیٰ میں ضیا آمریت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا لیکن وقت کے منصفوں نے ''نظریہ ضرورت'' کے تحت ضیاء الحق کے مارشل لاء کو جائز اقدام قرار دے دیا۔
تاہم یہ مقدمہ ''نصرت بھٹو کیس'' کے نام سے مشہور ہوا اور بیگم صاحبہ کا نام تاریخ میں امر کر گیا۔ گزشتہ سال 23 اکتوبر کو بیگم نصرت بھٹو کا انتقال ہوا حکومت نے بیگم صاحبہ کی قومی سیاسی خدمات کے اعتراف میں انھیں بعد از مرگ ''نشانِ امتیاز'' اور ''مادرِ جمہوریت'' کے خطاب سے نوازا۔ اگلے ہفتے 23 اکتوبر کو بیگم بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں کارکنوں کا اجتماع پی پی پی کی مقبولیت اور شہید قائدین سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوگا۔ بیگم نصرت بھٹو جب مختلف النوع عوارض کے باعث علیل رہنے لگیں تو پارٹی کمانڈ اپنی بہادر بیٹی بے نظیر بھٹو کے حوالے کردی۔
بی بی نے ضیاء اور پھر مشرف آمریت کے خلاف بحالی جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، قید و بند کی صعوبتیں اور جلاوطنی کا عذاب جھیلا، اپنے شوہر آصف علی زرداری سے دوری کا صدمہ برداشت کیا لیکن کارکنوں اور رہنمائوں کو متحد و سرگرم رکھا اور پارٹی کو منظم اور مضبوط کیا۔ 27 دسمبر 2007 کو دہشت گردی کے حملے میں محترمہ کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی کی کمانڈ سنبھالی۔ ان کی سیاسی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ایک فرانسیسی جریدے نے لکھا کہ آصف زرداری نے اپنی اہلیہ اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھال کر جس طرح ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کی ہے، اس نے دنیا بھر کے مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
انھوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور اپنی جماعت کے ساتھ شریکِ اقتدار کرکے نیا باب رقم کیا ہے، وہ سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی قوتوں کے رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ یہ تجزیہ صدر زرداری کی سیاسی بصیرت کا اعتراف ہے اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا اعجاز بھی۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بجاطور پر کہا ہے کہ سروے مقبولیت جانچنے کا پیمانہ نہیں ہوسکتے۔ پی پی پی کئی ضمنی الیکشن جیت چکی ہے اور حکومت نے شروع دن سے مفاہمت کی سیاست اور جمہوری اداروں کے استحکام کی پالیسی اپنائی ہے۔
گزشتہ ساڑھے چار سال میں پی پی پی نے قومی نوعیت کے اہم معاملات کو حل کیا ہے، جس میں مالیاتی ایوارڈ کی صوبوں میں تقسیم، صوبائی خودمختاری کا مسئلہ، آئینی ترامیم، وزیراعظم کو اختیارات کی منتقلی، صوبہ سرحد کو پختون خوا کا نام دیا، معزول ججز کو بحال کیا، غیر جانبدار الیکشن کمشنر کا تقرر وغیرہ یہ ایسے کارنامے ہیں جو ماضی کی کوئی حکومت انجام نہیں دے سکی اور یہی پی پی پی کی مقبولیت کا پیمانہ ہیں نہ کہ نام نہاد سروے کیونکہ اصل طاقت عوام ہیں، فیصلہ عوام کے ووٹوں سے ہوتا ہے، چند مخصوص افراد کی رائے سے ترتیب دیے گئے سروے رپورٹس سے نہیں، لہٰذا آیندہ انتخابات میں پی پی پی کی مقبولیت کا فیصلہ ''عوام کی عدالت'' میں ہوگا۔
چونکہ سروے کرنے والے افراد اور اداروں کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور عام آدمی تک ان کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اسی لیے کسی عوامی نوعیت کے حوالے سے کیے گئے سروے کی رپورٹ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی، جیسا کہ امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) کے ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے جس میں ملک کی سب سے بڑی اور چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھنے والی واحد سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں حد درجہ کمی اور اس کا گراف نیچے کی جانب جاتا ہوا دِکھایا گیا ہے۔
جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اس کی ایک روشن مثال پنجاب میں گزشتہ چار سال کے دوران منعقدہ ضمنی انتخابات میں پی پی پی کے امیدواروں کی کامیابی ہے۔ توہینِ عدالت کیس میں عوامی نمایندہ پی پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی نااہل قرار دے دیا گیا۔ لیکن ملتان کے ضمنی انتخاب میں گیلانی صاحب کی نشست پر ان کا بیٹا موسیٰ گیلانی کامیاب ہوگیا۔ حالانکہ موسیٰ گیلانی کے مخالف امیدوار کو (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف کی درپردہ حمایت بھی حاصل تھی۔ کیا موسیٰ گیلانی کی کامیابی نے (ن) لیگ اور تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا راز فاش نہیں کردیا؟
آپ گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی کی اتحادی حکومت کے حوالے سے اندرون و بیرون وطن ہونے والی مخالفانہ مہم جوئی، میڈیا ٹرائل اور تنقیدی تبصروں اور تجزیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مخالفین صدر زرداری اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈا اور گھر جانے کے بلند بانگ دعوے کرتے بلکہ حکومت کے خاتمے کی تاریخوں پر تاریخیں دیتے چلے آرہے ہیں لیکن سب نقش بر آب ثابت ہوئے۔ صدر زرداری آج بھی ایوان صدر میں موجود ہیں اور پی پی پی کی حکومت بھی قائم ہے۔ اتحادی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
این آر او عمل درآمد کیس میں سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کے مسودے پر عدالتِ عظمیٰ کی آمادگی اور سماعت 14 نومبر تک ملتوی ہونے کے بعد حکومت عدلیہ محاذ آرائی کا سلسلہ بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور بلاشبہ اب یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مخالف قوتوں کی چال بازیوں کے باوجود صدر زرداری اور پی پی پی کی اتحادی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلیں گے اور مخالفین کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ اگر آپ گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سیاسی و غیر سیاسی ہر دو قوتوں نے پی پی پی کو ہر دور میں دیوار سے لگانے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔
پی پی کے رہنمائوں اور جیالے کارکنوں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنائے گئے، انھیں جیلوں میں ڈالا گیا، کبھی عدالتی اور کبھی میڈیا ٹرائل کے ذریعے پی پی پی کے اکابر رہنمائوں کی نجی اور ذاتی زندگی کے حوالے سے من گھڑت کہانیاں پھیلائی گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کا دور اس حوالے سے خاصا نمایاں رہا کہ کس طرح ایک آمر مطلق نے ملک کے مقبول ترین عوامی لیڈر اور پی پی پی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی ٹرائل کے ذریعے تختۂ دار تک پہنچایا۔ پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے اس کے کارکنوں اور رہنمائوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔
بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور ضیا آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ضیاء الحق نے بیگم صاحبہ کی مقبولیت سے گھبرا کر انھیں گرفتار کرکے پسِ زنداں ڈال دیا لیکن اس بہادر خاتون کے عزم و استقلال کو قیدی نہ بناسکے۔ بیگم نصرت بھٹو نے عدالت عظمیٰ میں ضیا آمریت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا لیکن وقت کے منصفوں نے ''نظریہ ضرورت'' کے تحت ضیاء الحق کے مارشل لاء کو جائز اقدام قرار دے دیا۔
تاہم یہ مقدمہ ''نصرت بھٹو کیس'' کے نام سے مشہور ہوا اور بیگم صاحبہ کا نام تاریخ میں امر کر گیا۔ گزشتہ سال 23 اکتوبر کو بیگم نصرت بھٹو کا انتقال ہوا حکومت نے بیگم صاحبہ کی قومی سیاسی خدمات کے اعتراف میں انھیں بعد از مرگ ''نشانِ امتیاز'' اور ''مادرِ جمہوریت'' کے خطاب سے نوازا۔ اگلے ہفتے 23 اکتوبر کو بیگم بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں کارکنوں کا اجتماع پی پی پی کی مقبولیت اور شہید قائدین سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوگا۔ بیگم نصرت بھٹو جب مختلف النوع عوارض کے باعث علیل رہنے لگیں تو پارٹی کمانڈ اپنی بہادر بیٹی بے نظیر بھٹو کے حوالے کردی۔
بی بی نے ضیاء اور پھر مشرف آمریت کے خلاف بحالی جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، قید و بند کی صعوبتیں اور جلاوطنی کا عذاب جھیلا، اپنے شوہر آصف علی زرداری سے دوری کا صدمہ برداشت کیا لیکن کارکنوں اور رہنمائوں کو متحد و سرگرم رکھا اور پارٹی کو منظم اور مضبوط کیا۔ 27 دسمبر 2007 کو دہشت گردی کے حملے میں محترمہ کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی کی کمانڈ سنبھالی۔ ان کی سیاسی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ایک فرانسیسی جریدے نے لکھا کہ آصف زرداری نے اپنی اہلیہ اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھال کر جس طرح ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کی ہے، اس نے دنیا بھر کے مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
انھوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور اپنی جماعت کے ساتھ شریکِ اقتدار کرکے نیا باب رقم کیا ہے، وہ سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی قوتوں کے رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ یہ تجزیہ صدر زرداری کی سیاسی بصیرت کا اعتراف ہے اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا اعجاز بھی۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بجاطور پر کہا ہے کہ سروے مقبولیت جانچنے کا پیمانہ نہیں ہوسکتے۔ پی پی پی کئی ضمنی الیکشن جیت چکی ہے اور حکومت نے شروع دن سے مفاہمت کی سیاست اور جمہوری اداروں کے استحکام کی پالیسی اپنائی ہے۔
گزشتہ ساڑھے چار سال میں پی پی پی نے قومی نوعیت کے اہم معاملات کو حل کیا ہے، جس میں مالیاتی ایوارڈ کی صوبوں میں تقسیم، صوبائی خودمختاری کا مسئلہ، آئینی ترامیم، وزیراعظم کو اختیارات کی منتقلی، صوبہ سرحد کو پختون خوا کا نام دیا، معزول ججز کو بحال کیا، غیر جانبدار الیکشن کمشنر کا تقرر وغیرہ یہ ایسے کارنامے ہیں جو ماضی کی کوئی حکومت انجام نہیں دے سکی اور یہی پی پی پی کی مقبولیت کا پیمانہ ہیں نہ کہ نام نہاد سروے کیونکہ اصل طاقت عوام ہیں، فیصلہ عوام کے ووٹوں سے ہوتا ہے، چند مخصوص افراد کی رائے سے ترتیب دیے گئے سروے رپورٹس سے نہیں، لہٰذا آیندہ انتخابات میں پی پی پی کی مقبولیت کا فیصلہ ''عوام کی عدالت'' میں ہوگا۔