’ہریالی لاؤ ماحول بچاؤ‘

پاکستان میں پینے کے پانی سے لے کرسانس لینے کے لئے میسر فضا میں بھی آلودگی میں رچی بسی ہے۔

شجرکاری ایک بہترین ماحول دوست عمل ہے۔ ہر شہری اگر کم از کم ایک درخت بھی لگانے کا عزم کرلے تو یہ فضا خوشگوار ہوسکتی ہے۔ فوٹو:فائل

شدید گرمی، چلچلاتی دھوپ اور حبس زدہ موسم میں بس کا انتظار کرتے کرتے سائے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو نگاہ کسی گھیرے درخت کی چھاؤں تلاش کرنے میں ناکام رہی. اسی جلتی بلتی سڑک پر دور دور تک گاڑیوں کا دھواں ہی نظر آیا لیکن دھواں کے اوجھل ہوتے ہی ایک بینر دکھائی دیا جس پر عالمی یوم ماحولیات کے حوالے سے منعقد کی جانے والی ایک ماحول دوست واک کا تذکرہ تھا، جس کا مقصد عوام کو ماحولیات سے متعلق سنگین خطرات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔ اتنی آلودہ اور پر کثیف فضا میں کیا محض چند افراد کی کاوشوں سے ماحول کو انسان دوست بنایا جاسکتا ہے؟ اسی سوچ میں غلطاں ہم گہرا، کالا اور گاڑھا دھواں فضا میں چھوڑتی بس میں سوار ہوگئے۔

جب گھر پہنچ کر کمپیوٹر آن کیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے یوم ماحولیات کی معلومات لینا چاہیں تو کئی ویب سائٹس اور خبریں کمپیوٹر اسکرین پر روشن ہوگئیں جس میں عالمی یوم ماحولیات کے حوالے سے منعقدہ تقریبات، منصوبوں کی تفصیلات موجود تھیں۔ دنیا بھر کا میڈیا اس حوالے سے آگاہی اور شعور فراہم کررہا تھا جب کہ ہمارا میڈیا علی امین گنڈا پور کی شرافت اور جرم کے کچے چٹھے کھولنے میں مصروف تھا۔ عقل سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ ترقی یافتہ اقوام عالم، جہاں پہلے ہی اتنی صفائی ستھرائی ہے، ہریالی لہلہاتی ہے، جہاں نلوں میں صاف ستھرا پانی آتا ہے، جس کے شہری نہیں جانتے کہ دھواں کس بلا کا نام ہے، جہاں گاڑیوں کا بے ہنگم اثدھام اور شور مچاتی، سیٹیاں بجاتی بسیں سڑکوں پر رواں دواں نہیں تو بھائی ان کو کیا آفت ہے کہ ماحولیات کا دن اتنے زور وشور سے منائے؟ ان کو تو چائیے کہ جو ہے اُسی اکتفا کرلیں۔

جہاں تک ہماری بات ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے معاملات کو اُجاگر کیا جائے؟ ابھی تو میڈیا کے پاس جعلی ڈگری اسکینڈل، ایان علی اور کے پی کے دنگا فساد مطلب بلدیاتی انتخاب کی چٹخارے دار خبریں موجود ہیں، ذرا اُن سے فارغ ہوجائیں تو ایک آدھ، چند سیکنڈ پر مشتمل خبر کا تذکرہ بھی کر ہی لیا جائے گا۔

5 جون کو معذرت کے ساتھ سوائے پاکستان کے دنیا بھرمیں ماحولیات کاعالمی دن منایا جاتا ہے جس میں ماحول کو سازگار رکھنے اور موسمی تغیر و تبدیلی پر منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل کا سدِباب کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کا تہیہ کیا جاتا ہے۔ نہ صرف منصوبہ بنتے ہیں بلکہ اُن پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے، لیکن افسوس پاکستان جیسا آلودہ ملک جس میں پینے کے پانی سے لے کرسانس لینے کے لئے میسر فضا بھی آلودگی میں رچی بسی ہے، ماحول کو بہتر اور سازگار بنانے کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ کیا اس کی ذمہ دار بھی صرف حکومت ہی ہے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ نہیں کیونکہ اِس معاملے میں حکومت کے ساتھ ساتھ شہریوں کا شعور یافتہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ ایک ایسا ماحول بنایا جاسکے جس میں ہماری آنے والی نسلیں صحت مند زندگی گزار سکیں۔

اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو حکومت سے قطع نظر صرف عوام ہی اپنے طور پر چند بنیادی اور ضروری امور انجام دینا شروع کردیں تو شاید ماحول کو بہتر بنانا ہرگز مشکل کام نہیں ہے۔ کیا ہی بھلا ہو کہ کوڑا کرکٹ کھڑکیوں سے نیچے پھنکنے کے بجائے ڈسٹ بن میں ڈالا جائے جسے باقاعدہ تلف کرنا حکومت کی ذمہ داری ہو۔ ذرا سوچئیے کہ اگر آپ پکنک منانے ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں تو یہ ضروری تو نہیں کہ آپ کھانے کے بعد کچرا اور شاپر بھی پانی کی نذر کرتے رہیں، کیا یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کی گاڑی دھواں چھوڑتی ہوئی فضا کی آلودگی میں مزید اضافہ کرتی جائے؟ ان تمام امور میں اگر تھوڑا سے شعور اور تہذیب کا اظہار کیا جائے تو آلودگی کو باآسانی کم کیا جاسکتا ہے۔


اس کے علاوہ شجرکاری ایک بہترین ماحول دوست عمل ہے۔ ہر شہری اگر کم از کم ایک درخت بھی لگانے کا عزم کرلے تو یہ فضا خوشگوار ہوسکتی ہے، ان درختوں سے فضا میں کاربن کی مقدار کو متوازن رکھ کر تمام ہی جانداروں کے لئے پائیدار ماحول بنایا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی ایک چھوٹی سی ماحول دوست کاوش کے طور پر کراچی میں ایک نجی ادارے ای ٹوای نے ''ہریالی لاؤ'' مہم کے آغاز سے کیا ہے جس میں ادارے نے رضا کارانہ طور پر 800 سے 1ہزار درخت لگا کر ماحول کو کاربن کے مضر اثرات سے بچانے کی کوشش کا عزم کیا ہے۔

ہمارے ملک میں ادارہ ماحولیات کو فعال اور سرگرم ہونے کی شدید ضرورت ہے، اگر ایسی ہی کی جانے والی چھوٹی چھوٹی کاوشوں کو سرکاری سر پرستی حاصل ہوجائے تو اس کا دائرہ کار وسیع ہوسکتا ہے اور اس سے بڑھ کر ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے وسیع ذرائع میسر آسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے لیے بھی جتنا ممکن ہو آلودگی پھیلانے والے عوامل سے بچنا چاہئیے اور ماحولیات کی بقا کے لئے اپنے طور پربھی اقدامات کرنے چاہئیں۔

[poll id="464"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 
Load Next Story